مستشرقین کا قرآن حکیم پر یہ ایک بڑا مشہور اعتراض ہے کہ قرآن حکیم میں ایسی آیات موجود ہیں جو باہم ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔لیکن مسلمان یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ یہ باہم متضاد نہیں بلکہ ان کا آپس میں تعلق ناسخ منسوخ کا ہے۔مستشرقین کہتے ہیں کہ مسلمان اس طرح قرآن حکیم پر ہونے والے ایک بڑے اعتراض سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔بلکہ وہ یہاں تک بھی اپنے اس مفروضے کو طول دینے سے باز نہیں آتے کہ تضادات سے بچنے کا یہ طریقہ خود حضور اکرم ﷺ نے وضع کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں آیات کو منسوخ کرنے یا ایک کو دوسری سے بدلنے کا ذکر ہے۔اپنے اس دعویٰ کے ثبوت کے طور پر وہ قرآن حکیم کی اس آیہ کریمہ کو پیش کرتے ہیں :۔
"جو آیت ہم منسوخ کر دیتے ہیں یا فراموش کرا دیتے ہیں تو لاتے ہیں (دوسری) بہتر اس سے یا(کم ازکم) اس جیسی"۔ سورۃ البقرہ آیہ 106
جارج سیل اپنے ترجمہ قرآن کے مقدمے میں لکھتا ہے کہ: "قرآن میں کچھ آیات ایسی ہیں جو باہم متضاد ہیں۔مسلمان علماء نسخ کے اصول کے ذریعے ان پر وارد ہونے والے اعتراضات کا تدارک کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے قرآن حکیم میں کچھ احکام صادر فرمائے جن کو بعد میں معقول وجوہات کی بناء پر منسوخ کر دیا گیا"
" صفحہ 52The Koran"
مستشرقین یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ نسخ کا لفظ نظر ثانی کے مترادف ہے۔اور حضرت محمد ﷺ قران میں نظرثانی و ترمیم کیا کرتے تھے۔اور قرآن کی ترتیب کو نئی شکل دیتے تھے۔مستشرقین کے ان تمام دعوؤں کی دلیل یہ ہے کہ قرآن اس بات کو بیان کرتا ہے کہ اس کی کچھ آیات دوسری آیات کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہیں۔اگر یہی حقیقت ہو تو پھر قرآن کوکلام الہٰی ماننے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ اگر اس نظریے کو قبول کر لیا جائے کہ حضور اکرم ﷺ قرآن میں ازخود ترمیم کر لیا کرتے تھے تو پھر قرآن کے منزل من اللہ ہونے کے عقیدے کی ضرورت ہی کیا ہے؟جو قرآن میں ترمیم کر سکتا ہے وہ قرآن کو تصنیف بھی کر سکتا ہے۔مستشرقین الفاظ کے ہیر پھیر سے اسی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مستشرقین کا یہ دعوی بلکل غلط اور باطل ہے۔ قرآن حکیم نہ تو حضور اکرم ﷺ کو قرآن کا مصنف کہتا ہے اور نہ ہی اس کی ترتیب اور نسخ کو حضور اکرم ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہے۔قرآن حکیم اللہ عزوجل ہی کو اس کتاب کا نازل فرمانے والاقرار دیتا ہے اور اس میں نسخ کو بھی اسی ذات سے منسوب کرتا ہے۔نسخ کو حضور اکرم ﷺ کی طرف سے نظر ثانی قرار دینا نہ قرآن کا بیان ہے اور نہ ہی کبھی مسلمانوں نے اسے تسلیم کیا ہے۔مستشرقین اپنے مزعومات کو قرآن حکیم اور مسلمانوں کے سر تھوپ کر اپنی روایتی علمی بددیانتی کا ثبوت دے رہے ہیں۔مسلمان ساڑھے چودہ سو سال سے قرآن حکیم اور احادیث کی تشریح اور ان سے استنباط احکام کے لیئے نسخ کے اصول کو استعمال کرتے آئے ہیں۔
یہ اسلامیات کی ایک مستقل اصطلاح ہےجس کی اپنی مخصوص تعریف ہے اور اس کی کچھ شرائط ہیں۔نسخ کوئی قانون چھری نہیں کہ جس عقیدے کو چاہے باطل کر دےجس تاریخی بیان کو چاہے بدل دےجس قانون کو چاہے کالعدم قرار دے دےجس اخلاقی ضابطے کو چاہے ملیامیٹ کر دے۔ نہ اس کے لیئے زمانے کی پابندی ہو اور نہ مسئلے کی نوعیت اس قانون پر اثر انداز ہوتی ہو۔ بلکہ جس بات کو جب خلاف مصلحت سمجھا کالعدم قرار دے دیا۔ نسخ کے متعلق اس قسم کا کوئی بھی تصور درست نہیں۔یہ ایک شرعی اصطلاح ہے جو اپنے دائرے اور پابندیوں کے اندر نافذ العمل ہوتی ہے۔جدیدیت پسندوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ قرآن میں جہاں نسخ کا ذکر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن حکیم سابقہ شریعتوں کو منسوخ کرتا ہے،قرآن کی آیات کے ذریعے دوسری آیات منسوخ کرنے کا کوئی ذکر نہیں ۔لیکن ان کے موقف کی تائید نہ تو متعلقہ قرآنی آیات کے الفاظ کرتے ہیں اور نہ ہی ملت اسلامیہ کی علمی تاریخ ان کی تصدیق کرتی ہے۔نسخ کا قانون مسلمانوں کے ہاں مسلم ہے اس کا انکار کر کے ہم قرآن حکیم کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے۔اور نہ ہی ہمیں اس کا انکار کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ضروری نہیں کہ جس بات میں مستشرقین کو نقص نظر آتا ہو وہ لازماََ ناقص ہی ہو۔ان کو تو اسلام کی کسی بات میں کوئی بھی خوبی نظر نہیں آتی۔ان کی قلبی کیفیت کے بارے میں اللہ عزوجل ہمیں یوں آگاہ فرماتا ہے :۔
"اور ہرگز خوش نہ ہوں گے آپ سے یہودی نہ عیسائی،یہاں تک کہ آپ پیروی کرنے لگیں ان کے دین کی" سورۃ البقرہ آیہ 120۔
ذیل میں ہم نسخ کا وہ مفہوم پیش کرتے ہیں جو حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو سمجھایا اور جو ساڑھے چودہ سو سال سے امت مسلمہ میں مروج ہے۔
نسخ کا مفہوم:۔ نسخ کا لغوی معنیٰ زائل کرنا یا نقل کرنا ہے۔ جیسے کہ کہتے ہیں کہ " نَسَختِ الرَیخُ آثَارَ القَدَمِ اَی اَزَلَتہُ۔ہوا نے قدموں کے آثار مٹا دیئے یعنی ان کا ازالہ کر دیا"
اسی طرح جب ایک کتاب کے مندرجات کو دوسری کتاب میں نقل کیا جائے تو کہتے ہیں" نَسَختُ الکِتَابَ" اور اصطلاح میں نسخ کی مختصر تعریف یہ ہے کہ:
ایسے احکام جن کے مشروع نہ ہونے کا احتمال ہی نہیں۔ جیسے وہ اصلی احکام جن کا تعلق عقائد سے ہے مثلاََ اللہ پر ایمان، فرشتوں ، کتابوں، رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان، ایسے احکام جو نیکی اور فضیلت کی بنیاد ہیں جیسے عدل، صداقت،امانت،والدین سے حسن سلوک، ایفائے عہد اور اسی قسم کے دیگر فضائل۔
ایسے احکام جن کی مشروعیت کا سرے سے احتمال ہی نہیں جیسے کفر اور دیگر اصلی رزائل مثلاََ ظلم، جھوٹ، خیانت، والدین کی نافرمانی، دھوکہ دہی وغیرہ کیونکہ یہ ایسی چیزیں جن کی قباحت بدل نہیں سکتی
ایسے احکام جن کے ساتھ کوئی ایسی چیز ملحق ہو جو نسخ کے منافی ہومثلاََ اس حکم کے ساتھ یہ وضاحت بھی ہو کہ یہ حکم تاابد ہے ۔ اس کی مثال حضور اکرم ﷺ کی ازدواج مطہرات سے نکاح کی حرمت کا مسئلہ ہے۔
جیسے کہ قرآن حکیم نے واضح الفاظ میں فرما دیا ہے کہ :۔ وَمَا کَانَ لَکُم اَن تُوذُوا رَسُولَ اللَّہِ وَلا اَن تَنکِحُوا اَزوَاجَہُ مِن بَعدِہِ اَبَدا------الاحزاب:53
اور تمہیں زیب نہیں دیتا کہ تم رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچاؤ۔ اور تمہیں اس بات کی بھی اجازت نہیں کہ ان کی ازدواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح کرو۔
اس آیہ کریمہ میں لفظ ابدا کے ساتھ اس بات کی صراحت کر دی گئی ہے کہ ازدواج رسول اللہ ﷺ سے نکاح ابدی طور پر حرام ہے ۔ اس حکم کو ابدی قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حکم ابدی طور پر مفید ہے۔ کیونکہ اگر اس حکم میں نسخ کا امکان ہو تو یہ اس بات کے منافی ہو گا کہ یہ حکم ابدی طور پر مفید ہو ۔دوسرے قسم کے احکام وہ ہیں کہ جن کے ابدی ہونے کی صریح نص تو موجود نہیں مگر قرائن اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ جیسے کہ ایسے احکام جن کا نسخ حضور اکرم ﷺ کی حیات ظاہری میں ثابت نہیں ۔ ایسے احکام بھی ابدی ہیں اور نسخ کو قبول نہیں کرتے کیونکہ نسخ کے لیئے قول رسول اللہ ﷺ ضروری ہےاور حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں کیونکہ آپ ﷺ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں ۔ اس طرح وہ احکام بھی نسخ کو قبول نہیں کرتے جن کا وقت متعین کر دیا گیا ہو۔کیونکہ ایسا حکم وقت گزرنے کے ساتھ خودبخود ساقط ہو جاتا ہے اور اس کو ختم کرنے کے لیئے کسی دوسرے حکم کی ضرورت نہیں پڑتی۔
نسخ کی شرائط:۔
نسخ کے مؤثر ہونے کی چند شرائط ہیں جو درج ذیل ہیں:۔
منسوخ ہونے والا حکم شریعت کا ایسا جزئی اور عملی حکم ہو جو قرآن و سنت سے ثابت ہو اور اس حکم کے ساتھ نہ تو ابدیت کی شرط ہواور نہ ہی اس کی مدت متعین ہواور ساتھ ہی منسوخ کے لیئے ضروری ہے کہ وہ ناسخ سے مقدم ہو۔
ناسخ قرآن کی آیت یا حضور اکرم ﷺ کی قولی یا فعلی سنت ہو جو منسوخ سے متاخر ہو
نسخ کی صورتیں :۔
نسخ کی کئی صورتیں ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:۔
کبھی ایک حکم منسوخ ہوتا ہے اور اس کی جگہ دوسرا حکم نازل نہیں ہوتا جیسے کہ پہلے حضور اکرم ﷺ کے ساتھ گفتگو کرنے سے پہلے صدقہ کرنا لازم تھابعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا حکم نازل نہیں ہوا۔
کبھی ایک حکم کو منسوخ کر کے اس کی جگہ دوسرا ایسا حکم نازل کیا جاتا ہے جو جو تاکید اور شدت کے حساب سے منسوخ حکم کے برابر ہوتا ہے جیسے بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو قبلہ بنانے کا حکم
کبھی ایک سخت حکم کو منسوخ کر کے اس کی جگہ ایک آسان حکم نافذ کر دیا جاتا ہے جیسے کہ پہلے یہ حکم تھا کہ ایک مسلمان دس مشرکوں کے مقابل صبر کا مظاہرہ کرے بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیااور اس کے بدلے ایک آسان حکم نازل ہو گیا کہ ایک مسلمان صرف دو مشرکوں کے مقابل صبر کا مظاہرہ کرے۔
کبھی آسان حکم کو منسوخ کر کے اس کی جگہ سخت حکم نافذ کر دیا جاتا ہے جیسے کہ پہلے حکم تھا کہ کفار کی اذیتوں پر صبر کیا جائےبعد میں اس حکم کو منسوخ کر کے ان سے جہاد و قتال کا حکم نازل کیا گیا۔ اسی طرح پہلے صرف یوم عاشورہ کا روزہ فرض تھا بعد میں اس فرضیت کو منسوخ کر کے پورے رمضان المبارک کے روزے فرض قرار دے دیئے گئے۔
کبھی قاعدہ نسخ کے ذریعے ممانعت کے حکم کو اباحت میں تبدیل کر دیا جاتا ہے جیسے کہ پہلے رمضان المبارک کے مہینے میں بعد از عشاء اور سونے سے قبل مباشرت کی ممانعت تھی پھر اس حکم کو اس آیہ کریمہ کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا:۔ "حلال کر دیا گیا تمہارے لیئے رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا" سورۃ البقرہ آیہ 187
کبھی نسخ صراحتاََ ہوتا ہے اور کبھی ضمناََ۔ پہلی صورت میں ناسخ حکم کی صراحت کر دی جاتی ہےکہ یہ حکم پہلے حکم کو منسوخ کر رہا ہےجیسے کہ پہلے قرآن حکیم نے حکم دیا:۔
" اے نبی ﷺ برانگیختہ کیجیئے مومنوں کو جہاد پر۔ اگر ہوں تم میں سے بیس آدمی صبر کرنے والے تو وہ غالب آئیں گے دو سو پراور اگر ہوئے تم میں سے سو آدمی تو وہ غالب آئیں گے ہزار پر۔ کیونکہ یہ کافر وہ لوگ ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے" سورۃ الانفال:65
بعد میں اس آیہ کریمہ کے حکم کو دوسری آیہ کریمہ کے حکم سے منسوخ کر دیا گیا۔ ارشاد خداوندی ہوا کہ :۔
" اب تخفیف کر دی ہے اللہ نے تم پر اور وہ جانتا ہے کہ تم میں کمزوری ہے۔ تو اگر ہوئے تم میں سے سو آدمی صبر کرنے والےتو وہ غالب آئیں گے دو سو پراور اگر ہوئے تم میں ہزار آدمی تو وہ غالب آئیں گے دو ہزار پراللہ کےحکم سے ۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے " سورۃ الانفال : 66
دووسری آیہ میں جو کہ ناسخ ہے الئنَ خفف اللہ عنکم کے الفاظ صراحت کر رہے ہیں کہ پہلا حکم منسوخ ہو گیا ہے
دوسری صورت میں شارع نسخ کی صراحت تو نہیں کرتا مگر ضمناََ نسخ کا پتا چل جاتا ہے۔ اس کی سورت یہ ہے کہ متاخر نص کا حکم مقدم نص کے حکم کے متضاد ہو۔ دونوں میں نہ تو تطبیق ممکن ہو اور نہ ہی ایک کو دوسری پر ترجیح دی جا سکتی ہو۔اس صورت میں پتا چل جائے گاکہ دوسری نص پہلی نص کی ناسخ ہے۔
نسخ کا اصول شریعت محمدیہ ﷺ سے خاص نہیں :۔ مستشرقین نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ نسخ کا اصول مسلمانوں کی اختراع ہے اور پیغمبر اسلام ﷺ نے تضادات قرآن کو جواز فراہم کرنے کے لیئے یہ طریقہ اختیار کیا تھالیکن یہ مستشرقین کی روایتی علمی بددیانتی ہے وہ ایک ایسی چیز کے ذریعے اسلام کو موردالزام ٹھہرانے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں جو ان کے ہاں بھی مروج العمل ہے۔ جس کی چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں :۔
1۔ بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت میں تمام سبزیوں اور تمام جانوروں کا کھانا حلال تھا۔کتاب پیدائش باب نمبر 9 آیہ نمبر 3 میں حضرت نوح علیہ السلام سے کہا جا رہا ہے کہ "سبزیوں کی طرح تمام حرکت کرنے والے جانور جو زندہ ہیں وہ تمہاری خوراک بن سکتے ہیں میں تمہیں وہ سب عطا فرماتا ہوں "
لیکن شریعت موسویہ میں اکثر جانوروں کو حرام قرار دے دیا گیا۔کتاب الاحبار کے باب نمبر 11 میں ان جانوروں کی تفصیل بیان کی گئی ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے پیروکاروں کے لیئے حرام ہیں ۔ حضرت نوح علیہ اسلام کی شریعت میں تمام جانور حلال تھے اور حضرت موسی علیہ اسلام کی شریعت میں اکثر کی حرمت کا اعلان کر دیا گیا یہ نسخ نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟
2۔ شریعت موسویہ میں مرد کو کسی بھی سبب سے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا اختیار تھا ۔ اور مطلقہ عورت کے ساتھ کوئی بھی نکاح کر سکتا تھا جیسا کی کتاب استثناء کے باب چوبیس کی پہلی اور دوسری آیت میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ مگر شریعت عیسوی میں بدکاری کی علت کے علاوہ کسی وجہ سے بھی مرد کو طلاق دینے کی اجازت نہیں اور نہ ہی مطلقہ کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو شادی کی اجازت ہے۔متی کی انجیل کے پانچویں باب کی آیت نمبر 31 اور 32 کے الفاظ وضاحت کر رہے ہیں کہ اب پہلا حکم منسوخ ہو گیا ہے۔
3۔ کتاب پیدائش کے باب نمبر 17 کی آیت نمبر 14میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت میں ختنے کا ابدی حکم تھا ۔ یہ حکم حضرت اسماعیل و اسحاق علیہ السلام کی نسلوں میں مروج رہا۔شریعت موسوی میں بھی ختنے کا حکم تھا۔لوقا کی انجیل کے دوسرے باب کی آیت نمبر 21 کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کا بھی ختنہ ہوا۔ یہ حکم حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع آسمانی تک جاری رہا۔گو حضرت عیسی علیہ السلام کی شریعت میں اس حکم کو منسوخ نہیں کیا گیا۔لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد جن "مقدسین" نے آپ کی شریعت کو بازیچہ اطفال بنائے رکھا انہوں نے اس ابدی حکم کو منسوخ کر دیا۔مسلمانوں کے نزدیک گو کہ کسی نبی کے بعد اس کے حکم کو منسوخ قرار دے دینا ناممکن ہے مگر جو عیسائی ان "مقدسین" کی وضع کردہ شریعت پر کاربند ہیں و ہ اس کو نسخ کے علاوہ کیا نام دیں گے ؟
4۔ ذبیحہ کے احکام شریعت موسویہ میں بے شمار تھے جو شریعت عیسوی میں منسوخ ہو گئے۔
5۔ شریعت موسویہ کے بے شمار احکام شریعت عیسویہ میں منسوخ ہو گئے ۔ چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد سینٹ پال اور دوسرے "مقدسین" نے تورات کے اکثر احکامات کو کالعدم قرار دے دیا۔عبرانیوں کے نام پولس کے خط کے ساتویں باب کی آیت نمبر 18 میں درج ذیل الفاظ موجود ہیں :"یقیناََ سابقہ احکام کو ان کی کمزوری اور ان کے بے اثر ہونے کے سبب سے منسوخ کیا جاتا ہے "
عبرانیوں کے نام خط کے آٹھویں باب میں بنو اسرائیل کے ساتھ خدا کے قدیم عہد کے بدلے ایک جدید عہد کا ذکر ہےاس باب کی آٰت نمبر 7 میں ہے کہ : " اگر پہلا عہد بےعیب ہوتا تو نئے عہد کی گنجائش نہ ہوتی"
اسی باب کی آیت نمبر 13 کے الفاظ یہ ہیں کہ : "نئے عہد کا لفظ استعمال کر کے اس نے پرانے عہد کو منسوخ کر دیا ہے۔ اب جس کو منسوخ قرار دے دیا گیا ہے اور جو پرانا ہو رہا ہے وہ مٹ جانے کے قریب ہے "
عبرانیوں کے نام خط کے ساتویں باب کی آیت نمبر 12 میں سینٹ پال نے ایک ایسا اصول وضع کر دیا ہے جس کے بعد عیسائیوں کے لیئے نسخ کو قبول نہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔سینٹ پال کہتا ہے کہ :۔
"جب امامت تبدیل ہو رہی ہو تو ضروری ہو جاتا ہے کہ شریعت بھی تبدیل ہو"۔
مندرجہ بالا مثالوں سے یہ حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتے ہیں کہ"۔
دوسری شریعتوں کے بعض احکام کو منسوخ کرنا شریعت اسلامیہ ہی کا خاصہ نہیں بلکہ سابقہ شریعتوں میں بھی یہ اصول مروج رہا ہے۔
تورات کے عملی احکام خواہ وہ ابدی تھے یا غیر ابدی شریعت عیسوی میں منسوخ ہو گئے۔
تورات کے احکام کے متعلق نسخ کا لفظ عیسائی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔
سینٹ پال نے وضاحت کی ہے کہ امامت تبدیل ہونے سے قانون تبدیل ہونا ضروری ہے۔
سینٹ پال کا دعوی ہے کہ قدیم شئے فنا کے قریب ہوتی ہے ۔
مندرجہ بالا حقائق کے ہوتے ہوئے یہودی اور عیسائی اسلام پر یہ الزام کیسے لگا سکتے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن حکیم کے تضادات کو رفع کرنے کے لیئے نسخ کا اصول وضع کیا ہے ۔۔۔۔؟
گزشتہ سطور میں ایک شریعت کے احکام کو دوسری شریعت کے احکام سے منسوخ کرنے کے دلائل دیئے گئے ۔ اب ہم ایک شریعت کے احکام کو اسی شریعت کے دوسرے احکام سے منسوخ کرنے کی مثالیں پیش کرتے ہیں :۔
1۔ کتاب پیدائش کے بائیسویں باب میں اس بات کی تفصیل موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ابراہیم علیہ اسلام کو حکم دیا کہ اپنے بیٹے اسحاق علیہ السلام کو قربان کریں لیکن جب انہوں نے حکم کی تعمیل کا ارادہ کر لیا تو انہیں اللہ کی طرف سے یہ حکم ملا کہ وہ اپنے بیٹے کو قربان نہ کریں ۔
یہاں اگر پہلا حکم دوسرے حکم سے منسوخ نہیں تو اور کیا ہے ۔۔۔۔۔؟
2۔ صموئل اول کے دوسرے باب میں ہے کہ " اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ امامت کا منصب بڑے پادری کے خاندان میں ہمیشہ رہے گا"لیکن بعد میں اللہ نے اس فیصلہ کو بدل دیا۔ مذکورہ باب کی آیت نمبر 30 کے الفاظ یہ ہیں کہ : "خدائے اسرائیل کا فرمان یہ ہے کہ : میں نے تمہارے اور تمہارے اسلاف کے گھرانے سے یہ کہا تھا کہ تم ہمیشہ میرے آگے آگے چلا کرو گے لیکن اب خدا کا فرمان یہ ہے کہ جہاں تک میرا تعلق ہے یہ بات ناقابل تصور ہے کیونکہ جو میری تسبیح کرتے ہیں میں ان کا احترام کرتا ہوں اور جو میری توہین کرتے ہیں ان کی میرے نزدیک کوئی حثیت نہیں"
اسی باب کی آیت نمبر 35 میں ہے ک ہ:
"میں یقیناََ اپنے لیئے ایک وفادار پادری پیدا کروں گا جو وہی کرے گا جو میرے دل اور روح کے مطابق ہو گا"
کتاب صموئیل اول کی ان آیات سے واضح ہے کہ اللہ نے پہلے بڑے پادری کے خاندان کو منصب امامت تاابد عطا فرمانے کا وعدہ کیا تھالیکن بعد میں اس فیصلے کو بدل دیا اور منصب امامت دوسروں کو تفویض کر دیا۔بائیبل کے مفسرین کہتے ہیں کہ" یہ منصب اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام کے بڑے بیٹے "عازار" کو ہمیشہ کے لیئے عطا فرمایا تھالیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا" اظہار الحق جلد1 صفحہ 532
یہاں عیسائی تو خدا کے ابدی وعدے پر بھی نسخ کا اصول لاگو کر رہے ہیں جو کہ مسلمانوں کے نزدیک ناممکن العمل ہے۔وعدہ کر کے پورا نہ کیا جائے تو یہ نسخ نہیں وعدہ خلافی کہلاتا ہے اور مسلمان اللہ عزوجل کی ذات کو ان تمام عیوب سے مبرا مانتے ہیں ۔
3۔ کتاب الاحبار کے سترھویں باب میں ہے کہ بنو اسرائیل کا جو شخص کوئی جانور ذبح کرے وہ اپنی قربانی کو خدا کے حضور پیش کرنے کے لیئے خیمہ عبادت کے دروازے تک لائےجو ایسا نہ کرے وہ قابل گردن زدنی ہے ۔لیکن کتاب استثناء کے بارہویں باب میں ہے کہ جب جی چاہے اور جہاں جی چاہے جو جانور چاہو ذبح کرو اور کھاؤ۔
ان آیات کی تفسیر میں بائیبل کا ایک بہت بڑا مفسر ھورن لکھتا ہے کہ :۔ ان دونوں مقامات میں بظاہر تناقض نظر آتا ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ شریعت موسویہ میں بنی اسرائیل کے حالات کے مطابق کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔اور شریعت موسی ایسی نہ تھی کہ اس میں بوقت ضرورت تبدیلی نہ کی جا سکے۔
اس کے بعد مفسر مذکور لکھتا ہے کہ : حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی ہجرت کے چالیسویں سال فلسطین میں داخل ہونے سے پہلے اس حکم کو منسوخ کر دیا۔
مفسر مذکور نے یہاں نسخ کو بھی تسلیم کیا ہے اور حالات کے مطابق شریعت میں کمی بیشی کو بھی ۔ لیکن مقام حیرت یہ ہے کہ اسی نسخ کو یہود و نصاریٰ اسلام پر ایک بہت بڑے اعتراض کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔
4۔ کتاب گنتی کے چوتھے باب کی مختلف آیات میں خیمہ عبادت کے خادمین کی عمریں تیس اور پچاس سال کے درمیان مقرر کی گئی ہیں۔جبکہ اسی کتاب کے آٹھویں باب کی آیات چوبیس اور پچیس میں خدام کی عمروں کی حد پچیس سے پچاس سال متعین کی گئی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ان میں سے ایک حکم منسوخ ہے اور دوسرا ناسخ۔
5۔ کتاب الاحبار کے چوتھے باب میں جماعت کی غلطی کا فدیہ صرف ایک بیل کی قربانی قرار دیا گیا ہے لیکن کتاب گنتی کے پندرہویں باب میں جماعت کی غلطی کا کفارہ ایک بیل کے علاوہ غلے، مشروبات اور بکری کے ایک بچے کی قربانی کو قرار دیا گیا ہے۔گویا دوسرے حکم نے پہلے حکم کومنسوخ کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔!
ان دونوں اقسام کی مثالوں سے یہ بات بلکل واضح ہے کہ نسخ کا قانون ہر شریعت میں رائج رہا ہے۔اور عہد نامہ قدیم و جدید میں کچھ مثالیں ایسی بھی موجود ہیں جو نسخ سے بھی کچھ زائد ہیں۔
اللہ تعالیٰ حکیم ہے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔زمانہ کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانی ضرورتیں اور تقاضے بھی بدلتے رہتے ہیں۔کسی حالت میں کوئی ایک حکم مفید ہوتا ہے تو دوسری حالت میں وہی حکم مضر بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔ایک حکم ایک زمانے میں قابل عمل ہوتا ہے اور دوسرے زمانے میں نہیں ۔کسی زمانے کے لوگ کسی حکم کے تقاضوں کو سمجھنے اور اسے بجا لانے کے قابل ہوتے ہیں جبکہ دوسرے زمانے کے لوگ نہ تو اس کے تقاضوں کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی اس حکم کو پورا کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔لہذا دانائی کا تقاضا یہی تھا کہ ہر زمانے کے حالات کے مطابق احکامات نازل کیئے جاتے۔
الغرض ابو جہل سے لیکر کر سلمان رشدی لعین تک، مکہ کے کفار ومشرکین سے لے کر یورپ کے مستشرقین تک سب دشمن اس کو نقصان پہنچانے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ لیکن اس دین متین کا جھنڈا نت نئی بلندیوں پر لہراتا نظر آتا ہے۔
یہ اللہ عزوجل کی قدرت اور دین اسلام کی صداقت کی منہ بولتی نشانی ہے۔کاش کہ دشمنان اسلام اس سے عبرت حاصل کریں ۔
دورِ حاضر میں پردہ ایک فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ آج پردہ یا حجاب کی بہت سی صورتیں رائج ہیں جن میں سرِ فہرست سر کو اسکارف سے ڈھانپنا ہے۔ بعض خواتین سر تا پاوں عبایا یا برقع میں ملبوس ہوتیں ہیں حتی کہ ہاتھوں کو بھی دستانوں اور پیروں کو موزوں سے ڈھانپا ہوتا ہے۔ کچھ تو اسکن ٹائٹ زرق برق عبایا کو ہی پردہ گردانتی ہیں ، کچھ تو صرف دوپٹے سے سر ڈھانپ کر ہی مطمئن ہو جاتی ہیں کہ پردہ ہوگیا اور کچھ ایسی ہیں جن کے نزدیک حج و عمرہ کا پردہ ہی پردہ ہے اور بعض ایسی ہیں جن کے نزدیک '' پردہ تو صرف آنکھوں کا ہوتا ہے'' ۔
اس طرح حجاب یا پردے کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتیں ہیں ۔
اس مضمون میں ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ اصل پردہ کیا ہے؟
عام طور پر ستر اور حجاب میں فرق نہیں کیا جاتا حالانکہ یہ شریعت کی رو سے یہ مختلف ہیں ۔
حجاب اور ستر کے درمیان فرق :
الستر (مصدر) کا بنیادی معنی محض کسی چیز کو چھپانا ہے۔ اور ستر اور سترۃ ہر اس چیز کو کہتےہیں جس سے کوئی چیز چھپائی جائے۔ مقاماتِ ستر سے مراد انسانی جسم کے وہ حصے ہیں جنہیں شریعت نے دوسرے انسانوں سے ہر حالت میں چھپانا واجب قرار دیا ہے۔
مرد کا ستر اسکی ناف سے لیکر گھٹنے تک ہے ۔ اور عورت کا ستر پورا جسم ماسوائے شہرہ اور ہاتھوں کے ستر میں شمار ہوتیں ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہہ فرماتی ہیں کہ میں اپنے بھتیجے عبداللہ بن طفیل کے سامنے زینت کے ساتھ آئی تو آپ ﷺ نے اسے نا پسند فرمایا۔ میں نے کہا یہ تو میرا بھتیجا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اپنے جسم میں سے کچھ ظاہر کرے سوائے چہرے کے اور سوائے اس کے یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنی کلائی پر اس طرح ہاتھ رکھا کہ آپﷺ کی گرفت کے مقام اور ہتھیلی کے درمیان صرف ایک مٹھی بھر جگہ باقی تھی۔
حجاب دو چیزوں کے درمیان کسی ایسی حائل ہونے والی چیز کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں چیزیں ایک دوسرے سے اوجھل ہوجائیں۔
ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ اور جب تمہیں (نبی کی بیویوں سے) کوئی چیز مانگنا ہو تو پردے کے باہر سے مانگو۔ سورہ احزاب ۳۳
گویا حجاب ستر کے علاوہ اضافی چیز ہے جس کا تعلق غیر محرم یا اجنبی مرد سے ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ستر فی نفسہ ضروری ہے چاہے کوئی موجود ہو یا نہ ہو جبکہ حجاب فی نفسہ ضروری نہیں جب تک دیکھنے وال غیر محرم موجود نہ ہو۔
اللہ تعالی نے سورہ احزاب اور سورہ نور کے ذریعے مسلمانوں کو احکامِ ستر و حجاب سے روشناس کروایا۔
سورہ احزاب کی آیت 59 میں '' جلباب'' اور سورہ نور کی آیت 31 میں '' خمر '' کا ذکر ہوا ہے۔
جلباب کہتے ہیں بڑی چادر یا عبایا سے مشابہ چیز کو جو پورے جسم کو ڈھانپ لے جبکہ خمر کے معنی چھوٹے دوپٹے کے ہیں جو کہ عورتیں گھروں میں اوڑھا کرتیں تھیں۔
سورہ احزاب آیات ٣٣ میں ارشاد باری تعالی ہے :
وَقَرْنَ فِىْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَـرَّجْنَ تَبَـرُّجَ الْجَاهِلِيَّـةِ الْاُوْلٰى ۖ وَاَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكَاةَ وَاَطِعْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ ۚ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّـٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْـرًا
اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو، اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو، اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اس گھر والو تم سے ناپاکی دور کرے اور تمہیں خوب پاک کرے۔
اس آیت میں پردے احکامات سب سے پہلے نبی ﷺ کے گھرانے کو دئیے گئے کیونکہ آپ ﷺ کو اسوہ حسنہ بنا کر پیش کرنا مقصود تھا۔ اور ویسے بھی اصلاح کا عمل دوسروں کی بجائے اپنے آپ سے شروع کرنا زیادہ موثر ہوتا ہے۔ اس آیت میں تنبیہہ کر دی گئی کہ زمانہ جاہلیت کی طرح اپنی زینت و آرائش نہ دکھاتی پھرو۔ اس کے لیے خاص لفظ استعمال کیا گیا ہے تبرج۔۔
تبرج کیا ہے ؟؟
تبرج میں پانچ چیزیں شامل ہیں۔
اپنے جسم کے محاسن کی نمائش۔
زیورات کی نمائش اور جھنکار۔
پہنے ہوئے کپڑوں کی نمائش۔
رفتار میں بانکپن اور نازو ادا۔
خوشبویات کا استعمال ۔
ان سب باتوں سے منع فرما دیا گیا۔
سورہ احزاب کی آیت 59 میں چہرے کا پردہ کرنے کا حکم دیا گیا :
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِْهِنَّ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا
اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں، یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
اب جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ '' ید نین علیھن من جلا بیبھن '' سے مراد چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکالنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد چادر کو اپنے جسم کے گرد اچھی طرح لپیٹنا ہے، تو ان کے لیے عرض یہ ہے کہ لغوی لحاظ سے ''دنی یدنی'' کا معنی قریب ہونا بھی ہے اور جھکنا اور لٹکنا بھی۔ '' ادنی ''کے معنی ہیں قریب کرنا ، جھکانا اور لٹکانا۔۔۔ اب اگر قرآن کے الفاظ ہوتے'' ادنی الیھن من جلا بیبھن'' تو ان میں اس بات کی گنجائش ہوتی کہ اس کے معنی اپنی چادروں کو اپنے جسموں کی طرف قریب کرلیں یا بکل مار لیں ۔۔ لیکن قرآن کے الفاظ ہیں'' یدنین علیھن من جلابیبھن'' جس کا معنی لا محالہ کسی چیز کو لٹکانا ہی ہو سکتا ہے ۔ ادنی کے ساتھ علی کا صلہ اس میں ارخاء یعنی اوپر سے لٹکانے کے معنوں میں مخصوص کر دیتاہے۔ جب لٹکانا یا نیچے کرنا معنی ہو تو اس کا مطلب چہرہ کا گھونگھٹ نکالنا ہی ہوگا۔
اس ضمن میں واقعہ افک سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہہ کا بیان ہے جو کہ بخاری میں مذکور ہے۔۔۔ میں اسی جگہ بیٹھی رہی اتنے میں میری آنکھ لگ گئی۔ اتنے میں ایک شخص صوان بن معطل اسلمی اس مقام پر آیا اور دیکھا کہ کوئی سو رہا ہے۔ اس نےمجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کا حکم اتنے سے پہلے اس نے مجھ کو دیکھا تھا۔ اس نے مجھ کو پہچان کر انااللہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو میری آنکھ گھل گئی تو میں نے اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔ ۔۔ الفاظ ہیں'' فخمرات وجھی بجلبابی''۔۔۔ اگر چہرہ خارج ہے تو کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم نے اس کا مطلب غلط سمجھا تھا؟
بعض افراد چہرہ اور ہاتھوں کے استثناء کے لیے سورہ نور کی آیت 31 وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْـهَا پیش کرتے ہیں لیکن یہ توجیہہ بھی اس صورت میں غلط ثابت ہوتی ہے کہ اس آیت میں حجاب کی رخصتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے نا کہ حجاب کی پابندیوں کا ۔۔۔ یعنی کن محرم رشتوں سے حجاب کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس زینت سے از خود ظاہر ہو جائے۔ گویا اللہ تعالی عورتوں کو تکلیف میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے کہ اگر بڑی چادر یا برقعہ کے باوجود کسی اتفاق سے عورت کی زینت ظاہر ہو جائے تو اسمیں مضائقہ نہیں ۔ صحابہ اور تابعین کی اکثریت اس پر متفق ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر عورت کے چہرے کا پردہ ضروری نہیں ہے تو اس حکم کی کیا ضرورت رہ جاتی تھی کیونکہ اس آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ گھر کے باہر کھڑے ہو کر چیز مانگ لیا کرو بلکہ کہا ہے من وراء حجاب یعنی حجاب کے پیچھے سے مانگا کرو۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ترجمہ : عورت احرام کی حالت میں نہ نقاب اوڑھے اور نہ دستانے پہنے۔ نسائی
اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پردے کے حکم کے بعد عورتوں نے اپنے منہ اور ہاتھوں کو چھپانا شروع کردیا تھا جبھی تو حالتِ احرام میں استثنی کا حکم جاری ہوا۔ اگر چہرے کے پردے کا رواج نہ ہوتا تو اس حکم کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی ۔
'حضرت عائشہ رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے'وہ فرماتی ہیں کہ(حج کے دوران) قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتی تھیں، پس جب وہ ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم اپنے جلباب اپنے سر سے اپنے چہرے پر لٹکالیتی تھیں اور جب وہ قافلے آگے گزر جاتے تو ہم اپنے چہرے کو کھول دیتی تھیں۔ سنن ابی داود اگر چہرے کے پردے کا رواج نہ ہوتا تو ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟؟
اس کے ساتھ ساتھ شادی کے لیے عورت کو پسند کرنے کے لیے اسے دیکھنے کی اجازت دی گئی۔۔ اگر چہرے کا پردہ نہ ہوتا تو اس اجازت کی بھی ضرورت نہیں رہ جاتی تھی۔
امہات المومنین رضی اللہ وعنہا چہرہ کا پردہ کرتی تھی حالانکہ وہ تمام مسلمانوں کی مائیں تھیں اور نبی ﷺ کی وفات کے بعد ان سے کوئی نکاح بھی نہ کر سکتا تھا۔ اگر ان کو چہرے کے پردے استثنی نہیں تھا تو پھرعام مسلمان عورتوں کو کیونکر ہو سکتا ہے؟
اگر اس ضمن میں مختلف آئمہ اکرام رحمتہ اللہ کے اقوال کا جائیزہ لیا جائے تو اگرچہ چہرے کے پردے کے بارے میں اختلافات موجود ہیں لیکن وہ صرف اس حد تک ہیں کہ چہرے کا پردہ لازم ہے یا شریعت کی رو سے موجب ثواب یا مسنون ہے۔ پردے سے انکار کسی کو بھی نہیں ہے اور جو فقہا چہرے کے پردے کو لازمی قرار نہیں دیتے وہ بھی یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ چہرے یا ہتھیلی پر کوئی زینت کا سامان نہ ہو۔ اگر ہو تو اس کا چھپانا واجب قرار دیا گیا ہے۔
احکامِ ستر و حجاب کی استثنائی صورتیں درج ذیل ہیں :
کسی قسم کے اتفاقیہ امر میں احکامِ ستر و حجاب لاگو نہ ہونگے۔ مثلاََ ہوا سے چہرہ ننگا ہو جانا یا کسی پر نظر پڑنا یا اتفاقاََ کسی مرد کا سامنے آ جانا۔
کسی لازمی ضرورت جیسے رشتہ کے لیے چہرہ دیکھنے کی ممانعت نہیں ۔ یا علاج کروانے کے لیے اپنے جسم کا کوئی حصہ عریاں کیا جاسکتا ہے۔
کسی اضطراری حالت مثلاََ پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدور کرنے کی صورت میں پردے نہ کرنے کی گنجائش ہے، کسی حادثے کی صورت میں یا جنگ کی صورت میں بھی پردہ نہ کرنے پر مواخذہ نہیں ۔
اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حالتِ احرام کا پردہ ہی اصل پردہ ہے تو ان کے لیے عرض یہ ہے کہ بعض مرتبہ شریعت کے احکام زمان اور مکان کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں ۔ جیسے عرفہ میں ظہر و عصر کا ایک ساتھ پڑھنا اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ عشاء کے وقت ادا کرنا ۔ اسی طرح شریعت نے دورانِ احرام پردے میں تخفیف کردی کہ عورت چہرے پر نقاب نہ ڈالے بلکہ کھلا رکھے ۔ جیسا کہ بخاری کی حدیث ہے کہ البتہ کسی نامحرم کے سامنے آنے پر وہ اپنے چہرے کو چھپا لے تاکہ اس جگہ بدنگاہی اور بے پردگی نہ ہو۔
قرآن و سنت کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا قطعاََ دشوار نہیں ہے کہ '' حجاب یا پردہ '' کی اصل صورت کیا ہے اور کن حالتوں میں اس سے استثنی ہے نیز ہم جو پردہ کرتے ہیں وہ کس حد تک اسلامی احکامات سے ہم آہنگ ہے۔
اللہ تعالی ہمیں دینِ اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے ۔ آمین
استفادہ
قرآن پاک
احکام ستر و حجاب ۔۔ مولانا عبدالرحمان کیلانی
لفظ رب کی علمی تحقیق یہ لفظ سورہ فاتحہ میں ذات باری تعالیٰ کی پہلی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے، جس کے معنی مربی اور مالک کے ہیں۔ فاتحۃ الکتاب میں باری تعالیٰ کی شان الوہیت پر دلالت کرنے والے پہلے صفاتی نام کی حیثیت سے اس کے معنی و مفہوم کو مختلف جہتوں سے سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے اندر مضمر اعلان ربوبیت درحقیقت توحید الٰہی کا سب سے کامل اور بین ثبوت ہے۔ کیونکہ دور جاہلیت کے کفار و مشرکین کی طرح انسانی زندگی میں شرک، تصور خالقیت کی راہ سے کم اور تصورِ ربوبیت کی راہ سے زیادہ داخل ہوا ہے۔ یہ امر ثابت اور مسلّم ہے کہ کفار و مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو نام خواہ کچھ بھی دیتے ہوں، اسے رب الارباب ضرور مانتے تھے۔ کائنات میں اس کی مطلق بڑائی سے کسی کو انکار نہ تھا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ وہ اس بالادست ہستی کے نیچے کئی رب اور بھی مانتے تھے اور اسی عقیدے نے ان کی جبینوں کو متعدد خداؤں کی پرستش کے لیے جھکا دیا تھا۔ ربوبیت میں اس تصور شراکت نے عقیدہ توحید کے خالص اور نکھرے ہوئے چہرے کو ان کی نظروں سے اوجھل کردیا تھا۔ بنا بریں ہم لفظ رب کے معنی کا جائزہ علمی و عملی ہر دوگوشوں سے لینا چاہتے ہیں تاکہ اس کے حقیقی مفہوم اور تصور کی معرفت حاصل ہوسکے۔ اس کی مختصر تحقیق یہ ہے کہ یہ لفظ تربیت کے معنی میں اصلاً مصدر ہے مگر اس کا اطلاق و صفاً فائل کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے عادل کے لیے مبالغۃ عدل کا اور صائم کے لیے صوم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا مفاد یہ ہے کہ فی الحقیقت رب صرف مربی کو نہیں بلکہ نہایت ہی کامل مربی کو کہا جاسکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جو خود ہر جہت سے کامل ہو وہی دوسرے کی کامل تربیت کرنے کا اہل ہوسکتا ہے۔ اس لیے تربیت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے : التربية هی تبليغ الشئي الي کماله شيا فشيا. تربیت سے مراد کسی چیز کو درجہ بدرجہ اس کے کمال تک پہنچانا ہے۔ (تفسيرأبی السعود، 1 : 13) بعض اہل علم کے نزدیک لفظ رب، مربی کے معنی میں خود نعت ہے۔ (جیسے نعمَّ۔ ینمّ۔ فھونمٌّ، ربّ، یربّ، فھو ربٌّ) لیکن دونوں صورتوں میں اصل مفہوم اور اس کی دلالت ایک ہی رہتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصل میں یہ لفظ راب تھا جس کی درمیانی الف حذف کردی گئی اور رجل بار سے رجل بر کی طرح راب سے لفظ رب رہ گیا۔ جیسا کہ ابوحیان کا قول ہے۔ بعض نے اسے مبالغہ پر اسم فاعل بھی قرار دیا ہے اور بعض نے صفت مشبہ کیونکہ وہ بسا اوقات فاعل کی صورت میں بھی پائی جاتی ہے مثلاً الخالق، المنعم اور الصاحب وغیرہ ہیں۔ تربیت اور ملکیت ائمہ تفسیر نے بالعموم رب کے معنی میں دو صفات کو شامل کیا ہے۔ ان دونوں کی اپنی اپنی جگہ معنوی حکمت و افادیت معلوم ہونی چاہئیے۔ تربیت : اس کی تعریف سے واضح ہے کہ یہ دو شرائط کا تقاضا کرتی ہے : i۔ تکمیل ii۔ تدریج تربیت کی مختصر تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے : هوالتبليغ الي الکمال تدريجاً. یہ کسی شے کو تدریجا کمال تک پہنچانے کا نام ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مفہوم کو نہایت بلیغ انداز میں واضح کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں : الرب في الاصل التربيه و هو انشاء الشيء حالا فحالًا اليٰ حد التمام. لفظ رب اصلاً تربیت کے معنی میں ہے اور اس سے مراد کسی چیز کو درجہ بدرجہ مختلف احوال میں سے گزارتے ہوئے آخری کمال کی حد تک پہنچا دینا ہے۔ (المفردات : 184) کمال سے یہاں مراد ہے ما یتم بہ الشیء فی صفاتہ یعنی یہ کسی چیز کی وہ حالت ہوتی ہے جہاں وہ اپنی جملہ صفات کے اعتبار سے انتہا کو پہنچ جائے۔ ان توضیحات سے معلوم ہوا کہ اگر تربیت پانے والا اپنے کمال یعنی صفاتی انتہا کو نہ پہنچے، تب بھی تربیت نامکمل رہی، اور اگر اس نے جملہ تدریجی اور ارتقائی مراحل طے نہ کیے ہوں تب بھی تربیت کامل نہ ہوئی۔ لہذا نظام تربیت کا کمال یہ ہے کہ مربوب (تربیت پانے والا) تدریجی اور ارتقائی منزلوں میں سے گزرتا ہوا اپنی صفات کی آخری حد کو پالے۔ اس تصور تربیت سے مزید دو باتوں پر روشنی پڑتی ہے : 1۔ حفاظت و کفالت اور ملکیت و قدرت 2۔ ارتقاء میں تسلسل اور استمرار حقیقی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مربوب کی تمام ضرورتوں کی صحیح کفالت اور اس کے جملہ مفادات کی صحیح حفاظت نہ ہو۔ اگر کسی بھی جہت سے مربوب کی کفالت یا حفاظت میں کوئی کمی رہ جائے تو اس کی تکمیل نا ممکن ہوجاتی ہے۔ اور کفالت و حفاظت کی جملہ شرائط اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتیں جب تک وہ شے کاملا ً مربی کے قبضہ و تصرف میں نہ ہو۔ اگر مربی بلا شرکت غیرے اپنے مربوب کا مالک ہو اور بحیثیت مالک اسے اپنے مربوب کے تمام معاملات میں مکمل تصرف اور قدرت حاصل ہو تو تبھی وہ بتمام و کمال کفالت و حفاظت کی ذمہ داری پوری کرسکتا ہے، جس کے نتیجے میں ا س کا کامل مربی ہونا واقعہ بن سکے گا اور اس کی تربیت حقیقی تربیت قرار پائے گی۔ اس لیے لفظ رب اس الوہی شان کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ کامل مربی و مالک ہے۔ وہی قادر اور جمیع امور میں حقیقی متصرف ہے۔ اس کی شان ربوبیت میں کوئی شریک ہے نہ دخیل۔ اس لیے اس کا رب ہونا علی الاطلاق ہے جبکہ اس عالم اسباب میں کئی افراد جو ایک دوسرے کے مربی ہوتے ہیں، انہیں جب مجازا رب کہا جاتا ہے تو ہمیشہ اضافت کی شرط کے ساتھ کہا جاتا ہے۔ مثلاً گھر اور گھوڑے کے مالک کو مجازا ً رب الدار او ر رب الفرس کہا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے میں ایک شخص سے بادشاہ مصر کے بارے میں فرماتے ہیں : اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ. اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کردینا (شاہد اسے یاد آجائے) کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا۔ (يوسف، 12 : 42) اسی طرح آپ ایلچی کو فرماتے ہیں : ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ. اپنے بادشاہ کے پاس لوٹ جا اور اس سے (یہ) پوچھ (کہ) ان عورتوں کا (اب) کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے۔ (يوسف، 12 : 50) اسی طرح والدین کی نسبت بارگاہ ایزدی میں اس دعا کی تلقین فرمائی گئی ہے : وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔ (بني اسرائيل، 17 : 24) یہاں بھی رَبَّیٰنِی کا فعل رب مصدر سے والدین کے حق میں مجازاً استعمال کیا گیا ہے۔ الغرض جہاں بھی رب بطور مصدر یا کسی فرد کے لیے مجازاً استعمال ہوگا کسی نہ کسی اضافت کے ساتھ ہوگا۔ مطلقاً اس کا استعمال صرف اللہ تعالی کے لیے ہے کیونکہ حقیقی مربی اور مالک مطلق وہی ذات ہے اور اسی کی ملکیت و پرورش ساری کائنات کے لیے علی الاطلاق ہے۔ اس لیے وہی اکیلا قادر مطلق اور مسبب الاسباب ہے۔ اگر اس کی اس شان ربوبیت میں کوئی اور شریک ہوتا تو نظام کائنات اس حسن تدبیر کے ساتھ کبھی نہ چل سکتا۔ جیسا کہ خود قرآن اعلان فرماتا ہے : لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا. اگران دونوں (زمین و آسمان) میں اللہ کے سوا اور (بھی) معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہوجاتے۔ (الانبياء، 21 : 22) بنا بریں بعض مفسرین نے رب کا اطلاق مالک، نگران، مربی، مدبر، منعم، مصلح اور معبود کے معانی پر کیا ہے۔ اور بطور خاص حفظ اور ملک کو معنی ربوبیت کا لازمی حصہ تصور کیا ہے۔ دوسری بات جو معنی تربیت میں شامل ہے وہ تکمیل کے سلسلے میں تدریج و ارتقاء کا تسلسل اور استمرار ہے۔ تدریج باب تفعیل کے خواص میں سے ہے اور تدریج و ارتقاء کی صحت اس کے تسلسل اور استمرار پر منحصر ہوتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کمال کی طرف بڑھنے کا سلسلہ رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ کسی مرحلے پر رکے بغیر جاری رہے تو تدریج کی صحت اور فوائد برقرار رہتے ہیں اور اگر درمیان میں انقطاع اور عدم تسلسل آجائے تو تکمیل متاثر ہوجاتی ہے۔ نظام ربوبیت اور تصور ارتقاء پر باقاعدہ گفتگو تو ذرا آگے چل کر ہوگی لیکن یہاں اسی قدر سمجھ لینا ضروری ہے کہ رب کے نظام پرورش میں تدریج و ارتقاء بھی ہے اور تسلسل و استمرار بھی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں واضح فرمایا گیا ہے : يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِO الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَO فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَO اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا؟ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر اس نے تجھے درست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایا جس صورت میں بھی چاہا اس نے تجھے ترکیب دے دیا۔ (الانفطار، 82 : 6، 7، 8) اس آیت میں باری تعالیٰ نے اپنا ذکر شان ربوبیت سے فرمایا ہے اورساتھ ہی انسانی شخصیت کی جسمانی تکمیل کے سلسلے میں تدریج اور تسلسل کو بیان کیا ہے جس سے مذکورہ بالا تصور کو اجمالی تائید میسر آجاتی ہے اور لفظ رب کی اس معنوی خصوصیت کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ ربوبیت اور اعانت میں فرق اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس کو قرآن مجید میں کم و بیش نو سو اڑسٹھ (968) مرتبہ شان ربوبیت کے ذریعے بصراحت متعارف کرایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی یہ شان مخلوقات عالم کے ہر وجود کو اپنے فیض سے نواز رہی ہے۔ فیضیاب تو کئی صورتوں میں لوگ ایک دوسرے سے ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے، کوئی بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے، کوئی محتاج کی مالی اعانت کرتا ہے، کوئی کمزور کا سہارا بنتا ہے، یہ ساری نفع بخشیاں اور فیض رسانیاں ایک دوسرے کی امداد و اعانت کی مختلف صورتیں اور احسان و انعام کی مختلف شکلیں ضرور ہیں مگر ربوببیت کے عنوان میں نہیں آسکتیں، کیونکہ ربوبیت سے مراد کسی کی پرورش کرنا اور پالنا ہے۔ مذکورہ بالا سب صورتیں اپنی نوعیت اور دائرہ کار کے لحاظ سے دو جہتی یاسہ جہتی اعانتیں ہیں، مگر ربوبیت ہمہ گیر و ہمہ جہت شے ہے۔ مزید یہ کہ دوسری تمام اعانتیں ہنگامی اور وقتی ہوسکتی ہیں مگر ربوبیت ایک مستقل اور مسلسل عمل ہے جو کبھی بھی منقطع نہیں ہوسکتا۔ وہ ہر حال میں ہر لحظہ جملہ سمتوں میں جاری رہتا ہے۔ عام اعانتوں احسانات و انعامات سے ضرورت مندوں کی ایک دو ضرورتوں اور حاجتوں کی تکمیل کا سامان ہوتا ہے۔ لیکن انسانی وجود کو اپنی پیدائش سے پہلے بطن مادر کے دور سے لے کر عالم شباب کو پہنچنے اور اس کے بعد ضعف و پیری کے مرحلوں میں سے گزرنے کے لیے ہر زمانے میں جو جو حاجت اور ضرورت ہوتی ہے ربوبیت اس کی کفیل ہوتی ہے۔ پھر حاجت و ضرورت کی تکمیل کے لیے عالم داخل اور عالم خارج میں جیسے جیسے حالات، تقاضے، تغیرات، عواطف و میلانات اور احوال و کیفیات درکار ہوتی ہیں ربوبیت انہیں بغیر کسی مطالبے بغیر کسی تاخیر کے از خود مہیا کرتی رہتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ خوبی کسی ایسی ذات میں ہوسکتی ہے جو ہر وجود پر ابتداء سے انتہاء تک اپنے علم و قدرت کے ساتھ حاوی اور محیط ہو، اس کی مالک اور نگہبان ہو۔ اس کی ہر حالت اور ضرورت سے ہر وقت اچھی طرح واقف اور اس پر نہایت شفیق اور مہربان ہو۔ ہر قسم کی مدد واعانت پر مکمل طور پر قادر اور خود ہر حاجت و ضرورت سے کلیتہً بے نیا ز ہو اور تمام امور میں حقیقی متصرف اور مدبر ہو۔ یہ تمام خوبیاں چونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور میں نہیں ہوسکتی تھیں، اس لیے اس نے الحمدللہ فرما کر حقیقتاً خود کو مستحق حمد ٹھہرایا اور استحقاق حمد کی دلیل اپنی ربوبیت کو قرار دیا جو فی الحقیقت صرف اسی کی شان ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے : قُلْ أَغَيْرَ اللّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ فرما دیجئے کیا میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا رب تلاش کروں حالانکہ وہ ہر شے کا پروردگار ہے۔ (الانعام، 6 : 164) العالمین کا مفہوم باری تعالیٰ نے اپنی صفت ربوبیت کی اضافت و نسبت اس لفظ کے ساتھ کی ہے۔ اس لئے یہ جاننا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے کہ العالمین سے کیا مراد ہے؟ عالمین، عالم کی جمع ہے۔ یہ اسم جنس ہے اور خود بھی جمع ہے مگر اس کا واحد کوئی نہیں، جیسے لفظ الناس جمع ہے مگر اس کا واحد کوئی نہیں۔ یہ ’’ع، ل، م،، سے مشتق ہے اور اسم آلہ ہے۔ اس کی مختصر ترین تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے : العالم اسم لما يعلم به. عالم وہ اسم ہے جس سے کسی کو جانا اور پہچانا جائے۔ (تفسير ابي السعود، 1 : 13) (تفسير روائع البيان، 1 : 24) گویا عالم وسیلہ علم ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس کو جاننے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ اس کا مختصر جواب اس تعریف میں مضمر ہے : انه من العلامة و هو يقوي قول أهل النظر فکأنه انما سمي عندهم بذالک لأنه دالٌّ علي وجود الخالق. ’’عالم،، کے علامت سے (مشتق) ہونے کی وجہ سے اہل نظر کا یہ قول برحق ثابت ہوتا ہے کہ اسے ’’عالم،، کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کے وجود پر دلالت کرتا ہے۔ (تفسير زاد المسير، 1 : 12) واضح رہے کہ کسی کو معلوم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے سے موجود ہو۔ موجود کی دو اقسام ہیں : 1۔ واجب الوجود 2۔ ممکن الوجود۔ واجب الوجود تو فقط باری تعالیٰ ہے اور ممکن الوجود اس کے سوا سب کچھ ہے۔ جوذات واجب الوجود ہے وہ ہمارے حواس و مشاہدات، عقلی ادراکات حتی کہ قلبی لطائف و اکتشافات سے بھی ماوراء ہے۔ اس کی حقیقت انسان کی ہر سطح کی نفسی استعداد کے حیطۂ ادارک سے بلند ہے۔ وہ موجود ہے لیکن غیر مرئی اور غیر محسوس۔ اس لیے اسے جاننے کے لیے کوئی ذریعہ اور وسیلہ چاہئیے۔ چنانچہ اس نے اپنی معرفت کے ذریعے اور وسیلے کے طور پر پوری کائنات کو تخلیق کیا، یہ کائنات ممکن الوجود ہے مگر واجب الوجود پر دلالت کر تی ہے، جو خود حادث ہے مگر قدیم پر دلالت کرتی ہے، جو خود عارضی مگر دائمی پر دلالت کرتی ہے، جو خود متغیر ہے مگر غیر متغیر پر دلالت کرتی ہے، جو خود اضافی ہے مگر حقیقی پر دلالت کرتی ہے، جو خود محدود و متناہی ہے مگر غیر محدود اور لا متناہی پر دلالت کرتی ہے۔ الغرض کائنات پس و بالا کے وجود کا ہر ذرہ اور اس کے نظام کا ہر گوشہ اپنے خالق و منتظم کی نشاندہی کرتا ہے۔ عالم ذریعہ علم ہے اور وہ ذات حق خود مقصود علم۔ حق یہ ہے کہ یہاں العالمین کا معنوی اطلاق اﷲ کی مخلوق کی کسی خاص نوع یا صنف سے مختص نہیں بلکہ جملہ مخلوقات کی تمام انواع و اصناف اور افراد و اجزاء کو شامل ہے۔ اس کائنات ہست و بود میں جس شے کی بھی دلالت ذات حق اور اس کی ربوبیت پر موجود ہے، وہ العالمین میں داخل ہے۔ کیونکہ اس کا وجود اس کے صانع کے وجود کی دلیل ہے اور یہی مفہوم عالم ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : العالم آلة في الدلالة علي صانعه. عالم اپنے بنانے والے کے وجود کے لیے آلہ دلالت ہے۔ (المفردات، 344) اسی قبیل سے علم ہے جس کے معنی جھنڈے کے ہیں۔ وہ بھی کسی ملک جماعت، عمارت، دفتر، شخصیت یا لشکر کی علامت ہوتا ہے۔ ا ندھیری رات میں اگر کہیں دیا جل رہا ہو جو وہاں کسی انسان کی موجودگی کا پتہ دے تو اسے بھی علم کہا جائے گا۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا : سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ہم عنقریب ان کو دنیا میں اور خود ان کی ذات میں اپنی (قدرت و حکمت کی) نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر کھل جائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔ (حم السجدة، 41 : 53) مزید ارشاد فرمایا گیا ہے : أَوَلَمْ يَنظُرُواْ فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّهُ مِن شَيْءٍ. کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت میں اور (علاوہ ان کے) جو کوئی چیز بھی اللہ نے پیدا فرمائی ہے (اس میں) نگاہ نہیں ڈالی۔ (الاعراف، 7 : 185) ایک اور مقام پر آسمان و زمین کی ساری کائنات کی ذات حق پر شان دلالت کا ذکر یوں کیا گیا ہے : إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِO الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً. بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقل سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروڑوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ (آل عمران، 3 : 190، 191) جب یہ امر بالکل واضح ہے کہ کائنات ارض و سماء کی ہر شے اور مخلوقات و موجودات کا ہر فرد، وجود الٰہی، اس کی شان خلاقیت اور صفت ربوبیت کی دلیل و علامت ہے تو اس میں سے کسی بھی حصے کو اس جگہ عالمین کے دائرہ اطلاق سے خارج تصور کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ قرآن مجید خود بھی ایک مقام پر اس معنی کی تصریح ان الفاظ میں کرتا ہے : قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِينَO قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا إن كُنتُم مُّوقِنِينَO فرعون بولا اور پروردگار عالم کی حقیقت کیا ہے؟ (یعنی وہ ہے کیا) فرمایا (وہ) آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اگر تم لوگ یقین کرو۔ (الشعراء، 26 : 23، 24) یہاں قرآن مجید نے رب العالمین کی وضاحت میں خود ساری کائنات پست و بالا اور اس کے جملہ موجودات کو بیان کردیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس قرآنی تصریح کے بعد رب العالمین کے مفہوم کو اس مقام پر صرف جن و انس یا بعض دیگر انواع خلق پر محصور و محدود کرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں رہ جاتی۔ مذکورہ بالا آیت میں آسمانی اور زمینی کائنات اور اس کے جملہ موجودات کو العالمین میں شمار کر کے فرمایا گیا ہے ان کنتم مؤقنین یعنی اگر تم صاحب ایقان ہو۔ ایقان اس علم صحیح کو کہتے ہیں جو استدلال سے حاصل ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی شان میں موقن نہیں کہا جاتا بلکہ موقن مخلوق ہی ہوسکتی ہے کیونکہ وہ موجودات عالم اور ان کے نظام ہائے گوناگوں سے ان کے خالق و صانع پر استدلال کرتی اور اس کی ہستی پر یقین حاصل کرتی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے فرمایا گیا : وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَO اور اسی طرح ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائبات خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لیے کہ وہ وعین الیقین والوں میں ہوجائے۔ (الانعام، 6 : 75) یہاں بھی زمین و آسمان کی ساری کائنات اور عوالم ارض و سماء کے تمام موجودات کے مشاہدے کو بنائے ایقان قرار دیا گیا ہے۔ جس سے باری تعالیٰ کی ربوبیت مطلقہ پر دلالت میسر آتی ہے۔ اس لیے رب العالمین میں العالمین کا مفہوم اور دائرہ صرف عالم انسانیت یا عالم جن و انس تک ہی مختص تصور نہیں کیا جانا چاہئیے، جیسا کہ بعض مترجمین اور مفسرین نے کیا ہے، بلکہ اس مقام پر اس لفظ کی معنوی وسعت میں جملہ عوالم اور ان کے موجودات کو شامل تصور کیا جانا ضروری ہے۔ درست ہے کہ قرآن مجید میں العالمین کا لفظ ہر جگہ اسی معنوی وسعت کے حوالے سے استعمال نہیں ہوا بلکہ مختلف وجوہ پر وارد ہوا ہے۔ مثلاً سورۃ البقرہ اورسورۃ الجاثیہ میں ’’أَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ،، اور سورۃالدخان میں وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَى عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ کا اطلاق ایک مخصوص زمانے کی اقوام پر ہے۔ اسی طرح سورۃآل عمران میں وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ کا اطلاق ہے۔بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ میں العالمین کا اطلاق جمیع اولاد آدم پر ہے۔ سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ میں اطلاق اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) پر ہے۔ وَلَـكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ میں اطلاق جمیع اہل ایمان پر ہے۔ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ میں اطلاق قوم منافقین پر ہے۔ الغرض ہر جگہ اس لفظ کے دائرہ اطلاق کا اندازہ خود ان آیات کے سیاق و سباق سے ہو جاتا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی لفظ اپنے اصل اطلاق اور انطباق کی وسعت سے ہٹ کر کسی خاص دائرے میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے لیے واضح قرینہ موجود ہوتا ہے اور جہاں ایسا خاص قرینہ موجود نہ ہو وہاں اسے اپنے اصل مفہوم کی وسعت پر ہی قائم رکھا جاتا ہے۔ اس آیت میں چونکہ جملہ حمد کے استحقاق کے لئے باری تعالیٰ نے اپنے العالمین کے رب ہونے کو بطور دلیل پیش فرمایا ہے۔ لہذا کائنات کی جو شے بھی رب کریم کے فیضان ربوبیت سے پروان چڑھ رہی ہے وہ بہر صورت العالمین کے دائرہ اطلاق میں داخل ہوگی۔ رَحمۃٌ للعالمین کے لئے العالمین کا استعمال مذکورہ بالا اصول کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے لیے بھی اطلاق ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے قرآن مجید میں بھی العالمین کا لفظ دو طرح استعمال ہوا ہے : 1۔ العالمین بمعنی عالم انس و جان۔ 2۔ العالمین بمعنی موجودات کائنات۔ پہلا استعمال لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا۔ (الفرقان : 1) ’’تاکہ وہ دنیا جہان والوں کو (اللہ کی نافرمانی کے عواقب سے) ڈرانے والے ہوں،، یہاں عالمین کی معنوی وسعت، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان نذیریت کے حوالے سے متعین کی جائے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ نذیر ہوناصرف اس ذوی العقول مخلوق کے لیے ہی ہوسکتا ہے جو بارگہ ایزدی میں اپنے اعمال پر جوابدہ ہو اور یہ مکلف مخلوق فقط عالم انس و جان کے افراد ہیں۔ اس لیے یہاں عالمین سے مراد تمام انسان اور جنات ہوں گے۔ تمام اقوام عالم بھی اس معنی میں شامل ہیں۔ العالمین کا دوسرا استعمال وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO ’’(اے رسول محتشم) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر،، (الانبیاء، 21 : 107) کی صورت میں کیا گیا ہے۔ یہاں اس کی معنوی وسعت کا تعین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت کے حوالے سے ہوگا۔ یہ امر ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان رحمت سے نہ صرف عالم انس و جان متمتع ہوئے ہیں بلکہ عالم ملائک، عالم ارواح، عالم اجسام، عالم نباتات و جمادات، عالم حیوانات، ذوی العقول، غیرذوی العقول حتی کہ دنیا و آخرت کے جملہ عوالم میں ہر کسی نے رحمت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے اپنے حسب حال فیض حاصل کیا ہے، کر رہا ہے اور کرے گا۔ اس لیے کہ رحمت صرف بصورت ہدایت ہی نہیں اور بھی کئی صورتوں میں صادر ہوتی ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات و معجزات سے تواتر اور صحت کے ساتھ ثابت ہیں۔ اس لیے یہاں العالمین کا دائرہ کائنات ارض و سماء کے جملہ موجودات کو محیط ہے۔ لہذا جہاں العالمین کی معنوی وسعت باری تعالی کی شان ربوبیت کے حوالے سے متعین ہوگی۔ اس کا دائرہ جملہ عوالم و موجودات کو کیوں محیط نہ ہوگا؟ العالمین کی ناقابل تصور وسعت یہ پہلوخاص طور پر قابل توجہ ہے کہ جب انواع خلق کے لحاظ سے ایک عالم پوری کائنات ہے توپھر عالمین کی وسعت کتنے عالموں اور کائناتوں کو محیط ہوگی۔ حضرت وہب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں۔ اﷲ ثمانية عشر ألف عالم، الدنيا منها عالم واحد. اﷲ تعالیٰ کے تخلیق کردہ اٹھارہ ہزار (18,000) عالم ہیں اور دنیا ان میں سے ایک ہے۔ (الدرالمنثور، 1 : 13) (تفسيرأبي السعود، 1 : 14) حضرت کعب الاحبار فرماتے ہیں : لایحصیٰ عدد العالمین۔ عوالم کی تعداد کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن مجید میں ہے : وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ. اور آپ کے پروردگار کے لشکروں کو بجز اس کے کوئی نہیں جانتا۔ (المدثر، 74 : 31) یہاں لشکروں سے مراد مختلف انواع خلق ہیں جو ارض و سماء کی وسعتوں میں جدا جدا عالمین میں موجود ہیں۔ جن کی صحیح تعداد اور حتمی تفصیلات خالق کائنات کے سوا کسی اور کو معلوم نہیں۔ اسی طرح ارشاد فرمایا گیا : وَيَخْلُقُ مَا لاَ تَعْلَمُونَO اور وہ پیدا فرمائے گا جنہیں تم (آج) نہیں جانتے۔ (النحل، 16 : 8) اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اورہمیشہ جاری رہے گا۔ بنابریں اس کے تخلیق کردہ عوالم اس قدر ہیں کہ کسی کو ان کا اندازہ بھی نہیں۔ اس امر کی تائید اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے : يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ. وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے بڑھاتا جاتا ہے۔ (فاطر، 35 : 1) یہ سب مقامات بتاتے ہیں کہ نہ معلوم دن بدن اور لمحہ بہ لمحہ کتنی کائناتیں اور عوالم منصہ خلق پر ظہور پذیر ہورہے ہیں۔ بقول اقبال : یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون چنانچہ جن علماء نے مختلف عالموں کی تعداد کا ذکر کیا ہے وہ کسی نہ کسی خاص نسبت اور جہت سے کیا ہے : 1۔ اہل علم پر جوں جوں علوم وفنون منکشف ہوتے رہے ہیں وہ اپنی اپنی بساط اور ذوق و فہم کے مطابق عالمین کی اقسام بیان کرتے رہے ہیں۔ کوئی عالم اجسام اور عالم ارواح کی تقسیم اس طور پر بیان کرتا ہے کہ عالم اجسام میں پھر اجسام علویہ اور اجسام سفلیہ کے عوالم ہیں۔ اجسام علویہ میں شمس و قمر دیگر سیارات، افلاک وکواکب، عرش و کرسی، سدرۃ المنتہٰی، لوح و قلم اور جنت وغیرہ کے عالم شامل ہیں۔ اجسام سفلیہ میں کرہ ارض، کرہ ہوا اور کرہ نار ہیں۔ یہ سب اہل فلسفہ کے نزدیک اجسام بسیط کے عالم ہیں اور اجسام مرکبہ میں عالم نباتات، عالم معدنیات، عالم حیوانات وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح عالم ارواح میں بھی علوی اور سفلی کی تقسیم ہے جن میں ملائکہ اور جن و انس کے عوالم آجاتے ہیں۔ 2۔ بعض اہل علم عالم اکبر اور عالم اصغر کی تقسیم کرتے ہیں۔ عالم اکبر سے مراد ساری خارجی کائنات ہے جس کی وسعتیں زمین وآسمان کو محیط ہیں اور عالم اصغر خود وجود انسانی ہے جو عالم اکبر کی جملہ حقیقتوں کا جامع ہے۔ عالم اکبر جن حقائق کی تفصیل ہے عالم اصغر ان سب کا اجمال ہے بایں طور کائنات عالم مفصل ہے اور انسان عالم مجمل ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَO وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَO اور (یوں تو) یقین رکھنے والوں کے لئے زمین میں (بے شمار) نشانیاںْ ہیں اور (اے لوگو) خود تمہارے نفسوں میں بھی (اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں) پھر کیا تم غور نہیں کرتے۔ (الذرايت، 51 : 20، 21) اسی طرح : سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ. ہم عنقریب ان کو دنیا میں اور خود ان کی ذات میں (اپنی قدرت و حکمت کی) نشانیاں دکھائیں گے۔ (حم السجدة، 41 : 53) اس آیت میں واضح طور پر عالم انفس اور عالم آفاق کا ذکر ہے۔ دونوں میں فرق یہی ہے کہ جو آیات الہیہ عالم آفاق میں منتشر ہیں وہ سب عالم انسانی میں متجمع ہیں اس لیے کہا گیا ہے : من عرف نفسه فقد عرف ربه. جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا پس اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ (الحاوي للفتاويٰ، 2 : 412) (کشف الخفاء، 2 : 262) کیونکہ عالم انفس میں مخفی حقیقتیں سب رب کریم کی ذات و صفات کا پتہ دیتی ہیں۔ بقول اقبال : اگر خواہی خدا را فاش بینی خودی را فاش تر دیدن بیاموز 3۔ عالمین کی وسعت کا ایک ادنیٰ سا اندازہ وہ بھی ہے جو آج سائنسی انکشافات کے ذریعے حاصل ہورہا ہے۔ اس کا تذکرہ رب العالمین کے الفاظ میں پنہاں ربوبیت الہیہ کی بے کراں وسعتوں کو کسی حد تک اجمالاً سمجھنے میں یقیناً ممد ہوگا۔ ملحص از: لفظ رب العالمین کی علمی اور سائنسی تحقیق ۔۔ڈاکٹر طاہر القادری
امام غزالی اور ڈیکارٹ کی تشکیکیت میں فرق؟ اعتراض کیا جاتا ہے کہ "امام غزالی" اور "رینے ڈیکارٹ" کی تشکیکیت میں کوئی فرق نہیں ہے. جبکہ دونوں کی تشکیکیت میں واضح فرق موجود ہے صرف تعصب کی عینک اتار کر دیکھنے کی ضرورت ہے. امام غزالی کی تشکیکیت اور نتائج: امام غزالی کو دینی علوم کے ساتھ علومِ فلسفہ و منطق سے بھی کافی شغف رہا ہے، چنانچہ آپ کی تصانیف میں جا بجا منطقی اور فلسفیانہ طرز کی بحثیں، منطقی استدلال اور فلاسفہ کے اقوال ملتے ہیں۔ بعض مقامات پر امام صاحب نے منطق کو میزان العلوم، تک قرار دیا ہے، جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ علومِ عقلیہ پر انہیں کس قدر اعتبار و اعتماد تھا۔ "اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ (امام) غزالی کی ذات کو فلسفہ میں کس قدر عجز تھا اور وہ اس سے خروج حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے معرفتِ حقیقت کے لیے اسے حاصل کیا تھا۔ پس ان کی نیت ایسے اسباب حاصل کرنے کی رہتی تھی جس میں فلسفہ کی کثرت ہو اور وہ اسی فلسفہ کی پرواز تخیل میں (مگن) رہتے تھے۔ اور بعض مقامات پر اختلافِ شریعت کر گئے .لیکن فلسفہ پر مکمل عبور تھا اور منفی و اختلافِ شریعت کے تجربات سے گزرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ فلسفی درحقیقت لا دین ہیں ۔اس ضمن میں امام غزالیؒ نے فلسفیوں کے استدلال کی بنیادی خامیوں کو زیر بحث لاتے ہوئے ان کی منطق کے پرخچے اڑا دئیے اور اپنے علم ،مطالعہ اور ذہانت کی بدولت یہ ثابت کیا کہ ابدیت کے بارے میں ان کا اعتقاد درست نہیں ،ارواح اور اساطیری اجسام کے بار ے میں ان کے نظریات صریحاً گمراہ کن ہیں، فلسفیوں کا نظریۂ علت و معلول درست ہے اور نہ ہی وہ روح کی ابدیت کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں اور مزید یہ کہ خدا کے وجود سے متعلق ان کے دلائل نقائص سے پاک نہیں۔اس قسم کے بیس نکات کو زیر بحث لاتے ہوئے امام غزالی ؒفلسفیوں کے خلاف تین الزامات لگاتے ہوئے انہیں لا دین ہونے کا مرتکب پاتے ہیں۔پہلا، کائنات کی ابدیت، دوسرا، زمان و مکاں کے بارے میں خدا کے علم سے انکار اور تیسرا،حیات بعد از موت سے انکار۔ امام غزالیؒ کا ماننا تھا کہ خدا اس کائنات کو عدم سے وجود میں لے کر آیا اور ماضی کے ایک لمحے میں تخلیق کیا اور ماضی کا وہ لمحہ حال سے ایک متعین فاصلے پر ہے ،لا محدود نہیں ہے ۔خدا مادے کے ساتھ ساتھ وقت کا بھی خالق ہے جس کا ایک معین آغاز تھا لہٰذا وقت لامتناہی نہیں ہو سکتا۔امام غزالیؒ کی فلسفیوں سے بنیادی اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ ان کے خیال میں فلاسفہ کے دلائل منطقی اعتبار سے درست نہیں تھے اپنے نظریات کو سچا ثابت کرنے کی غرض سے فلسفیوں نے بعض جگہوں پر اپنے ہی دلائل کی نفی کرتے ہوئے متضاد باتیں کہی تھیں۔ امام غزالیؒ کے خیال میں فلسفیوں نے جن مفروضوں کی بنیاد پر اپنے عقائد کی عمارت کھڑی کی وہ مفروضے ہی سراسر غلط تھے۔ امام غزالیؒ نے ثابت کیا کہ ان مفروضوں کی منطقی اعتبار سے تشریح کی جا سکتی ہے اور نہ ہی یہ وحی کے ذریعے سے اپنے آپ آشکار ہوتے ہیں ۔ رینے ڈیکارٹ کی تشکیکیت اور نتائج: اپنے فلسفیانہ تفکر کے آغاز میں ڈیکارٹ خدا، دنیا اور حواس خمسہ سمیت ہر شے کو اپنی تشکیک کا ہدف بناتا ہے۔ لیکن اس تشکیک میں اس کو یقین کا ایک نکتہ ہاتھ آجاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ہر شے کی بابت شک کرتا رہا، لیکن اپنی ذات، یعنی شک کرنے والی شے، پر شبہ نہ کرسکا۔ اگر شک کرنے والی شے غیر حقیقت یا عدم وجود کی حامل ہے، تو پھر شک کرنے کے عمل کو کون انجام دے رہا ہے۔ مزید برآں تشکیک تفکر پر دلالت کرتی ہے۔ لہذا تفکر پر مبنی عمل تشکیک کے ذریعہ وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ میں سوچتا ہوں، اس لیے میرا وجود ہے۔ اس نکتہ یقین سے اس نے بقیہ تمام نتائج ریاضیات کی طرح اخذ کیے ہیں۔ وہ اپنی ذات کا تنقیدی تجزیہ کرتا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اس کے ذہن میں بعض وہبی تصورات پائے جاتے ہیں۔ ان تصورات میں ایک اکمل ذات یا خدا کا تصور ہے۔ اس کے ذہن میں اس تصور کا خالق، خود خدائے اکمل کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا کا وجود ہے۔ خدا کے وجود کے اثبات کے سلسلہ میں یہ اس کی کونیاتی Cosmological یا علیِّ دلیل ہے۔ خدا کی ذات کے اثبات میں وہ وجودیاتی Ontological دلیل بھی دیتا ہے۔ اگر خدا کی ذات اکمل ہے تو پھر اس کا وجود بھی لازمی ہے، اس لیے کہ وجود کا فقدان عدم اکملیت کے مترادف ہے۔ چنانچہ ایک اکمل ذات کے تصور میں لازمی طور پر اس کے وجود کا تصور بھی شامل ہے، اور اسکا مطلب ہے خدا نہیں ہے. جس طرح ایک مثلث کے تصور میں یہ تصور بھی شامل ہے کہ اس کے تین زاویے ہونگے اور ان زاویوں کا مجموعہ دو زاویہ قائمہ کے برابر ہوگا۔ اپنے فلسفہ کو جوہر کے تصور پراستوار کرتے ہوئے ڈیکارٹ خدا کو ایک موجود بالذات اور خود مختار جوہر قرار دیتا ہے جو دیگر اشیا کا محتاج نہیں ہوتا۔ اس کے نزدیک جوہر وہ ہے جو وجود بالذات رکھتا ہو اور مخلوق بالذات ہو یعنی اپنے وجود کے لیے کسی اور علت کا پابند نہ ہو۔ اس تعریف کی رو سے جوہر ایک ہی ہوسکتا ہے اور وہ خدا ہے۔ لیکن ایک طبعیات داں کی حیثیت سے وہ مادے کے وجود سے منکر نہ ہوسکا۔ لہذا خدا کے علاوہ دو اور جوہروں کے وجود میں بھی وہ یقین رکھتا ہے جن کو وہ ممتد جوہرExtended Substance اور مفکر جوہرThinking Substance کے ناموں سے موسوم کرتا ہے اور جن سے وہ علی الترتیب نفس یا روح اور مادہ مراد لیتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ان کا مبدا خدا کی ذات ہے لیکن یہ دونوں ثانوی جواہر بھی ضمنی اعتبار سے وجود بالذات کے حامل میناور اپنے اپنے دائرہ کار میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ تمام طبعی دنیا ایک جوہر ممتد ہے جو میکانیکی قوانین فطرت کی تابع ہے اور یہی متحرک مادہ بالآخر طبعی دنیا کو وجود میں لانے کا سبب بنتا ہے۔ پھر اس کے نظریہ تعامل کو بعد کے فلسفیوں نے تسلیم نہیں کیا، بلکہ خود ڈیکارٹ کے پر جوش حامیوں کو یہ قابل قبول نہ ہوا۔ چنانچہ انھوں نے اس کی تعاملیت کو سخت تنقید کا ہدف بنایا ہے۔ ڈیکارٹ دراصل ثانویت پرست(Humanist) ہے۔ اس کا نظریہ تعامل بھی اس کی ثانویت کا ہی ضمنی نتیجہ ہے۔ ذہن و جسم کے مابین نظریہ تعامل کے ذریعہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی محض کوشش کرنا ایک عالمانہ معجز نمائی سے کام لینا ہے۔ ڈیکارٹ کی ثانویت کے لیے منطقی بنیاد فراہم کرنا مشکل ہے۔ تاہم اس کا ثانویتی نظریہ جدید طبعی علوم کو فروغ دینے میں بے حد معاون ثابت ہوا ہے۔ اس نے ان کی ترقی کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی بدولت ان علوم کو میکانیکی قوانین کے معروضے پر عمل کرتے ہوئے اپنے اپنے دائروں میں ترقی کرنے کی آزادی میسر آئی ہے۔
غیر مشرقی لوگوں کا مشرقی زبانوں، تہذیب، فلسفے، ادب اور مذہب کے مطالعے میں مشغول ہو جانے کا نام استشراق ہے۔ اس تعریف کی رو سے ہر وہ غیر مشرقی عالم جو اپنے آپ کو مشرقی علوم کے لیئے وقف کرے گا اسے مستشرق کہا جائے گا۔
آکسفورڈ کی جدید ڈکشنری کے مطابق مستشرق وہ ہے جو مشرقی علوم و آداب میں مہارت حاصل کرے
المنجد کے مطابق مستشرق وہ ہے جو مشرقی زبانوں، آداب اور علوم کا عالم ہو اور اس علم کا نام استشراق ہے
ان تعریفوں میں کوئی بھی تعریف ایسی نہیں جو تحریک استشراق کے مقاصد اور عملی پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہو۔مشرق کا لفظ بذات خود وضاحت طلب ہے۔ مشرق و مغرب کے مفہوم میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ قرون وسطی میں بحیرہ روم کو دنیا کا مرکز قرار دیا جاتا تھا اور جہتوں کا تعین اسی سے ہوتا تھا۔ اس کے مشرقی علاقوں کو مشرق اور مغربی علاقوں کو مغرب سے تعبیر کیا جاتا تھا اگر ہم مشرق کے اس مفہوم کو تسلیم کر بھی لیں تب بھی مستشرق کی مندرجہ بالا تعریف جامع نہیں رہتی اس تعریف کی رو سے دین عیسوی کا تعلق بھی مشرق سے ہے اور اس حساب سے جو عالم حضرت عیسی علیہ السلام کی زبان، معاشرت، مذہب اور سیرت کے مطالعے کے لیئے خود کو وقف کر دے اسے بھی مستشرق قرار دیا جانا چاہیئے مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ بائبل کے دونوں حصوں عہد نامہ قدیم و جدید میں اکثر واقعات کا تعلق مشرق سے ہے مگر بائبل کے عالم کو کوئی بھی مستشرق نہیں کہتا۔ ایک حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ علمی مصادر جو مستشرقین کی مساعی کا نتیجہ ہیں یا تو وہ اس تحریک کے متعلق کلیتہ خاموش ہیں یا اگر کہیں ذکر ملتا بھی ہے تو وہ ناکافی اور مبہم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مستشرقین اپنے مقاصد کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں ۔
یہ تحریک صدیوں مصروف عمل رہی مگر اس کا کوئی باضابطہ نام نہ تھا۔ اربری کہتا ہے کہ Orientalist کا نام پہلی دفعہ 1630 ء میں مشرقی یا یونانی کلیسا کے ایک پادری کے لیئے استعمال ہوا۔ روڈنسن کہتا ہے کہ Orientalism یعنی استشراق کا لفظ پہلی دفعہ انگریزی زبان میں 1779 ء میں داخل ہوا۔ فرانس کی کلاسیکی لغت میں استشراق کے لفظ کا اندراج 1838 ء میں ہوا۔ حالانکہ عملی طور پر تحریک استشراق اس سے کئی صدیاں پہلے وجود میں آ چکی تھی اور پورے زور و شور سے مصروف عمل تھی۔ جن لوگوں نے تحریک استشراق کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ان کے اغراض و مقاصد، ان کی تاریخ اور ان کے علمی کارناموں کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے مستشرقین کے مختلف نظریات اور مساعی کے پیش نظر استشراق کی کچھ تعریفیں بیان کی ہیں ڈاکٹر احمد عبد الحمید غراب نے اپنی کتاب رویۃ الاسلامیہ لاستشراق میں کچھ تعریفیں لکھی ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :۔
1۔ استشراق مغربی اسلوب فکر کا نام ہے جس کی بنیاد مشرق و مغرب کی نسلی تقسیم کے نظریہ پر قائم ہے۔ جس کی رو سے اہل مغرب کو اہل مشرق پر نسلی اور ثقافتی برتری حاصل ہے یہ تعریف گو کہ ہر مستشرق کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے لیکن اگر اس تعریف کی رو سے دیکھا جائے تو آج سارا یورپ ہی مستشرق نظر آئے گا۔ کیونکہ جب سے انہوں نے صنعتی و عسکری میدان میں ترقی کی ہے اسی وقت سے سارا یورپ اسی انداز سے سوچتا ہے ۔اس صورت میں یہ تعریف استشراق کو سمجھنے میں معاون ثابت نہیں ہو سکتی۔
2۔ استعماری مغربی ممالک کے علماء اپنی نسلی برتری کے نظریے کی بنیاد پر، مشرق پر غلبہ حاصل کرنے کی نیت سے اس کی تاریخ، تہذیبوں، ادیان، زبانوں، سیاسی اور اجتماعی نظاموں، ذخائز دولت اور امکانات کا جو تحقیقی مطالعہ غیر جانبدارانہ تحقیق کے بھیس میں کرتے ہیں اسے استشراق کہا جاتا ہے۔
3. استشراق اس مغربی اسلوب کا نام ہے جس کا مقصد مشرق پر غلبہ حاصل کرنے کے لیئے اس کی فکری اور سیاسی تشکیل نو کرنا ہے ۔
آخری دو تعریفیں گو کہ مستشرقین کے استعماری اور استحصالی ارادوں کا پتا دیتی ہیں لیکن ان کے سینوں میں چھپی ہوئی اس حقیقی خواہش کا پتا نہیں دیتیں جس کا پردہ ہمارے علیم و خبیر پروردگار عالم نے صدیوں پہلے چاک کر دیا تھا :۔
وَدَّتْ طَّـآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يُضِلُّوْنَكُمْ ؕ وَمَا يُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَهُـمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ (69)
بعض اہلِ کتاب دل سے چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم کو گمراہ کردیں، اور (وہ) گمراہ نہیں کرتے مگر اپنے نفسوں کو اور نہیں سمجھتے۔
ڈاکٹر احمد عبد الحمید غراب نے مندرجہ بالا تعریفیں بمع تبصرہ نقل کرنے کے بعد استشراق کی جو تعریف خود کی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے :۔
" مغربی اہل کتاب، مسیحی مغرب کی اسلامی مشرق پر نسلی اور ثقافتی برتری کے زعم کی بنیاد پر، مسلمانوں پر اہل مغرب کا تسلط قائم کرنے کے لیئے مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں گمراہی اور شکوک کا شکار کرنے اور اسلام کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنے کی غرض سے، مسلمانوں کے عقیدہ، شریعت، ثقافت، تاریخ، نظام اور وسائل و امکانات کا جو مطالعہ غیر جانبدارانہ تحقیق کے دعوے کے ساتھ کرتے ہیں اسے استشراق کہا جاتا ہے ۔"
یہ تعریف مستشرقین کے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پوشیدہ عزائم کو ظاہر کرتی ہے لیکن اس میں خامی یہ ہے کہ اس کی رو سے تمام مستشرقین ایک ہی زمرے میں شمار ہو جاتے ہیں جبکہ مستشرقین کو کئی گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ایک خامی اور ہے کہ جو مستشرقین اسلام کے علاوہ دیگر مشرقی علوم اور تہذیبوں کے میدان عمل میں مصروف ہیں وہ مستشرقین کے دائرہ کار سے نکل جاتے ہیں۔ حالانکہ معروف معنوں میں وہ مستشرق ہیں۔
ڈاکٹر محمد ابراہیم رودی بارت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مستشرقین کے عرف میں لفظ مشرق کا جغرافیائی مفہوم مراد نہیں بلکہ ان کے ہاں مشرق سے مراد وہ خطے ہیں جہاں اسلام کو عروج حاصل ہوا۔ گویا مستشرقین دنیائے اسلام کو مشرق کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔
مشرق کے اس مفہون کے تحت، مستشرقین کی عملی جدوجہد جن خفیہ مقاصد کی غمازی کرتی ہے ان کو اور مستشرقین کے بے شمار علمی کارناموں اور طبقات کو مدنظر رکھتے ہوئے مستشرقین کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے :۔
" اہل مغرب بلعموم اور یہود و نصاری بالخصوص، جو مشرقی عوام خصوصا ملت اسلامیہ کے مذاہب، زبانوں، تہذیب و تمدن، تاریخ، ادب، انسانی قدروں، ملی خصوصیات، وسائل، حیات اور امکانات کا مطالعہ معروضی تحقیق کے لبادے میں اس غرض سے کرتے ہیں کہ ان اقوام کو اپنا ذہنی غلام بنا کر ان پر اپنا مذہب اور تہذیب مسلط کر سکیں اور ان پر غلبہ پا کر ان کے وسائل حیات کا استحصال کر سکیں ان کو مستشرقین کہا جاتا ہے اور جس تحریک سے یہ لوگ وابستہ ہیں اسے تحریک استشراق کہا جاتا ہے۔"
ملحدوں کے ایک گروپ میں آجکل ایک ملحد صاحب چند ذومعنی تاریخی روایات سے اپنے مرضی کے مطالب اور مفروضے نکالنے کو آرکیالوجی اور خود کوآرکیالوجسٹ سمجھے بیٹھے ہیں، صاحب مکہ اور کعبہ کے تاریخی وجود پر کرسچین مشنریز کا گھسا پٹا اعتراضی میٹریل اردو میں ٹرانسلیٹ کرکے اپنے نام سے پبلش کررہے ہیں اور اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق ، سب فری بلنکرز ان کے علم پر عش عش کررہے ہیں۔ ہم گزشتہ تین تحاریر میں مکہ ، کعبہ اور آب زم زم کے وجود پر تاریخی دلائل پیش کرچکے ہیں، اس تحریر میں ان علامہ ملحد صاحب کی تحقیقات کا سرسری جائزہ پیش ہے۔ ان چند چاولوں سے ہی ملحد صاحب کی پکائی کھچڑی کی پوری دیگ کا اندازہ ہو جائے گا۔
علامہ ملحد صاحب نے اپنے مقدمے کی بنیاد جس آیت پرکھی وہ سورۃ الشوریٰ کی آیت ہے جس میں قران مکہ کو “ام القریٰ” کے نام سے پکارتا ہے۔ اور اس آیت سے ان صاحب نے اخذ کیا کہ قران چونکہ مکہ کو شہروں کی ماں قرار دے رہا ہے اسکا مطلب ہے کہ قران مکہ کے قدیم ترین ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے ، اس سے انہوں نے جو مفروضے اور مطالب اخذ کیے انکی وہ کوئی دلیل نہیں پیش کرسکے لا سکے ۔ انکے ان دعووں کی کوئی صراحت قران سے بھی نہیں ملتی۔
سوال یہ ہے کہ قرآن نے کس بنیاد پر مکہ کو ام القری کہا ، علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں ” مکہ ام القریٰ اس لئے ہے کیونکہ یہ خدا کی نظر میں افضل ہے۔ کیونکہ بہت سے انبیاء یہاں تشریف لائے، نبیﷺ بھی یہاں ہی پیدا ہوئے اور خدا کی عبادت کے لئے بنایا گیا گھر بھی اسی شہر میں تھا تو اسکی حرمت اور قدر تو خود ہی ہوگئی۔ (تفسیر ابن کثیر )
قران نے شراب کو ام الخبائث سے تعبیر کیا ہے۔ اب اگر اس سے کوئی استدلال کرے کہ قران کا مقصود یہ بتانا کہ شراب بہت پرانا مشروب ہے تو اسکے بارے میں خود ہی فیصلہ فرما لیں کہ وہ کس جگہ کھڑا ہے اور اس پہ بلند و بانگ دعویٰ جات۔۔اب آپ خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں جس بندے کے مقدمے کی بنیاد ہی ایک علمی بد دیانتی پہ ہو وہ آگے کیا بیان کرے گا۔
ایک اور ملحد صاحب نے وہاں سورہ آل عمران آیت نمبر 96 ( ان اول بیت وضع للناس للذی ببکته) پیش کی کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مکہ کو قران قدیم ترین شہر قرار دے رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے قرآن نے یہاں بھی مکہ کے بارے میں بات نہیں کی۔ بلکہ اس آیت میں بھی صرف خانہ کعبہ کا ذکر فرما رہا ہے کہ اللہ کے لئے یہاں سب سے پہلا عبادت خانہ بنا…. کب؟ اس کی کوئی صراحت نہیں کی گئی .
جناب نے ایک قسط میں ابن اسحاق اور طبری کی ایک روائت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ (حضرت عبداللہ حضرت آمنہ کے پاس پہنچے تو باہر کھیتوں میں کام کرنے کی وجہ سے ان پر کچھ مٹی لگی ہوئی تھی)… علامہ ملحد صاحب کا مسخرہ پن ملاحظہ کیے اس سے جناب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اس سے مکہ شہر کا کوی زرعی شہر ہونے کا تاثر ابھرتا ہے جہاں چار سو کھیت اور فصلیں لہلہاتی ہوں جو کہ مکہ میں ممکن نہیں بلکہ پترا میں ممکن ہےلہذا وہ مکہ میں نہیں پترا میں آباد تھے …. یہ ہے انکی آرکیالوجیکل تحقیق کا معیار!!
بات یہ کہ مذکورہ روایت میں شہر کی زرعی حیثیت کا ذکر نہیں… بلکہ مزرعہ کی بات ہے.. ہر وہ جگہ جہاں چند کھجور کے درخت اور کچھ گھاس پھونس اگائی گئی ہو اسے مزرعہ کہتے ہیں…. اور خطہ عرب میں مزرعہ جات کوئی لمبے چوڑے مربع ایکڑ پر مشتمل زرعی میدان نہیں ہوتے… اور اس دور میں تجارت کے علاوہ فرصت کے دنوں میں یہی چھوٹا موٹا کام ہوا کرتا تھا…. اب ایسے کسی چھوٹے سے باغیچہ میں بھی کام کرنا ہو تو انسان پر مٹی کا لگنا ایک عام سی بات ہے… اس کے لئے کسی بڑے زرعی رقبہ میں کدال سے کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں…
پھر جناب نے مکہ کے راستوں پر مفروضہ باندھا ہے کہ یہ مکہ کے داخلی راستے دروں کی صورت ہونے چاہئے تھے اور اس کی دیواریں ہونی چاہئیں تھیں.. اور یہ کہ مکہ میں کسی طرف سے بھی پہاڑ پر چڑھ کر درے کے ذریعے نیچے اترنے کی ضرورت نہیں ہے… جناب کا آرکیالوجیکل نالج ملاحظہ کیجیے جناب کو یہ بھی نہیں پتا درہ ہوتا کیا ہے اور کیسا ہوتا ہے ۔؟درہ دو پہاڑوں کے درمیان سے گزرے والا راستہ ہو تا ہے… نا کہ پہاڑ پر چڑھ کر واپس اترنا درہ کہلاتا ہے…
مکہ کے راستوں کے متعلق ایک روایت ملاحظہ کیجیے
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خاتم بن اسماعیل نے ہشام سے بیان کیا، ان سے عروہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ کے بالائی علاقہ کداءکی طرف سے داخل ہوئے تھے۔ لیکن عروہ اکثر کدیٰ کی طرف سے داخل ہوتے تھے کیونکہ یہ راستہ ان کے گھر سے قریب تھا۔(کداءبالمد ایک پہاڑ ہے مکہ کے نزدیک اور کدیٰ بضمِ کاف بھی ایک دوسرا پہاڑ ہے جو یمن کے راستے سے ہے۔)
مکہ کے بالائی اور زیریں راستے برساتی نالوں کے حساب سے ہی سمجھے جاتے ہیں… پہاڑوں میں وہ سمت جس طرف سے وادی (برساتی نالہ) آ رہا ہے وہ بالائی حصہ ہوتا ہے اور جس طرف کو یہ وادی جا رہی ہے وہ زیریں حصہ ہوتا ہے… اور یہ بات اٹل ہے کہ زمین کی زیریں حصہ سمندر کی طرف ہوتا ہے… اور سطح سمندر سے دور ہٹتے ہوئے ہم بالائی حصہ کی طرف جا رہے ہوتے ہیں.. لیکن اس صورت میں بھی س یہ بات بچگانہ سی ہے کہ بالائی درہ کوئی پہاڑ پر چڑھ کر اترنے کو کہتے ہیں
علامہ صاحب کا اک اور مفروضہ ملاحظہ ہو کہ جناب نے لکھا کہ مکہ کیونکہ ایک بڑا تجارتی شہر گردانا جاتا تھا جس میں اتنے بڑے بڑے تاجر تھے جن کے ایک وقت میں پچیس سو اونٹ تک قافلے میں شامل ہوتے تھے… اتنی بڑی آبادی میں مکہ کے لوگ کھاتے کیا تھے…. کیونکہ مکہ پہاڑوں میں گھرا ہو شہر ہے جس میں کوئی زراعت نہیں ہے…. اور اس شہر میں ایسا کیا پیدا ہوتا تھا جسے یہ لوگ مال تجارت کے طور پر دوسرے علاقوں میں بیچتے تھے….
پہلی بات کا جواب تو جناب کے سوال میں ہی ہے کہ مکہ والے تاجر تھے تو دوسرے ممالک سے اپنے لئے خوراک کا سامان لانا کوئی انہونی بات نہیں ہے… اس کے علاوہ جانوروں کی پرورش اور دودھ اور کھجور ان کی بنیادی غذا تھی… یہ اونٹ صرف بار برداری کے ہی نہیں ہوتے تھے، ان اونٹوں کی خرید و فروخت بھی ہوتی تھی، یہ جانور فروخت کرتے… وہاں سے ان کے عوض دیگر سامان تجارت خریدتے اور اس سامان کو آگے کی منڈیوں میں بیچ دیتے… ملحد صاحب کو اتنی عرق ریزی کے بعد اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ خوراک کے لئے اپنے ہی علاقہ میں ذراعت کوئی مسلمہ اصول نہیں ہے دنیا کا…. اگر ایسا ہوتا تو وینس شہر کا تو دنیا میں نام و نشان ہی نا رہتا… وہ لوگ تو بھوکے ہی مر جاتے… کیونکہ سمندر کی بیچ بسے اس شہر میں ذراعت کا تو ذکر بھی ممکن نہیں……
اور تجارت کے لئے مال کا بھی پہلے بتایا جا چکا ہے کہ پالے ہوئے جانور یعنی بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ….اور دوسرے ممالک سے خریدا گیا سامان تجارت آگے کی منڈیوں میں فروخت کرنا، اس پر منافع کمانا اور اپنے لئے سامان خورد و نوش خریدنا… یہ سب مکہ والوں کی تجارت کا احوال تھا۔۔
علامہ آرکیالوجی ایک اور سوال پیش کرتے ہیں کہ مکہ والے پہلے تو دور سے گزر کر مدینہ کے شمال میں جاتے تھے، اور پھر مشرق کی طرف “بائیں” مڑ کر مدینہ کے شمال میں پہنچ کر گھوم کر مدینہ پر حملہ کرتے تھے.. یہاں جناب اندازہ لگوا رہے ہیں کہ حجاز کے ان دشوار گزار راستوں میں جہاں پانی کا ملنا انتہائی مشکل ہے مکہ کی فوج ریگستان میں چلتے ہوئے مدینہ کے شمال مشرق سے جاکر حملہ کرتے ہیں۔۔۔ علامہ صاحب نے بجائے کوئی مستند حوالہ دینے کے محض اپنے اس مفروضے سے کہ وہ مدینہ کے شمال سے حملہ آور ہوتے تھے’ یہ نتیجہ نکالا کہ قریش مکہ کے بجائے پترا کے رہائشی تھے ۔ ۔
ملحدوں نے آرکیالوجی کا بھی بیڑا غرق کرنے کی قسم اٹھائی ہوئی ہے۔۔بندروں کے ہاتھ استرا آگیا ہے۔۔
مکہ سے چلنے والا لشکر جس کی بنیادی ضرورت اس سفر میں پانی کا حصول اور نسبتا ہموار راستہ ہے جس پر وہ اپنے جانوروں اور سامان کے ساتھ چلتے ہوئے مدینہ پہنچ جائیں.. اس لشکر قریش نے مدینہ کے قریب جاتے ہوئے پہاڑوں سے بچنے اور نسبتا ہموار راستے پر چلتے ہوئے وادی العقیق کا انتخاب کیا… یہ برساتی نالہ ان کی پانی کی ضرورت کے لئے بھی بہتر تھا کیونکہ پہاڑوں میں ایسے برساتی نالوں میں تھوڑی سے کھدائی سے پانی حاصل کیا جا سکتا ہے….
وادی العقیق کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے لشکر کفار مدینہ کے مغرب سے گزرتے ہوئے شمال مغرب میں پہنچا… جہاں وادی العقیق اور وادی قناة جو کہ مدینہ کی طرف سے آ رہی ہے اکٹھا ہوتی ہیں… اور آگے یہ دونوں مل کر وادی الحمض کی شکل آگے نکل جاتی ہیں… وہاں سے وادی العقیق کو چھوڑ کر انہوں نے وادی قناة کے ساتھ ساتھ واپس مدینہ کی طرف سفر شروع کیا اور مشرکین نے شمال مغرب سے بل کھاتے ہوئے مڑ کر جنوب مغرب میں چلتے ہوئے وادی کے ساتھ ساتھ سفر کیا… اس وادی کے ساتھ آگے بائیں گھوم کر جنوب مشرق کی سمت چلتے ہوئے موجودہ العیون کے مغرب سے گزر کر جبل احد کے جنوب میں پہنچ گیا جو کہ مدینہ کے شمال میں واقع ہے… اس طرح لشکر مکہ شمال مغرب سے جبل احد کے دامن میں داخل ہوا… اور لشکر مدینہ جنوب سے شمال کی طرف سفر کرتے ہوئے میدان احد پہنچا… وہ دور افواج کی حرکت کے لئے اونٹوں، گھوڑوں اور خچروں وغیرہ پر انحصار کرنے کا تھا… پیرا ٹروپنگ کا تصور بھی نہیں تھا، اس لئے مکہ سے چلنے والا لشکر مدینہ کے تین اطراف پھیلے پہاڑوں پر چڑھنے کی غلطی کرکے مرنے کی بجائے ان وادیوں (برساتی نالوں) کے ساتھ ساتھ لمبا چکر کاٹ کر گھومتا ہوا ہموار راستے سے مدینہ کی طرف اترا اور بھاگنے کے لئے بھی انہیں اسی راستے پر جانا تھا… ناکہ پہاڑوں ہر چڑھ کر پتھروں میں مر جاتے..
ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ ملحد صاحب نے جو نقشہ بنا کہ احد کی جنگ کو دکھایا ہے اسمیں احد پہاڑ کو اٹھا کہ وہ کوسوں دور لے گئے ہیں تاکہ انکے گوگلی امر کی وضاحت ہوسکے۔۔۔ حالانکہ احد پہاڑ اور مدینہ بلمقابل ہیں اور موصوف نے جو نقشہ پیش کیا ہے اسکے مطابق مدینہ وہ کہاں پیچھے جبکہ احد کا میدان بہت آگے نکل جاتا ہے۔۔۔۔ تھوڑا عرصہ ہے موصوف اس پہاڑ کو جلد پترا واپس پہنچا کہ دم لیں گے، جنگ احد کا یہ نقشہ کسی نا سمجھ بچے کے لئے تو شائد قابل قبول ہو، کسی بھی سمجھدار انسان کے لئے ہنسنے کا ہی مقام ہے… جناب لشکر قریش کا جو روٹ دکھا رہے ہیں وہ موجودہ مدینہ کی مکمل آبادی سے باہر سے نکال کر لائے ہیں اور جبل احد کی شمالی سمت جا کر پہاڑ کے پار میدان جنگ سجا دیا ہے… جبکہ میدان جنگ جبل احد کی جنوبی سمت مدینہ کی طرف ہے… اپنی لائن ڈرا کرتے ہوئے حاجی صاحب یہ بھول گئے کہ جنگ احد دسمبر 2015 میں نہیں لڑی جا رہی جو محترم کفار کے روٹ کو موجودہ مدینہ کی آبادی سے باہر نکال کر جبل احد کے بھی پار پہنچا رہے ہیں… بلکہ اس وقت مدینہ کی مرکزی بستی موجودہ مسجد نبوی کے رقبہ کے ہی برابر تھی… اور باقی بستیاں الگ الگ تھیں جو مختلف قبائل کا مسکن تھیں… اور قریش مدینہ کی مرکزی بستی پر حملہ آور تھے جہاں خود محمد الرسول اللہ موجود تھے..
اسی طرح صاحب نے جنگ خندق کا نقشہ پیش کیا ہے ،اسکے میدان جنگ کے حوالے سے صرف اپنی مرضی کی کانٹ چھانٹ کر کے چند چیزیں دکھائیں اور ان پر مفروضہ باندھ لیا…ہمیں اس کا جواب دینا بھی ایک بچگانہ عمل اورملحدوں کی چولیات کو بلاوجہ کی اہمیت دینے جیسا لگتا ہے۔۔
ملحد صاحب کے مکہ پہ اعتراض کے سلسلے میں پٹالومی کا ذکر کیا ، پٹالومی کے حوالے سے مشہور ہے کہ اس نے اپنے نقشے میں جس شہر کا ذکر کیا جسے اس نے مکروبہ کا نام دیا تھا۔ وہ شہر اصل میں مکہ تھا۔ اس پر گزشتہ تحاریر میں ہم تفصیل پیش کرچکے مزید پانچ تاریخ دانوں کی شہادتوں کے حوالے پیش ہیں۔
Cyril Glassé: The New Encyclopedia of Islam By Cyril Glassé page 302
(Ilya Pavlovich Petrushevsky (1898–1977): Islam in Iran by I. Pavlovich Petrushevsky page 3
Michael Wolfe:One Thousand Roads to Mecca: Ten Centuries of Travelers Writing about the Muslim pilgrimage Michael Wolfe introduction xv
Paul Wheatley:Paul Wheatley The Origins and Character of the Ancient Chinese City: volume 11 page 288
Mogens Herman Hansen: A Comparative Study of Thirty City-state Cultures: An Investigation, Volume 21 by Mogens Herman Hansen page 248 NOTE 24
بقول علامہ ملحد صاحب کہ یہ تمام عیسائی مورخین تھے اور ایک پروپگنڈہ کے طور پہ انہوں نے یک زبان جھوٹ لکھا۔ اور علامہ صاحب چونکہ ملحد ہیں اس لیے وہ سچے مفروضے قائم کررہے ہیں یہ مکہ والی حقیقت ابھی چند سالوں پہلے کھلی ہے کیونکہ اسوقت ابھی سٹلائٹ ایمجری اور دوسری سہولیات میسر نہی تھیں۔۔۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں اتنی بھی کم سہولیات نہیں تھیں۔ مکروبہ کے بارے میں انکا کہنا تھا یہ کوئی بستی تھی جو اب ختم ہوچکی ہے۔ اس لئے مکروبہ مکہ نہیں ہے۔ مکہ کے تاریخی وجود کے متعلق چند اور مورخین کا حوالہ دیکھیے
Reverend Charles Augustus Goodric: Whatever discredit we may give to these, and other ravings of the Moslem imposter concerning the Caaba its high antiquity cannot be disputed; and the most probable account is, that it was built and used for religious purposes by some of the early patriarchs; and after the introduction of idols, it came to be appropriated to the reception of the pagan divinities. Diodorus Siculus, in his description of the cost of the Red Sea, mentions this temple as being, in his time, held in great veneration by all Arabians; and Pocoke informs us, that the linen or silken veil, with which it is covered, was first offered by a pious King of the Hamyarites, seven hundred years before the time of Mahomet۔
(Religious Ceremonies and Customs, Or: The Forms of Worship Practised by the several nations of the known world, from the earliest records to the present time, Charles Augustus Goodrich [Hartford: Published by Hutchinson and Dwine 1834] page 124)
John Reynell Morell:…historically speaking, Mecca was a holy city long before Mohammed. Diodorus siculus, following agatharcides, relates that not far from the red sea, between the country of the Sabeans and of the Thamudites there existed a celebrated temple, venerated throughout Arabia.
(Turkey, Past and Present: Its History, Topography, and Resources By John Reynell Morell page 84)
Colin Macfarquhar: The reign of the heavenly orbs could not be extended beyond the visible sphere; and some metaphorical powers were necessary to sustain the transmigration of the souls and the resurrection of bodies: a camel was left to perish on the grave, that he might serve his master in another life; and the invocation of departed spirits implies that they were still endowed with consciousness and power. Each tribe, each family, each independent warrior, created and changed the rites and the object of this fantastic worship; but the nation in every age has bowed to the religion as well as to the language, of Mecca. The genuine antiquity of the Caaba extends beyond the Christian era: in describing the coast of the Red Sea, the Greek historian Diodorus has remarked, between the Thamaudites and the Sabeans a famous temple, whose superior sanctity was revered by ALL THE ARABIANS: the linen or silken veil, which is annually renewed by the Turkish Emperor, was first offered by a pious King of the Homerites, who reigned 700 years before the time of Mahomet.“
(Encyclopaedia Britannica: Or, A Dictionary of Arts, sciences and Miscellaneous Literature Constructed on a Plan Volume 2, by Colin Macfarquhar page 183 – 184)
Andrew Crichton: “From the celebrity of the place, a vast concourse of pilgrims flocked to it from all quarters. Such was the commencement of the city and the superstitions fame of Mecca, the very name of which implies a place of great resort. Whatever credit may be due to these traditions, the antiquity of the Kaaba is unquestionable; for its origin ascends far beyond the beginning of the Christian era. A passage in Diodorus has anobvious reference to it, who speaks of a famous temple among the people he calls Bizomenians, revered as most sacred by all Arabians.”
(The history of Arabia, ancient and modern Volume 1 [second edition] By Andrew Crichton page 100)
یہ آٹھ سے نو مورخین اور جغرافسٹ ایک بات کر رہے ہیں جو ملحد صاحب کو اپنے الحاد اور مفروضوں کے خلاف سازش محسوس ہورہی ہے۔
جہاں تک پٹالومی میں ذکر نا آنے کی بات ہے پہلے تو یہ واضح ہو کہ پٹالومی کے کوآرڈینٹس کو آج کے کئی جغرافسٹ جھٹلا چکے ہیں۔ اسکے کوآڈینیٹس صحیح نہیں تھے۔ اسکے علاوہ اس نے جو نقشہ بنایا وہ نقشہ بھی خود دیکھ کہ نہیں بلکہ قافلوں سے معلومات اور مطالعے کے بعد ترتیب دیا تھا۔ اس بنیاد پہ پٹالومی کے نقشے پہ انکو انکے صحیح مقام پہ ڈھونڈنا بے فائدہ ہے۔ اس سلسلے میں ملحد صاحب ہی کا ایک کمنٹ ملاحظہ ہو۔
/////پٹالمی کے نقشے کو صیحح کرکے پڑھنے میں سینکڑوں سال لگ گیے ، انیس سو پچاس سے کئی عیسائی آرکیا کوجسٹس نے بائیبل میں موجود مقامات کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ، اور ان کے پاس سواۓ اس ایک نقشے اور مختلف قدیم تاریخ دانوں کے بیان کردہ لوکشنوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا ، ان سب کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ، لیکن جب سے اس نقشے کو اچھی طرح ٹرانسلیٹ کیا گیا اوراور اس کی زمینی پیمائش کو کومپیوٹر کے توسط سے صحیح کیا گیا ہے ، تب سے ہمیں اس نقشے میں موجود شہروں کی جغرافیائی لوکیشنوں ڈھونڈنے میں آسانی ہو رہی ہے ، پٹولمی نے عرب کے علاقوں کو تین حصوں میں تسیم کیا تھا ، پٹالمی نے یہ سب نقشے خود ہر جگہہ دیکھنے کے بعد نہیں بنائے بلکہ اس نے مختلف سوداگروں سیاحوں وغیرہ کی انفرمیشن سے ان کو بنایا تھا ، اور ان نقشوں کو بناتے وقت کئی غلطیاں کیں اور کونفیگریشن درست نہ ہونے کی وجہ سے وہاں پر بہتے دریاؤں کی لوکیشزکو بہت زیادہ شمال کی طرف دھکیل دیا گیا ، اس کا تقریبن ہر نقشہ پہلے ولے سے تھوڑا مختلف ہے ،جیسا کہ اوپر نقشے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مقروبا کے اوپر ایک دریا نظر آ رہا ہے لیکن یہ دریا کبھی یہاں تھا ہی نہیں یہ دریا نیچے یمن وا لے ایریے میں بہتا ہے ا، لیکن ان غلطیوں کو سدھار نے کے لئے ماڈرن آرکیالوجسٹس نے طریقے نکال لئے ہیں////
اس تنقیدی سلسلے میں ملحد صاحب نے دو دلائل دیے۔
اول: پٹالومی کے نقشے کو دوبارہ جغرافسٹ نے محنت سے صحیح ترتیب دیا ہے۔
اسکا مطلب ہے کہ صیح ترتیب شدہ نقشے پہ مکہ اب موجود نہی ہے۔ عمدہ بہت عمدہ، اسی طرح کے بہت سے ترتیب شدہ نقشے موجود ہیں جن پہ نبیﷺ سے بہت پہلے مکہ کی موجودگی کا ذکر موجود ہے۔ وہ بھی ترتیب شدہ ہے۔
دوم: مکہ پہاڑیوں کے بیچ موجود ہے وہ پہاڑیوں سے باہر رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ ملحد صاحب اپنی بات میں خود مان چکے ہیں کہ پٹالمی نے مکروبہ کے اوپر ایک دریا دکھایا تھا لیکن یہ دریا کبھی بھی یہاں نہیں تھا بلکہ یہ دریا بہت نیچے یمن کے علاقہ میں بہتا ہے، اس ہزاروں کلومیٹر کے فرق کو ملحد صاحب بیک جنبش کی بورڈ نظر انداز فرما دیتے ہیں لیکن جہاں بات مکہ کی آتی ہے تو ملحد صاحب اس بات پہ اٹکے ہوئے ہیں کہ مکروبہ پہاڑوں سے باہر دکھایا گیا ہے جبکہ موجودہ مکہ پہاڑوں کے اندر وادی ہے اور یہ کوسٹل بیلٹ سے اسی پہاڑی سلسلہ سے الگ ہوتی ہے۔۔
یہاں صاحب کا مکر اور ضد ملاحظہ ہو کہ یمن کا دریا مکروبہ سے اوپر دکھانے کی غلطی کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن مکروبہ کو پہاڑوں کے اندر دکھانے کی بجائے باہر دکھایا گیا ہے اس لئے مکروبہ مکہ ہے ہی نہیں……
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کر
پٹالومی کو آرڈینیٹس میں غلطی کا شکار تھا کیونکہ اس نے بہت سے قافلے والوں کی مدد سے اس نقشے کو ترتیب دیا تھا۔ اس سے مکروبہ کی جگہ آگے پیچھے تو ہوسکتی ہے لیکن اسکے وجود کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ مکروبہ ضرور موجود تھا ‘ پلاٹومی سے اسے نقشے پہ رکھنے میں غلطی سرزد ہوگئی۔ اس لئے نقشے میں اسکا ذکر تو آیا لیکن اسکی جگہ صحیح متعین نہ ہوسکی۔
پٹالمی کے کوآرڈینیٹس کی غلطی اس کے علاوہ بھی دیکھی جاسکتی ہے ، مثلا مشرق کی سمت پورا خطہ عرب ہزاروں کلومیٹر اوپر نیچے کیا ہوا ہے.. آج کے جدید نقشہ جات سے خلیج فارس و عمان کو دیکھا جائے تو عمان اور متحدہ عرب امارات کا حصہ کچھ سمندر میں آگے کو بڑھا ہوا نظر آتا ہے اس سے آگے خلیج پھر تھوڑی سی چوڑی ہوتی نظر آتی ہے… لیکن پٹالمی نے اپنے نقشہ میں موجودہ متحدہ عرب امارات کے علاقہ میں خلیج کو ایک نہائت تنگ آبی گزرگاہ دکھایا یے جو آگے جا کر دوبارہ تقریبا دائرے کی صورت کھل جاتی ہے…. یہ بہت بڑا بلنڈر ہے اس نقشہ کا اور یہ نقشہ ثابت کرتا ہے کہ یہ سب سنی سنائی باتوں پر ہی مشتمل تھا اسی لیے اس میں ایسی جغرافیائی غلطیاں تھیں۔
لفظ مکروبہ کی بحث:
اس سلسلے میں مکروبہ کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مکروبہ کے مطلب اصل میں بنتا ہے “خدا کا گھر” اس بنا پہ اس لفظ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں یہ بحث ملاحظہ ہو
” claiming that Macoraba is derived from Makka-Rabba which means great Makkah is untrue. The correct translation is “Lord’s Makkah” or “Allah’s Makkah”; because the root “mkk” consists of consonant letters meaning “house” in Babylonian and “Rabba” meaning “the Lord” or “Allah” in Southern Arabia, that is, “Allah’s House”. This linguistic structure is a possessive form and not a derivative one”
جناب نے ایک اور یہ دعوی کیا کہ اس دور (نبیﷺ سے پہلے) کے اور بھی بہت سے جغرافیہ دان تھے جنہوں نے مکہ کا ذکر نہی کیا۔۔
اس پر ہم گزشتہ تحاریر میں بھی تبصرہ پیش کرچکے ، مزید عرض ہے کہ مکہ ایک دشوار گذار راستے پہ پہاڑیوں کے درمیان گھری ہوئی جگہ ہے۔ مکہ تک پہنچ جانا ہر کسی کے بس کے بات نہی اور ابراہیم ء السلام سے پہلے تک تو یہ بیابان تھی۔ اس وجہ سے بہت کم لوگ اس تک پہنچ سکے۔ یہاں تک کہ ابراہیم ء سے پہلے کوئی مشہور عبادت (زمانے کے حساب سے مشہور) گاہ بھی نہی تھی۔تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے ذکر ہے کہ ابراہیمؑ اللہ کے حکم سے اپنی بیوی ہاجرہ اوربچے اسماعیل کو اس بیابان میں چھوڑ گئے تھے ، یہاں سے زم زم کا چشمہ نکلا اور چند قبائل یہاں سے گزرتے ہوئے آب زم زم کا پانی دیکھ کے ٹھہر گئے اور اس کے گرد بس گئے۔بعد میں حضرت ابراھیم ؑ اورحضرت اسماعیل ؑ نے اللہ کی طرف سے غیبی امداد و نشاندہی سے کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا، یہ اس جگہ آبادی کا ابتدائی دور تھا ۔ یہاں ملحد صاحب نے دوبارہ تجارتی مشہور مقام ہونے اور اسکے تجارتی گذر گاہ ہونے کوبطور دلیل پیش کیا حالانکہ یہ بہت بعد کی باتیں ہیں ، ایک جگہ جو ابراہیم کے آنے کے ایک عرصے کے بعد آباد ہوئی، پھر انکی تجارت شروع ہوئی ، پھر بعد میں کہیں جا کے اسکا تعلق مہذب دنیا سے جڑا اور تجارتی گزر گاہ اور مقدس مرکز بنا ، اس لیے ملحد صاحب کا یہ فرمانا رہے کہ یہ تجارتی شہر ابراھیم ؑ کے دور کے تاریخ دانوں کو کیوں نظر نہیں آیا، کم عقلی کی بات ہے۔۔ دور ابراھیم کے بعد یہ عبادت گاہ ضرور تھی اور حج بھی ہوتا تھا لیکن اسکا حج اور طواف وہیں کے لوگ کرتے تھے یا جو قبائل اسکے گرد آباد تھے اور بعد میں انہی قبائل کی یہ آماجگاہ بن گیا۔
اس سارے سلسلے میں ملحد صاحب نے اپنے طور پر آرکیالوجی کو حتمی حجیت کے طور پہ پیش کیا ہے اور سارے مقدمے کا بوجھ اسکے کندھوں پہ لاد دیا۔ ہم انکی نظر آرکیالوجی کی بہن پیلونٹولوجی کی مثال پیش کرتے ہیں جس کا طریق تحقیق ملتا جلتا ہے۔ ذرا ملاحظہ کریں کہ وہ کیسے خود اپنی حجیت کا منہ چڑا رہی ہیں۔
“1922 میں امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ڈائریکٹر، ہنری فیئر فیلڈ اوسبورن نے اعلان کیا کہ اس نے مغربی نبراسکا میں اسنیک بروک کے قریب سے ڈاڑھ (molar tooth) کا رکاز دریافت کیا ہے جو پلیوسینی عصر (Pliocene Period) سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دانت مبینہ طور پر بیک وقت انسان اور گوریلوں کی مشترکہ خصوصیات کا حامل دکھائی دیتا تھا۔ اس کے بارے میں سائنسی دلائل کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ بعض حلقوں نے کہا کہ یہ دانت ’’پتھے کن تھروپس ایریکٹس‘ ‘(Pithecanthropus Erectus) سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ یہ دانت، جدید انسانی نسل کے زیادہ قریب ہے۔ مختصراً یہ کہ اس ایک دانت کے رکاز کی بنیاد پر زبردست بحث شروع ہوگئی اور اسی سے ’’نبراسکا آدمی‘‘ کے تصور نے بھی مقبولیت حاصل کی۔ اسے فوراً ہی ایک عدد ’’سائنسی نام‘‘ بھی دے دیا گیا: ’’ہیسپیروپتھے کس ہیرلڈ کوکی‘‘!متعدد ماہرین نے اوسبورن کی بھرپور حمایت کی۔ صرف ایک دانت کے سہارے ’’نبراسکا آدمی‘‘ کا سر اور جسم بنایا گیا۔ یہاں تک کہ نبراسکا آدمی کی پورے گھرانے سمیت تصویر کشی کردی گئی۔
1927ء میں اس کے دوسرے حصے بھی دریافت ہوگئے۔ ان نودر یافتہ حصوں کے مطابق یہ دانت نہ تو انسان کا تھا اور نہ کسی گوریلے کا۔ بلکہ یہ انکشاف ہوا کہ اس دانت کا تعلق معدوم جنگلی سؤروں کی ایک نسل سے تھا جو امریکہ میں پائی جاتی تھی، اور اس کا نام ’’پروستھی نوپس‘‘ (Prosthennops) تھا۔”
ان علوم سے استفادہ کرنا ایک اچھی بات ہے لیکن اسے حتمی حجت کے طور پہ پیش کرنا ایک علمی بد دیانتی ہے جسکا منہ بولتا ثبوت آپکے سامنے موجود ہے۔
تحریر و تحقیق: میاں عمران، محمد حسنین اشرف
اللہ کی اطاعت کس لیے؟
اسلام اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کا نام ہے اور آدمی مسلمان بن ہی نہیں سکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کی, رسم و رواج کی, دنیا کے لوگوں کی, غرض ہر ایک کی اطاعت چھوڑ کر اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت نہ کرے.
اللہ اور اسکی رسول ﷺ کی اطاعت پر اس قدر زور کیوں دیا جاتا ہے؟
ایک شخص پوچھ سکتا ہے کہ کیا خدا ہماری اطاعت کا محتاج ہے ؟ نعوذ باللہ کہ وہ ہم سے اس طرح اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے ؟ کیا نعوذ باللہ خدا بھی دنیا کے حاکموں کی طرح اپنی حکومت چلانے کی خواہش رکھتا ہے کہ جیسے دنیا کے حاکم کہتے ہیں کہ ہماری اطاعت کرو اور اسی طرح خدا بھی کہتا کہ میری اطاعت کرو؟
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو انسان سے اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے وہ انسان ہی کی فلاح اور بہتری کے لیے کرتا ہے. وہ دنیا کے حاکموں کی طرح نہیں ہے. دنیا کے حاکم اپنے فائدے کے لیے لوگوں کو اپنی مرضی کا غلام بنانا چاہتے ہیں مگر اللہ تمام فائدوں سے بے نیاز ہے. اس کو ہم سے ٹیکس لینے کی حاجت نہیں. اسے کوٹھیاں بنانے اور موٹریں خریدنے اور ہماری کمائی سے اپنے عیش کے سامان جمع کرنے کی حاجت نہیں. وہ پاک ہے. کسی کا محتاج نہیں. دنیا میں سب کچھ اسی کا ہے. اور سارے خزانوں کا وہی مالک ہے. وہ ہم سے صرف اسلیے اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے کی اس میں ہماری بھلائی ہے. وہ نہیں چاہتا کی جس مخلوق کو اس نے اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ شیطان کی غلام بن کر رہے یا پھر کسی انسان کی غلام ہو یا ذلیل ہستیوں کو سامنے سر جھکائے. وہ نہیں چاہتا کہ جس مخلوق کو اس نے زمین پر اپنی خلافت دی ہے وہ جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتی رہے. اور جانوروں کی طرح اپنی خواہشات کی بندگی کر کے اَسفَلُ السّافِلِینَ میں جاگرے. اسلیے وہ فرماتا ہے کہ تم میری اطاعت کرو, اور ہم نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے جو روشنی بھیجی ہے اسکو لے کر چلو پھر تم کو سیدھا راستہ مل جائے گا. اور تم اس راستہ پر چل کر دنیا میں بھی عزت اور آخرت میں عزت حاصل کر سکو گے.
لَآ اِكْـرَاهَ فِى الدِّيْنِ ۖ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَّكْـفُرْ بِالطَّاغُ
وْتِ وَيُؤْمِنْ بِاللّـٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى لَا انْفِصَامَ لَـهَا ۗ وَاللّـٰهُ سَـمِيْعٌ عَلِـيْم(256)
اَللَّـهُ وَلِىُّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا يُخْرِجُـهُـمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ ۖ وَالَّـذِيْنَ كَفَرُوٓا اَوْلِيَآؤُهُـمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَـهُـمْ مِّنَ النُّـوْرِ اِلَى الظُّلُـمَاتِ ۗ اُولٰٓئِكَ اَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُـمْ فِيْـهَا خَالِـدُوْنَ (257)
دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے، بے شک ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے، پھر جو شخص شیطان کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیا جو ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے.
اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے، اور جو لوگ کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں، یہی لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ پاک ہی کی وہ ذات ہے جہاں سے روشنی مل سکتی ہے. اللہ علیم و بصیر ہے. وہ ہر چیز کی حقیقت کو جانتا ہے. وہی ٹھیک ٹھیک بتا سکتا ہے کہ حقیقی نفع کس چیز میں ہے اور حقیقی نقصان کس میں. وہ بے نیاز بھی ہے. اسکی اپنی کوئی غرض ہے ہی نہیں. اسے اسکی ضرورت ہی نہیں ہے کہ معاذ اللہ ہمیں دھوکا دے کر کچھ نفع حاصل کرے. اسلیے وہ پاک بے نیاز جو کچھ بھی ہدایت دے گا. بے غرض دے گا اور صرف ہمارے فائدے کے لیے دے گا. پھر اللہ تعالیٰ عادل بھی ہے. ظلم کا اس ذات پاک میں شائبہ تک بھی نہیں ہے. اسلیے وہ سراسر حق کی بنا پر حکم دے گا. اسکے حکم پر چلنے میں اس بات کا کوئی خطرہ نہیں ہے. کہ ہم خود اپنے اوپر یا دوسرے لوگوں پر کسی قسم کا ظلم کر جائیں.
معلوماتِ قرآن کریم
قرآن کریم کی پہلی منزل میں چار سورتیں، پچاسی رکوع اور چھے سو انہتر آیات ہیں۔
قرآن کریم کی دوسری منزل میں پانچ سورتیں، چھیاسی رکوع اور چھے سو پچانوے آیات ہیں۔
قرآن کریم کی تیسری منزل میں سات سورتیں، اڑسٹھ رکوع اور چھے سو پینسٹھ آیات ہیں۔
قرآن کریم کی چوتھی منزل میں نو سورتیں، چھہتر رکوع اور نو سو تین آیات ہیں۔
قرآن کریم کی پانچویں منزل میں گیارہ سورتیں، بہتر رکوع اور آٹھ سو چھپن آیات ہیں۔
قرآن کریم کی چھٹی منزل میں چودہ سورتیں، انہتر رکوع اور اور آٹھ سو ستاسی آیات ہیں۔
قرآن کریم کی ساتویں منزل میں چونسٹھ سورتیں، ایک سو دو رکوع اور ایک ہزار پانچ سو اکسٹھ آیات ہیں۔
قرآن کریم کا سب سے بڑا پارہ تیسواں پارہ ہے جس میں سینتیس سورتیں ، انتالیس رکوع اور پانچ سو چونسٹھ آیات ہیں۔
قرآن کریم کا سب سے چھوٹا پارہ چھٹا پارہ ہے جس میں ایک سو گیارہ آیات ہیں۔
قرآن کریم کی سب سے چھوٹی آیات(بامعنی) سورة المدثر کی آیت نمبر اکیس ہے۔
ثم نظر ( پھر تامل کیا)
سورة المدثر۔۔آیت نمبر اکیس
قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت سورة البقرہ کی آیت نمبر دو سو بیاسی ہے۔
قرآن کریم کا سب سے بڑا رکوع سورة صفٰت کا دوسرا رکوع ہے جس میں تریپن آیات ہیں۔
قرآن کریم کا سب سے چھوٹا رکوع سورة المزمل کا دوسرا رکوع ہے جس میں ایک ہی آیت ہے۔
قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت سورة الکوثر ہے جس کی تین آیات ہیں ، گیارہ الفاظ ہیں اور سینتیس اعراب ہیں۔
قرآن کریم کی سب سے بڑی سورة البقرہ ہے جس کی دو سو چھیاسی آیات ہیں،چالیس رکوع ہیں اور چھے ہزار نو سو اٹھاون الفاظ ہیں۔
سورة اخلاص تہائی قرآن ہے جبکہ سورة کافرون اور سورة زلزال چوتھائی قرآن ہے،
(ترمذی)
قرآن کریم میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گیارہ بار "يا أيها النبي " پکارا گیا ہے۔
عرب ممالک میں ہر پارے کے دو حصے ہوتے ہیں ہر حصہ حزب کہلاتا ہے۔
لفظ قرآن، قرآن مجید میں بطور معرفہ پچاس بار اور بطور نکرہ اسی بار آیا ہے ۔یعنی پچاس بار قرآن کا مطلب کلام مجید ہے اور اسی بار ویسے کسی پڑھے جانے والی چیز کے معنی
میں استعمال ہوا ہے۔
قرآن کریم کی وہ سورتیں جو سو سے کم آیات والی ہیں مثانی کہلاتی ہیں۔
قرآں کی وہ سورتیں جو سو سے زیادہ آیات والی ہیں مَیں کہلاتی ہیں۔
قرآن کریم کے دوسرے اور پانچویں پارے میں نہ کسی سورت کی ابتداء ہے اور نہ ہی انتہا۔
قرآن کریم کے دو جملے جن کو الٹی سمت میں بھی پڑھا جائے تو مطلب اور تلفظ وہی رہتا ہے
کل فی فلک۔۔۔۔۔۔سورة الانبیا، آیت تینتیس
ربک فکبر۔۔۔۔۔۔۔سورة المدثر، آیت تین
قرآن پاک کی سورة المجادلہ کی ہر سورت میں لفظ خاص" اللہ " آیا ہے۔
قرآن کریم کے آٹھ پارے ایک نئی سورت سے شروع ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں صحابہ کرام میں سے صرف ایک صحابی کا نام آیا ہے۔۔۔حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔
ہدہد کا نام قرآن کریم میں صرف ایک بار آیا ہے۔۔۔سورة النمل آیت بیس۔
قرآن کریم میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ پاک کے عرش کو آٹھ فرشتوں نے تھام رکھا ہو گا۔۔۔۔سورة الحاقہ، آیت سترہ۔
قرآن کریم میں سب سے زیادہ دہرائی جانے والی آیت" پس تم اپنے پردوردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاو گے؟
سورة الرحمن میں اکتیس بار
قرآن کریم میں تین مساجد کا نام آیا ہے
مسجد اقصٰی، مسجد الحرام اور مسجد ضرار
قرآن کریم کے مطابق سیدنا موسٰی علیہ السلام کو نو معجزے عطاء فرمائے گئے۔۔۔۔
حوالہ
سورة النمل آیت نمبر بارہ۔۔۔۔۔سورة بنی اسرائیل آیت نمبر ایک سو ایک
پانچ نبی جن کے نام اللہ رب العزت نے ان کی پیدائش سے قبل بتا دیے تھے
سیدنا احمد صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔سورة الصف آیت نمبر چھے
سیدنا یحیٰی علیہ السلام۔۔۔سورة المریم آیت نمبر سات
سیدنا عیسٰی علیہ السلام ۔۔۔سورة آل عمران آیت نمبر پینتالیس
سیدنا اسحاق علیہ السلام
سیدنا یعقوب علیہ السلام
سورة ھود آیت نمبر اکہتر
قرآن کریم میں اللہ پاک نے اپنی صفت ربوبیت کا ذکر سب سے زیادہ مرتبہ فرمایا ہے قرآن کریم میں لفظ رب ایک ہزار چار سو اٹھانوے مرتبہ آیا ہے۔
قرآن کریم کی سورة الفاتحہ کو سورة واجبہ بھی کہتے ہیں کیوں کہ نماز میں اس کی قرآت واجب ہے۔
قرآن کریم میں دو دریاوں کا ذکر آیا ہے کہ یہ ایک ساتھ ہونے کے باوجود ان کا پانی آپس میں نہیں ملتا ایک کا پانی کھارا ہے ایک کا پانی میٹھا ہے ان دریاوں کا ذکر سورة الرحمٰن آیت نمبر انیس بیس میں ہے یہ دونوں دریا جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاون میں واقع ہیں۔
سورة صمد،سورة نجات،سورة اساس، سورة معوذہ،سورة تفرید،سورة تجرید،سورة جمال اور سورة ایمان۔۔یہ سب سورة اخلاص کے نام ہیں۔
سورة الحجر آیت نمبر بہتر میں اللہ پاک نے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان (عمر) کی قسم کھائی ہے
تیری جان(عمر) کی قسم وہ تو اپنی مستیوں میں مدہوش تھے۔
قرآن کریم کی پانچ سورتوں کا آغاز الحمد سے ہوتا ہے۔
سورة الفاتحہ،سورة الانعام، سورة سبا،سورة الکہف اور سورة فاطر۔
قرآن کریم کی پانچ سورتوں کا آغاز قل سے ہوتا ہے
سورة االاخلاص،سورة الکافرون ،سورة الفلق،سورة الناس اور سورة الجن
لاالہ الا محمد الرسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)
پورا کلمہ طیبہ قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی نہیں آیا ہے۔
"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم " سب سے پہلے سیدنا خالد بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھی تھی۔
قرآن کریم میں چار سبزیوں کا ذکر ہے۔
ساگ،ککڑی ،لہسن اور پیاز
قرآن کریم کی آخری وحی کے کاتب سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
قرآن کریم میں تین شہروں کا نام آیا ہے
یثرب،بابل اور مکہ
قرآن کریم میں چار پہاڑوں کا نام آیا ہے
کوہ جودی،کوہِ صفا،کوہِ مروہ اور کوہِ طور
قرآن کریم میں چار دھاتوں کا ذکر آیا ہے
لوہا،سونا،چاندی اور تانبا
قرآن کریم میں تین درختوں کا نام آیا ہے
کھجور،بیری اور زیتون
قرآن کریم میں پانچ پرندوں کا ذکر آیا ہے
ہدہد،ابابیل،کوا،تیتر اور بٹیر
قرآن کریم نے ابولہب کے علاوہ کسی کو کنیت سے نہیں پکارا
عرب کسی کو عزت اور شرف سے نوازنے کے لیے کنیت سے پکارتے ہیں لیکن یہاں معاملہ اور ہے ابولہب کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا جو ایک کہ شرکیہ نام ہے عزیٰ اس بت کا نام تھا جسے قریش کے کفار پوجتےتھے اور عبدالعزیٰ کا معنی عزیٰ کا غلام۔۔لہذا اللہ پاک نے شرکیہ نام سے پکارنے بجائے ابولہب کو کنیت سے پکارا۔
قرآن کریم میں سب سے طویل نام والی سورت سورة بنی اسرائیل ہے۔
قرآن کریم میں سب سے زیادہ اسماء الحسنےٰ کا ذکر سورة الحشر کی آیت نمبر تئیس میں ہے۔
قرآن کریم میں پیغمبروں کے نام سے چھے سورتیں ہیں
سورة یونس،سورة یوسف،سورة ہود، سورة ابراہیم،سورة محمد اور سورة نوح
قرآن کریم کی تین سورتیں ہیں جن کا نام ان سورتوں کے پہلے لفظ سے لیا گیا ہے
سورة طحہٰ، سورة یٰسین اور سورة ق
قرآن کریم کی بارہ سورتیں ہیں جن کے نام میں کوئی نقطہ نہیں آتا
مائدہ،ہود،رعد،طٰہ،روم،ص،م حمد،طور،،ملک،دہر،اعلی، اور عصر
قرآن کریم لفظ الرحمٰن ستاون اور الرحیم ایک سو چودہ مرتبہ آیا ہے۔
قرآن میں لفظ ابلیس گیارہ مرتبہ آیا ہے،۔
قرآن کریم میں انسانوں میں سب سے زیادہ ذکر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا آیا ہے۔۔چھتیس بار
(کم و بیش)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن کریم کے سب سے پہلے حافظ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
سورة بنی اسرائیل کا دوسرا نام سورة اسراء بھی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ترجمانِ قرآن بھی کہا جاتا ہے۔
قرآن کریم میں لفظ احمد ایک بار آیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چار مرتبہ
قرآن کریم میں لفظ اللہ دو ہزار چھے سو اٹھانوے دفعہ آیا ہے۔
قرآن کریم کا سب سے پہلے اردو ترجمہ سترہ سو چھہتر میں شاہ رفع الدین نے کیا تھا۔
قرآن کریم کی ایک سورت کا آغاز دو پھلوں کے نام سے ہوا ہے
سورة التین
والتین وزیتون
انجیر اور زیتون
قرآن کریم کی جس سورت کا اختتام دو نبیوں کے نام پر ہوتا ہے وہ سورة الاعلی ہے
ابراہیم و موسی
قرآن کریم کی حوامیم(یعنی جن سورتوں کا آغاز حم سے ہوتا ہے) وہ سات ہیں۔
سورة غافر،، سورة فصلت، سورة زخرف،سورة الدخان ،سورة الجاثیہ ،سورة الاحقاف اور سورة الشوریٰ
قرآن کریم کی پانچ سورتیں ہیں جن کا آغاز الر سے ہوتا ہے
سورة یونس ، سورة ہود، سورة یوسف، سورة الحجر اور سورة ابراہیم
قرآن کریم کی تین سورتیں سبح سے شروع ہوتی ہیں
سورة الحدید،سورة الحشر، سورة اور سورة الصف
قرآن کریم میں دو سورتیں ہیں جن کا آغاز یسبح سے ہوتا ہے
سورة الجمعہ اور سورة التغابن
دو سورتیں ہیں جن کی ابتدا تبارک سے ہوتی ہے
سورة الفرقان اورسورة الملک
چھے سورتیں ہیں جو الم سے شروع ہوتی ہیں
سورة البقرة ،سورة آل عمران، سورة العنکبوت،سورة الروم،سورة لقمان اور سورة السجدہ
قرآن کریم میں دو سورتیں ہیں جن کا آغاز طسم سے ہوتا ہے۔
سورة الشعراء اورسورة القصص
چار سورتیں ہیں جن کی ابتداء انا سے ہوتی ہے
سورة الفتح،سورة نوح،سورة القدر اور سورة الکوثر
دو سورتیں ہیں جو ویل سے شروع ہوتی ہے
سورة المطفیفین، سورة الھمزہ
تین سورتیں ہیں جن کی ابتداء یاایھالنبی سے ہوتی ہے
سورة الاحزاب ،سور ة الطلاق اور سورة التحریم
سورة الاخلاص کی تمام آیات د پر ختم ہوتی ہیں۔
سورة التوبہ کی آیت نمبر چھتیس میں ہے کہ مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔
سورة المجادلہ کا دوسرا نام سورة ظہار ہے۔
قرآن کریم کہ پے در پے تین سورتیں ہیں جن میں لفظ اللہ نہیں آیا
سورة الرحمن،سورة الواقعہ اور سورة القمر
سورہ محمد کا دوسرا نام سورة القتال ہے۔
قرآن کریم کی سات سورتیں حیوانوں کے نام پر آئی ہیں۔
سورة البقرة۔۔ گائے
سورة الانعام۔۔۔مویشی
سورة النحل۔۔۔شہد کی مکھی
سورة النمل ۔۔۔چیونٹیاں
سورة العنکبوت۔۔۔۔مکڑی
سورة العادیات۔۔۔۔۔گھوڑے
سورة الفیل۔۔۔۔۔ہاتھی
اور
قرآن کریم میں
آدم علیہ السلام کا ذکر پچیس بار
ادریس علیہ السلام کا ذکر دو بار
نوح علیہ السلام کا ذکر تینتالیس بار
ہود علیہ السلام کا ذکر سات بار
صالح علیہ السلام کا ذکر نو بار
ابراہیم علیہ السلام کا ذکر انہتر بار
لوط علیہ السلام کا ذکر ستائیس بار
اسماعیل علیہ السلام کا ذکر بارہ بار
اسحاق علیہ السلام کا سترہ مرتبہ
یعقوب علیہ السلام کا سولہ مرتبہ
یوسف علیہ السلام کا ستائیس مرتبہ
ایوب علیہ السلام کا چار بار
شعیب علیہ السلام کا گیارہ بار
ہارون علیہ السلام کا بیس مرتبہ
ذوالفکل علیہ السلام کا دو مرتبہ
داود علیہ السلام کا سولہ مرتبہ
سلیمان علیہ السلام کا سترہ بار
ہارون علیہ السلام کا بیس بار
الیسع علیہ السلام کا کا د وبار
یونس علیہ السلام کا چار بار
زکریا علیہ السلام کا سات مرتبہ
یحییٰ علیہ السلام کا پانچ مرتبہ
اور
عیسی علیہ السلام کا پچیس مرتبہ
ذکر آیا ہے
اللہ پاک کمی پیشی معاف فرمائے
آمین
غامدی صاحب نے نبی و رسول کے درمیان منصب اور درجے کے لحاظ سے امتیاز کرتے ہوئے یہ گوہرافشانی کی ہے کہ اللہ عزوجل کے نبیوں کو ان کی قوم بعض اوقات قتل کر دیتی تھی لیکن کبھی کسی قوم کے ہاتھوں کوئی رسول قتل نہیں ہوا۔ اس امر کو وہ ایک اصول ایک عقیدہ اور قانون الٰہی مانتے ہیں کہ نبی کے لیئے وفات پانے یا قتل ہونے کی دونوں صورتیں ممکن ہیں مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ :۔
رسولوں کے بارے میں اس اہتمامکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ زمین پر خدا کی کامل حجت بن کر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نبیوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی قوم بارہا ان کی تکذیب ہی نہیں کرتی بلکہ ان کے قتل کے درپے بھی ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔لیکن قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کے متعلق اللہ کا قانون اس سے مختلف ہے۔
(میزان حصہ اول ص21 مطبوعہ 1985)
مزید کہتے ہیں کہ
نبی اپنی قوم کے مقابلے میں ناکام ہو سکتا ہے لیکن رسولوں کے لیئے غلبہ لازمی ہے
(میزان جلد اول ص 23 مطبوعہ 1985)
غامدی صاحب کا یہ مؤقف جسے وہ قانون الٰہی بھی قرار دینے سے نہیں چوکتے ، قرآن کے بلکل متضاد ہے ۔ قرآن کے مطابق نہ صرف نبی بلکہ رسول بھی قتل کیئے جاتے رہے ۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد الٰہی ہے کہ :۔
اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَـرْتُـمْ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُـمْ وَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ (87)
البقرہ
جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ حکم لایا جسے تمہارے دل نہیں چاہتے تھے تو تم اکڑ بیٹھے، پھر ایک جماعت کو تم نے جھٹلایا اور ایک جماعت کو قتل کیا۔
اس آیت سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے ہاتھوں کئی رسول قتل ہوئے۔
مزید ایک جگہ ارشاد ہے :۔
لَقَدْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ وَاَرْسَلْنَـآ اِلَيْـهِـمْ رُسُلًا ۖ كُلَّمَا جَآءَهُـمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَـهْوٰٓى اَنْفُسُهُـمْ فَرِيْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِيْقًا يَّقْتُلُوْنَ (مائدہ:70)
ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا تھا اور ان کی طرف کئی رسول بھیجے تھے، جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس وہ حکم لایا جو ان کے نفس نہیں چاہتے تھے تو (رسولوں کی) ایک جماعت کو جھٹلایا اور ایک جماعت کو قتل کر ڈالا۔
اس آیت سے بھی صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے اللہ عزوجل کے بھیجے ہوئے کئی رسولوں کو قتل کیا۔
مزید سورہ آل عمران میں بنی اسرائیل کے لیئے ارشاد ہوا :۔
اَلَّـذِيْنَ قَالُوٓا اِنَّ اللّـٰهَ عَهِدَ اِلَيْنَآ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّـٰى يَاْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْكُلُـهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِىْ بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّـذِىْ قُلْتُـمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْهُـمْ اِنْ كُنْتُـمْ صَادِقِيْنَ (آل عمران:183)
وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم فرمایا تھا کہ ہم کسی پیغمبر پر ایمان نہ لائیں یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس قربانی لائے کہ اسے آگ کھا جائے، کہہ دو مجھ سے پہلے کتنے رسول نشانیاں لے کر تمہارے پاس آئے اور یہ نشانی بھی (لے کر آئے) جو تم کہتے ہو، پھر انہیں تم نے کیوں قتل کیا اگر تم سچے ہو۔
اس مقام پر واضح طور پر ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ عزوجل نے ان سے عہد کر رکھا ہے کہ وہ کسی ایسے رسول پر ایمان نہ لائیں جو ان کے سامنے قربانی کو آسمانی آگ سے جلا کر نہ دکھائے۔
اللہ عزوجل نے اس دعوے کا یہ جواب دیا ہے کہ اے نبی ﷺ ان سے کہہ دیں اگر یہی بات ہے تو جو رسول ان کے پاس مذکورہ معجزہ لاتے رہے انہیں تم نے کیوں قتل کیا۔
یہ قرآن مجید کی واضح ترین نصوص ہیں جن کے مطابق رسول بھی قتل ہوتے رہے۔ بالخصوص بنی اسرائیل نے کئی رسولوں کو جھٹلایا اور کئی رسولوں کو قتل کیا۔ مذکورہ دلائل و براہین کے بعد یہ دعویٰ کرنے کی کیا گنجائش بچتی ہے کہ قانون الٰہی ہی یہی رہا ہے کہ کوئی رسول قتل نہیں ہوا؟
آگاہ رہیں
دین اسلام واحد دین ہے جو بغیر کسی تغیر و تبدل کے ہم تک ہو بہو ویسا ہی پہنچا ہے جیسا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے دور میں تھا۔
یہ وہ واحد دین ہے جسے اللہ نے کامل و اکمل کیا اور وہ واحد دین ہے جس پر اللہ عزوجل راضی ہوا۔
" اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا"
(سورۃ المائدہ:3)
یہ وہ واحد دین ہے جو اللہ عزوجل کی بارگاہ اقدس میں مقبول ہے اور اس کے علاوہ سبھی ادیان و مذاہب مردود ہیں
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْـرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُۚ وَهُوَ فِى الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ (آل عمران:85)
اور جو کوئی اسلام کے سوا اور کوئی دین چاہے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
تو زرا سوچیئے
ایسا دین جس کی خود اللہ عزوجل تکمیل فرما رہا ہو، جس سے خود رب کائنات راضی ہو اور جس کے علاوہ کوئی بھی دین بارگاہ الٰہی میں مقبول نہ ہو، کیا اس میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ ہو سکتی ہے ؟
کیا ایسے دین کے بنیادی عقائد و معاملات اور عبادات و احکامات میں کسی بھی قسم کی تحریف اور تغیر و تبدل ممکن ہے َ؟
ایک ایسا دین جو ساڑھے چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے جس میں ذرہ بھر بھی تغیر و تبدل وقوع پذیر نہ ہوا نہ ہو گا اور نہ ہو سکے گا، اس کی حقانیت میں شبہہ ممکن ہے؟
ایک ایسا دین جس کے ہم تک پہنچانے والے اپنے اپنے عہد کے صادق ترین اور سب سے بڑھ کر متقی و پرہیزگار لوگ تھے جن کی زبانیں کذب جیسے فعل سے ساری زندگی پاک و صاف رہیں، وہ تحریف شدہ ہو سکتا ہے ؟
ایک ایسا دین جس کے ہم تک پہنچانے والوں کی اول تا آخرمکمل سوانح حیات محفوظ ہے ان کی ثقاہت و فقاہت، حفظ و عدالت اور صادق و امین ہونے کی ہزارہا گواہیاں موجود ہیں وہ جھوٹا ہو سکتا ہے ؟
اس قدر متقی و پرہیزگار سلف صالحین اور خلف پر جھوٹ باندھ کر کبھی ان کی خدمات کو تشکیک کی نظر سے دیکھنا اور کبھی انہیں معاذ اللہ مجوسی سازش قرار دینا ظلم نہین تو اور کیا ہے ؟
اور حد یہ کہ دین اسلام کے نماز جیسے بنیادی اور اہم ترین رکن کی حثیت کو مشکوک بنانے کی کوشش کرنا اور یہ باور کرانے کی مذموم کوشش کرنا کہ نماز جیسا اہم ترین رکن دین معاذ اللہ زرتشت مذہب سے لیا گیا، یہ ذہنی پسماندگی، دل کے اندھے پن اور بے جا تعصب کی کارستانی نہیں تو اور کیا ہے ؟
کیا اللہ عزوجل یہ گوارا کر سکتا ہے کہ اس کے کامل و اکمل اور محبوب دین جس سے وہ راضی ہوا اس میں مشرکوں اور کفار کی رسومات بطور دین رواج پا جائیں اور پوری کی پوری امت مسلمہ اجماعی طور پر ان کا اہتمام کرے اور ان پر دین کے نام سے عمل پیرا ہو ؟
ہرگز نہیں !
ایسا ہر گز ممکن نہیں
اس لیئے منکرین حدیث نام نہاد اہل قرآن کے بھیس میں چھپے نیم ملحدوں کے گھناؤنے کردار سے آگاہ رہیں اور دین کے متعلق ان کی پھیلائی گئی تشکیک سے ذہن کو آلودہ مت ہونے دیں
آگاہ رہیں کہ وہ دین جو اللہ کا محبوب دین ہے اس میں کبھی شرکیہ اور کفریہ اعمال بطور دین رواج نہین پا سکتے
آگاہ رہیں اور آگاہ کرتے رہیں !!!
معاشرے میں رہنے والے ہر انسان کی ذہنی استعداد دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ ہر ایک کا علمی مقام، ذہنی صلاحیتیں اور سوچنے کا انداز دوسرے سے مختلف ہے۔ اس وجہ سے معاشرے کے افراد کا بعض اوقات آپس میں اتفاق رائے ممکن نہیں ہوتا۔ ہر ایک شخص یا گروہ اپنی اپنی ذہنی استعداد کے مطابق مسائل کا استنباط کرتا ہے اور رہن سہن کا طریقہ وضع کرتا ہے۔ اور یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ دوسروں کی رائے سے اتنی آسانی کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا۔ وہ دنیا کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
اختلاف کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ بعض اختلاف محمود ہوتے ہیں اور بعض مبغوض۔ کسی معاملے میں دلیل کے ساتھ اختلاف محمود ہے لیکن حق واضح ہو جانے اور مخالف دلیل کے باوجود اختلاف مبغوض ہے۔
فہم دین کے متعلق اختلاف صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین بعض معاملات میں اپنے اپنے علم و فہم کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔ لیکن اس اختلاف کے باوجود کبھی بھی انہوں نے دوسروں کو مطعون نہیں کیا اور نہ ہی دوسروں پر اپنے فہم کے مطابق عمل کرنے پر زور دیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے اختلاف کی ایک مثال دیتا ہوں جس سے واضح ہوتا ہے کہ اختلاف کیسا ہونا چاہیئے ۔
بخاری شریف باب فضائل اصحاب النبی ﷺ میں روایت ہے :۔
حدثنا ابن أبي مريم، حدثنا نافع بن عمر، حدثني ابن أبي مليكة، قيل لابن عباس هل لك في أمير المؤمنين معاوية، فإنه ما أوتر إلا بواحدة. قال إنه فقيه.
ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ خود فقیہ ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین رکعت وتر کےقائل تھے ۔ جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک رکعت وتر ادا کیا کرتےتھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عمل کے برخلاف حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن نہیں کیا بلکہ ان کو فقیہہ قرار دیا اور ان کی تحسین فرمائی ۔ یہ ہے ختلاف کا طریقہ کار۔۔۔!
افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے سلف سے دین تو لے لیا اس پر عمل کا طریقہ کار تو لے لیا لیکن سلف سے اخلاقیات نہ لے سکے سلف کے ورع و تقویٰ اور حسن معاملہ کے بیان تو جھوم جھوم کر سن لیتے ہیں لیکن اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔
آج ہم اختلاف دلیل سے نہیں تذلیل سے کرتے ہیں ۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ دوسرا شخص جو ہماری رائے سے اختلاف کر رہا ہے ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی دلیل ہو جو ہم سے مخفی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس کا فہم فائق تر ہو ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم ہر معاملے میں اپنے آپ کو ہی عقل کل سمجھتے ہوئے دوسروں کو اس بات کا پابند سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے فہم پر ہی عمل کرے دوسری صورت میں بسا اوقات یا تو دائرہ اسلام سے ہی خارج قرار دے دیتے ہیں یا اس قدر طعن و تشنیع اور مغلظات سے نوازتے ہیں کہ کوئی بھی شریف النفس انسان برداشت نہیں کر سکتا۔
سلف تو اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی تعریف و تحسین کرتے رہے اور ہم اختلاف کے ساتھ تذلیل کرنا اپنا فرض سمجھے ہوئے ہیں ۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں نہ صرف سلف و خلف کے فہم دین بلکہ سلف و خلف کی اخلاقیات اور حسن معاملہ پر بھی عمل پیرا ہونے کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔ اور دوسروں کی رائے اور اختلاف کا احترام کرنے اور برداشت کرنے کو حوصلہ عطا فرمائے
آمین ثم آمین
بے شک سب سے عظیم ترین گناہ شرک ہے۔ سب گناہ معاف ہو سکتے ہیں لیکن شرک کی کوئی معافی نہیں اس کا مرتکب ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے جہنمی ہے جہنمی ہے جہنمی ہے اور اس میں زرہ بھر شک و شبہہ کی کوئی گنجائش موجود نہیں بلکہ جو مشرک کے عذاب اور جہنمی ہونے میں شک کرے وہ خود بھی کافر ہے !
چنانچہ حضرت لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتوں میں سے ایک سب سے اہم نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :۔
٭٭ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
(سورہ لقمان)
ترجمہ :۔ اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ۔ بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔
بے شک شرک ایسا گناہ ہے جو تمام گناہوں پر بھاری ہے۔ اگر ایک میزان میں باقی تمام گناہ اور دوسری طرف صرف شرک کا گناہ رکھا جائے تو شرک کے گناہ کا پلڑہ سب گناہوں پر بھاری ہو گا۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------
اسلام اخوت و بھائی چارے کا درس دیتا ہے ۔ اور اپنے مومن بھائیوں سے بدگمانی، تجسس اور اس کی غیبت ایسی چیزیں ہیں جو پیغام اخوت و محبت کے لیئے زہر قاتل کی سی حثیت رکھتی ہیں ۔ اس لیئے قرآن عظیم میں اللہ عزوجل نے مومن کے متعلق زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا ۔ کیونکہ بعض اوقات یہ انسان دوسرے کے متعلق وہ گمان کر لیتا ہے جو اس میں ہے ہی نہیں ۔ چنانچہ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ :۔
٭٭ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ
(سورۃ الحجرات)
ترجمہ :۔ اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچتے رہو، کیوں کہ بعض گمان تو گناہ ہیں، اور ٹٹول بھی نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی سے غیبت کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔
بدگمانی، دوسروں کے معاملات میں بے جا تجسس اور غیبت کی قباحت بیان کرتے ہوئے ان گناہوں سے باز آنے اور ان گناہوں کی بابت اللہ عزوجل سے ڈرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان گناہوں سے توبہ کرنے والے کو بخشش اور رحم کی بشارت سنائی گئی ہے !
--------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ بات اخلاق سے کس قدر گری ہوئی ہے کہ انسان کوئی گناہ یا خطا کرے خود اور اس کا الزام دوسرے کے سر لگا دے ۔ چنانچہ اس کی قباحت کو بیان کرتے ہوئے اللہ عزوجل کا ارشااد پاک ہے کہ :۔
٭٭ وَمَن يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا۔
(النساء)
ترجمہ:۔ اور جو شخص کوئی گناه یا خطا کر کے کسی بے گناه کے ذمے تھوپ دے، اس نے بہت بڑا بہتان اٹھایا اور کھلا گناه کیا
انسان اگر کوئی خطا یا گناہ کرتا ہے تو اس میں اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے اس گناہ یا خطا کا اعتراف کر سکے ۔ اپنی خطاؤں پر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے ۔
----------------------------------------------------------------------------------------------------
کسی بے گناہ پر الزام لگانے سے اس کے دل پر کیا گزرتی ہے یہ وہی جانتا ہے ۔ یہ اس قدر گھناؤنا اور گھٹیا فعل ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے ۔ کسی انسان کو ایسے فعل کا مرتکب ٹھہرانا جو اس نے کبھی کیا ہی نہ ہو اخلاقی پستی کی بدترین مثال ہے ۔ اس گھناؤنے فعل کی مذمت میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ :۔
٭٭ وَمَنْ قَالَ فِى مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ
(سنن ابی داؤد:3599)
ترجمہ :۔ اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جوا س میں نہیں تھی تو اللہ اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنا ئے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات سے تو بہ کر لے
یعنی کسی بے گناہ پر جھوٹا الزام لگانا اس قدر قبیح فعل ہے کہ جب تک وہ اس سے توبہ نہ کر لے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ یہاں مقام غور ہے ان لوگوں کے لیئے جو دوسروں پر بلاوجہ اس کام کا الزام لگاتے ہیں جو کبھی انہوں نے کیا ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسا کرنے کا سوچا تک ہوتا ہے !!!
اللہ سبحان و تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اطاعت
عبادت کی بہترین قسم اُس ذاتِ باری تعالٰی سے محبت ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر ایک کی جان ہے. وہ خالق ہے مالک ہے رازق ہے اس سے محبت کیے بنا گزارا ہی نہیں.اللہ کی محبت کے بغیر اللہ کی عبادت گویا کہ ایک ایسا جسم ہے جو لا شعوری حرکات کرتا رہتا ہے ، ایسی حرکات جن کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات نقصان ہوتا ہے ،
اس لیے ہر اِیمان والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اِیمان کی تکمیل کے لیے اور اپنی عبادات کا حقیقی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ، اپنی دُنیا اور آخرت کی خیر اور فلاح حاصل کرنے کے لیے اپنے دِل و جاں میں اپنے اللہ کی محبت جگائے اور بڑھائے رکھے اور اللہ سے اپنے لیے محبت حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا رہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
* وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ
(البقرۃ:165)
(اور جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ تعالی ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں)
محبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حُبِ الہی کی شاخ ہے. اللہ کی محبت پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور انکی اطاعت کی جائے. پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دل میں سب سے زیادہ مقدم رکھا جائے. اپنا اٹھنا، بیٹھنا، اوڑھنا، بچھونا غرض زندگی کے ہر معاملہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی جائے.
چنانچہ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں.
* قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ﴾
(آل عمران:31)
(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا.
* يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ (٢٠)
سورۃ الانفال آیت ٢٠
اے ایمان والو! تم اللہ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی مت کرو حالانکہ تم سن رہے ہو.
* اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أنْفُسُہِمْ وَ أزْوَاجُہ أمَّہَاتُھُمْ ﴾ ( الاحزاب:۶)
ترجمہ : ایمان والے اپنی جانوں سے زیادہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے لگاؤ رکھتے ہیں. اور اس کی عورتیں ان کی مائیں ہیں۔“
* قُلْ اِنْ کَانَ آبَائُکُم وَ اَبْنَاءُ کُمْ وَاخْوَانُکُمْ وَازْوَاجُکمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡھَا وَتِجَارَةُ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُوْلِہ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِہ وَاللهُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ۔“ (التوبة:۲۴)
ترجمہ:”تو کہہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو پسند کرتے ہو ،تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور لڑنے سے اس کی راہ میں تو انتظار کرو یہاں تک کہ بھیجے اللہ اپنا حکم اور اللہ راستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو۔“
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں. وہ اخلاق و کردار کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں. ہمارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی خون کا رشتہ تو نہیں ہے لیکن جو رشتہ انکے امتی ہونے کی وجہ سے ہمارا اُن سے ہے وہ کسی بھی خونی رشتے یا مادی شے سے بڑھ کر ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دین و دنیا کے ہر معاملہ میں بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہے ہم اگر آنکھ بند کر کے کسی کی کہی بات پر یقین کرنا چاہیں یا کسی کو صادق و امین کی بلندیوں پر دیکھنا چاہیں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسری مثال نہ ملے گی. پھر روزِ قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کا وعدہ اور امت کی بخشش کی دعا کرنا. ایسی مہربان اور مشفق ہستی سے کیوں نہ محبت کی جائے؟ اللہ اور رسول کے ساتھ محبت اور ایسا تعلق ہے جس کے بغیر ایمان کبھی مکمل نہیں ہوتا۔خاص طور پر جب تک نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری عزت، احترام، وقار اور محبت دل کے اندر نہ ہو، اسلام اور ایمان کا کوئی تصور نہیں.
اللہ پاک ہم سب کو اپنی اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عطا فرمائیں اور بہترین اطاعت کرنے والوں میں شامل فرما لیں. اللھم آمین
وجود باری تعالیٰ :۔
یہ بات بلکل بدیہی اور اظہر من الشمس ہے کہ عالم میں جو بھی شئے مشاہدے میں ہے، وہ جسم ہے یا قائم بالجسم اور جسم دو حال سے خالی نہیں وہ متفرق ہو گا یا مجتمع ، اگر متفرق ہے تو اس میں ترکیب و تالیف کا امکان یقینی ہے۔ اور اگر مجتمع ہے تو اس کے اندر بھی اختراق ممکن ہے۔اور یہ دونوں (یعنی اختراق مع احتمال الترتیب یا اجتماع مع احتمال الاختراق) چونکہ لازم و ملزوم ہیں اس لیئے ایک کے معدوم ہونے سے دوسرا بھی معدوم ہو جائے گا۔
جب دو جزو اختراق کے بعد مجتمع ہوں تو ان کا یہ اجتماع حادث ہو گا اس لیئے کہ یہ اجتماعی شکل پہلے سے نہ تھی۔اسی طرح اجتماع کے بعد اگر اختراق واقع ہو تو یہ اختراق بھی حادث ہو گا اس لیئے کہ یہ اجتماعی اور اختراقی شکل پہلے سے نہ تھی بلکہ بعد میں پیدا ہوئی۔جب عالم میں موجود ہر شئے کا یہی حال ہے کہ اس پر حدوث طاری ہوتا ہے تو ان مشاہداتی اشیاء کی جنس میں سے جو اشیاء مشاہد نہیں تو ان کا بھی حکم معلوم ہو گیا کہ وہ بھی حدوث سے خالی نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی شئے مجتمع ہے تو کسی مؤلف کی تالیف(ترکیب) کی وجہ سے ہی وہ اس شکل میں ہے۔ اور اسی طرح اگر متفرق ہے تو کسی مفرق کی تفریق ہی کے سبب ہے۔ اور یہ مؤلف و مفرق ایسی ذات ہی ہو سکتی ہے جو ان تمام حدوث سے پاک ہو جو ان پر واقع ہوتے ہیں۔یعنی اجتماع و اختراق کا وقوع اس پر جائز نہ ہو اور وہ واحد و قہار ذات ہے جو تمام مختلفات کو جامع ہے اور اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ ہر شئے پر قادر ہے ۔
ان دلائل سے حتمی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان اشیاء کی مجتمع یا متفرق صورت بنانے والااور ان کا محدث ہر چیز سے پہلے وجود رکھتا تھا۔سو لیل و نہار، زمان و ساعات سب حادث ہیں اور ان کا محدث وہ ہے جو ان کے وجود سے قبل ہی ان میں تدبیر و تصرف کرتا تھا۔اس لیئے یہ بات ناممکن ہے کہ اشیاء حادث موجود ہوں اوران سے پہلے ان کا محدث موجود نہ ہو۔
اللہ عزوجل کا یہ قول اس پر نہایت مضبوط و قوی دلیل ہے :۔
"کیا انہوں نے اونٹ کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے کیسے اس کو بنایا ہے۔اور آسمان کی طرف کہ اس نے اس کو کیسا بلند کیا۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ اس نے انہیں کیسا نصب کیا۔ اور زمین کی طرف کہ اس نے اسے کیسے بچھایا۔"
(سورۃ الغاشیہ آیت 17-20)
یہ دلیل اس شخص کے لیئے ہے جو اپنی عقل کا استعمال کرے اور غور وفکر کرےاور ان کے ذریعے باری تعالیٰ قدیم اور محدث ہونے پر استدلال کرے نیز ان اشیاء کے علاوہ جو ان کی ہم جنس ہیں ان کے حادث ہونے پر اور اس پر کہ ان سب کی خالق ایک ایسی ذات ہے جو ان کے مشابہ نہیں اس پر بھی استدلال کرے ۔
اللہ عزوجل نے ان اشیاء یعنی اونٹ، پہاڑ اور زمین وغیرہ کا جو ذکر فرمایا ہے ، ابن آدم ان پر باربرداری کرنا، منتقل کرنا، کھودنا، چھیلنا، گرانا وغیرہ وغٰرہ جیسے تصرفات کرتا ہے ان میں سے کوئی بھی تصرف ممتنع نہیں ۔لیکن ان سب تصرفات کے باوجود ابن آدم ان میں سے کسی بھی چیز کی تخلیق پر قادر نہیں ۔ جو تخلیق سے عاجز ہو وہ اپنی ذات کے حق میں بھی محدث نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ ان اشیاء کے مثل بھی کوئی چیز ان کے لیئے مؤجد نہیں ہو سکتی۔ پس حقیقت یہ ہے کہ ان کی مؤجد ایک ایسی ذات ہے جس کے ارادہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی۔اور نہ کسی چیز کا احداث اس کے لیئے ممتنع ہے۔پس وہ اللہ عزوجل کی ذات ہے ۔
وحدانیت باری تعالیٰ:۔
اگر کوئی شخص اشیاء کے وجود کو کسی قدیم کا فعل مانے لیکن قدیم کے واحد ہونے کا انکار کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ :۔
جب ہم اپنے وجود کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں محیر العقول نظام اور مسلسل اور متصل تدابیر و تصرفات نظر آتے ہیں اور تخلیقی ڈھانچہ انتہائی کامل دکھائی دیتا ہے۔لہذا اس بناء پر ہم کہتے ہیں کہ اگر تدبیر و تصرف کرنے والے دو ہوں تو ان میں اتفاق ہو گا یا اختلاف، اگر اتفاق ہو گا تو یہ بلکل ایک ہی ہوگااور دونوں کا معنی ایک ہی ہوگا۔ جبکہ قائل نے ازخود ایک کو دو قرار دے دیا جو خلاف عقل ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ دو میں ہر جگہ اتفاق ہی ہو کہیں نہ کہیں اختلاف بھی بہرحال موجود رہتا ہے۔ اور اگر اختلاف ہو وجود خلق احسن اور کامل نہ ہواور نہ ہی اس میں تدبیر و تصرف منظم پیمانے پر ممکن ہو۔اس لیئے کہ ہر ایک کا فعل دوسرے کے خلاف ہوگا۔ان میں سے ایک جب کسی کو زندہ کرے گاتو دوسرا اسے موت سے ہمکنار کرے گا۔اگر ایک کسی چیز کو ایجاد کرے گا تو دوسرا اسے فنا کر دے گا۔اس کشمکش میں یہ محال و ناممکن ہے کہ کسی شئے کا وجود صحیح سلامت پایا جائے۔لہذا تمام نظام خلق کا اس احسن و منظم پیمانے پر ہوناذات قدیم کے واحد ہونے کی بدیہی اور مشاہداتی دلیل ہے۔
اسی حقیقت کا اللہ عزوجل نے قرآن حکیم میں ذکر فرمایا:۔
"اگر آسمان و زمین میں کئی خداہوتے تو یہ دونوں تباہ و فنا ہو جاتے۔پس اللہ تعالیٰ کو کہ رب عرش ہےان تمام چیزوں سے پاک ہے جو یہ مشرکین بیان کرتے ہیں۔"
(سورۃ الانبیاء آیہ 22)
ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:۔
"اللہ نے کسی کو اپنی اولاد قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور اللہ ہےاگر ایسا ہوتا تو ہر اللہ اپنی بنائی ہوئی چیز کو جدا کر لیتا اور دوسرے پر چڑھائی کر دیتا۔ لیکن اللہ اس چیز سے پاک ہے جو یہ (مشرکین )بیان کرتے ہیں۔وہ پوشیدہ اور ظاہر تمام چیزوں کا جاننے والااور ہر قسم کے شریک سے بلند و برتر اور پاک ہے ۔"
(سورۃ المؤمنون آیت 91-92)
یہ دونوں آیات اہل شرک کے دعوی کے بطلان پر مختصر و بلیغ ترین حجت اور مضبوط ترین دلیل ہیں۔ان کا حاصل یہی ہے کہ اگر زمین پر ماسوائے اللہ کئی اللہ ہوتے تو ان میں اتفاق ہوتا یا اختلاف۔ اتفاق ہونے کی صورت میں قدیم کے دو ہونے کا قول باطل ٹھہرتا ہے اور اختلاف ہونے کی صورت میں آسمان و زمین میں فساد و فنا لازم آتااس لیئے کہ ایک اگر کسی چیز کو پیدا کرتا تو دوسرا اس کی مخالفت کی بناء پر معدوم و فنا کرنے کی کوشش کرتا۔ کیونکہ دونوں کے افعال ایک دوسرے سے مختلف ہوتے جیسے آگ کا کام گرم کرنا ہے اور برف کا کام ٹھنڈا کرنا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور اعتبار سے بھی یہ قول باطل ہے کہ اگر دو قدیم مان لیئے جائیں تو وہ دونوں دو حال سے خالی نہ ہوں گے دونوں قوی ہوں گے یا دونوں عاجز۔ اگر عاجز ہوں تو ہر ایک اپنے مقابل کی نسبت عاجز ہو گا۔ اس لیئے کہ مقابل کو ہم نے قوی تسلیم کر لیا تو دوسرے کا عجز لازم آئے گااور ایک اگر اپنے مقابل پر قوی ہو تو مغلوب اپنے ساتھی کی قوت کے سامنے عاجز و بے بس ہو گا اور عجز و بے بسی اللہ کے منافی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ قدیم واحد کا تسلیم کرنا ضروری ہےوگرنہ ہر صورت مین محال کو تسلیم کرنا لازم آتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ اہل شرک کی افتراء پردازیوں سے پاک و صاف اور منزہ ہے
ان تمام عقلی و نقلی دلائل سے یہ معلوم ہو گیا کہ اشیاء کا خالق تھا اور اس حال میں کہ اس کے سوا کوئی دوسرا نہ تھااور اسی نے اشیاء کو پیدا کیا۔
میں اکثر یہ بات سوچتا ہوں کہ اگر مستشرقین نہ ہوتے تو آج کل کے ملحدین کا کیا بنتا ۔ موسمی ملحدین جن کی اپنی کوئی علمی حثیت نہیں وہ تو یتیم ہو کر رہ جاتے ۔ یہ انہی مستشرقین کی دین ہے کہ موسمی ملحدین صدیوں قبل ان کے کیئے گئے اعتراضات بار بار دہراتے رہتے ہیں اور ہر بار عزت افزائی کے ساتھ جواب دیا جاتا ہے ۔ لیکن چین ان کو پھر بھی نہیں آتا ۔حال ہی میں ملحدین کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کے نسب مبارک پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ آپ ﷺ نسل اسماعیل میں سے نہیں تھے نعوذو باللہ !
یہ وہ اعتراض ہے جو مستشرقین نے اٹھایا اور اس کا تسلی بخش جواب دے کر ان کا تو منہ بند کر دیا گیا لیکن علمی یتیم اور عقل سے بے بہرہ ملحدین کا حال بندر کے ہاتھ میں ماچس کی ڈبیا جیسا ہو گیا اور انہیں اس پر اپنی دکانداری چلانے کا موقع مل گیا ۔اپنی دانست میں موسمی ملحدین نے یہ اعتراض دہرا کر بہت بڑا کارنامہ کیا ہے جسے بڑے فخر سے وہ بطور چیلنج دہراتے پھر رہے ہیں !
مستشرقین کے اس اعتراض کے سارق ملحدین کی خارشی طبع کی تسلی کے لیئے مستشرقین کے اس اعتراض کا جواب مستشرقین کی اپنی ہی زبانی پیش خدمت ہے :۔
٭ انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس کا مقالہ نگا رجیمز ہیسٹنگز لکھتا ہے کہ :۔
"حضرت محمد ﷺ ایک اسماعیلی تھے۔جنہوں نے اپنے ہم وطنوں کو یہ تعلیم دی کہ وہ دین ابراہیمی کی طرف رجوع کریں اور ان خدائی وعدوں سے بہرہ یاب ہوں جو نسل اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ کیئے گئے ہیں۔"
(انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس جلد 8)
٭ گبن وہ مشہور مؤرخ ہے جس کو پورا مغرب قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کی حثیت اہل مغرب کے ہاں مسلم ہے ۔ وہ بھی اسلام کے خلاف معاندانہ جذبات رکھتا ہے۔ لیکن مستشرقین نے جس طرح حضور اکرم ﷺ کے نسب نامہ کو جس طرح مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :۔
"حضرت محمد ﷺ کی اصل کو حقیر اور عامیانہ ثابت کرنے کی کوشش عیسائیوں کی ایک غیر دانشمندانہ تہمت ہے ۔ جس سے ان کے مخالف کا مقام گھٹنے کے بجائے بڑھا ہے ۔"
اس کے علاوہ گبن اپنی اسی کتاب کے فٹ نوٹ پر لکھتا ہے کہ :۔ "تھیوفینز جو کہ پرانے زمانے کے یونانیوں میں سے ہے وہ تسلیم کرتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نسل اسماعیل علیہ السلام میں سے تھے ۔"
اس کے علاوہ مزید لکھتا ہے کہ :۔ "ابولفداء اور گیگنیئر نے اپنی اپنی کتابوں میں حضرت محمد ﷺ کا جو نسب نامہ لکھا ہے وہی مستند ہے۔"
یاد رہے کہ یہ وہی نسب نامہ ہے جو حضور اکرم ﷺ کے نسل اسماعیل میں سے ہونے کی گواہی دیتا ہے۔
(ایڈورڈ گبن: دی ڈیکلائین اینڈ فال آف رومن ایمپائر جلد 5)
٭ مسٹر فاسٹر بھی اس بات کی گواہی دیتا نظر آتا ہے ۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ :۔
"----خاص عرب کے لوگوں کی یہ قدیمی روایت ہے کہ قیدار اور اس کی اولاد ابتداء میں حجاز میں آباد ہوئی تھی ۔چنانچہ قوم قریش اور خصوصاََ مکہ کے بادشاہ اور کعبہ کے متولی ہمیشہ اس بزرگ کی نسل سے ہونے کا دعوی کرتے تھے۔ اور خاص کر حضرت محمد ﷺ نے اسی بنیاد پر کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور قیدار کی اولاد میں سے ہیں ، اپنی قوم کی دینی و دنیوی عظمتوں کے استحقاق کی تائید کی ہے۔"
(بحوالہ : سیرت محمدی ﷺ از سرسید احمد خان)
حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین اور ان کے سارق ملحدین چاہے جتنی مرضی کوششیں کر لیں جتنا مرضی پروپیگنڈہ کر لیں اپنی پوری طاقت صرف کر لیں لیکن حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان عالیشان کو جھٹلانا ان کے بس سے باہر ہے :۔
"حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:۔ اللہ عزوجل نے اولاد ابراہیم میں سے اسماعیل کو چنا، اولاد اسماعیل سے کنانہ کو چنا، بنی کنانہ سے قریش کو چنا ، قریش سے بنی ہاشم کو چنا اور بنی ہاشم سے مجھے چنا۔"
(سنن الترمذی)
عربوں میں بے شمار خامیاں تھیں وہ لوگ جہالت، بربریت، بدکاری اور نخوت و تکبر کی دلدل میں سرتاپا ڈوبے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود ان میں کچھ خوبیاں بھی تھیں جو انہیں دیگر اقوام عالم سے ممتاز بناتی ہیں ۔یہ قوم جرات و بہادری میں اپنی مثال آپ تھی۔ ان کی قوت حافظہ بھی مثالی تھی ۔ اس کے علاوہ اپنے خیالات کے اظہارانہیں جو قدرت حاصل تھی وہ صرف انہی کا خاصہ ہے ۔اپنی اس قوت حافظہ کو انہوں نے اپنے نسب نامے حفظ کرنے کے لیئے دل کھول کر استعمال کیا تھا ۔ہر کوئی نہ صرف اپنا نسب نامہ یاد رکھتا بلکہ دیگر قبائل کے نسب ناموں کو بھی اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیتا ۔ تاکہ وقت آنے پر وہ دیگر قبائل کے نسب ناموں کی کمزوریوں کو واضح کر کے اپنی نسبی برتری ثابت کر سکے ۔
اس کے علاوہ عرب جھوٹ بولنے سے بھی سخت نفرت کرتے تھے اور انہیں یہ بات بلکل بھی گوارا نہ تھی کہ ان کی شہرت ایک جھوٹے کی حثیت سے ہو۔اسی لیئے ہرقل کے دربار میں ابوسفیان خواہش کے باوجود حضور اکرم ﷺ کے خلاف کوئی جھوٹی بات نہ کر سکے ۔ عربوں کی یہ روایتیں کسی بھی تاریخی روایت کے مقابل مستند قرار دی جا سکتی ہیں اور ان روایات کے مطابق خانہ کعبہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ اور عربوں کی ایک قسم جو "عرب مستعربہ" کہلاتی تھی وہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھی ۔قریش اسی عربی النسل کا ایک قبیلہ تھا جس ایک معزز ترین شاخ بنو ہاشم تھی ۔اس دور میں تمام عرب قریش کا نسل اسماعیل میں سے ہونے کی وجہ سے احترام کرتا تھا اور کسی کو بھی ان کے اسماعیل علیہ السلام کی نسل مین سے ہونے میں کوئی شبہہ نہ تھا۔
(ضیاء النبی ﷺ جلد7)
علاوہ ازیں اگر حضور اکرم ﷺ نسل اسماعیل علیہ السلام سے نہ ہوتے تو یہود مدینہ آپ ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لاتے ۔ یہود مدینہ کا آپ ﷺ پر ایمان نہ لانا صرف اور صرف اسی وجہ سے تھا کہ آپ ﷺ نسل اسماعیل میں سے تھے ۔ اور نبوت یہود سے چھن کر نسل اسماعیل میں منتقل ہو چکی تھی ۔ جو کہ یہود کی سیاسی و مذہبی برتری پر ایک کاری ضرب تھی ۔
الغرض
حضور اکرم ﷺ کا نسل اسماعیل میں سے ہونے کی حقیقت کو مشکوک قرار دینے کی کوشش کرنا نہ صرف روایات عرب کے برخلاف ہے بلکہ خود مستشرقین کی تحقیق بھی اس کے منافی ہے ۔ اس لیئے ملحدین سے گزارش ہے کہ دوسروں کا تھوکا چاٹنے کے بجائے کچھ اپنی عقل کا استعمال کریں تاکہ ان کی علمی حثیت اور اوقات بھی واضح ہو سکے !!!
غزالی رح کے نزدیک انسانی شخصیت جسمانی اور روحانی قوتوں کا مجموعہ ہے انسان کا مقصد ذات کی تلاش ہے. ذات جسمانی حوائج کی تکمیل کے لیے حسی اور حرکی تحریکات کا سہارا لیتی ہے. جسمانی قوتیں مثلاً بھوک اور غصہ فرد کی جسمانی ضروریات کی تکمیل میں مددگار ثابت ہوتے ہیں بھوک اور غصے کے نتیجے میں تحریک فرد کو اور اس کے جسم کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ جسمانی فعالیت کو سر انجام دے پائے.
انسان میں ادراک کی اہلیت اندرونی اور بیرونی حسیات پر مشتمل ہے جو کہ انسانوں میں بہت اعلی درجے کی ہے. اندرونی حسیات، تفکر، تخیل اور حافظہ پر مشتمل ہیں جبکہ بیرونی حس بصری، سمعی، لمسی اور شامی حسیات پر مبنی ہیں. انسانی کردار انسانی دماغ کے مختلف حصوں کے ساتھ وابستہ ہے. دماغ میں ہر انسانی فعل کو ضابطہ میں لانے کے لیے مخصوص علاقے ہیں مثلاً حافظہ کا تعلق عقبی فص (Lobe) کے ساتھ جب کہ تخیل کا تعلق جہی فص کے ساتھ اور ردِ عمل کا تعلق درمیانی فص کے ساتھ مربوط ہے. ہمارا ذہن دماغ کا تفاعل ہے یہ تمام قوتیں انسان کو کنٹرول کرنے اور چلانے کے لیے اہم ہیں. لیکن ذات یعنی قلب ان قوتوں پر حاوی ہے. صحت مند شخصیت کی تشکیل کے لیے ابتدائی بچپن، خاندان اور ہمجولی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں. غزالی کے نزدیک مجرمانہ کردار والدین اور معاشرے کی غلط تربیت کا نتیجہ ہوتے ہیں. ہر فرد کے اندر مثبت اور منفی قوتیں موجود ہوتی ہیں. مثبت قوتیں فرد کو صحت کی جانب جبکہ منفی قوتیں ذہنی بیماری کی طرف لے جاتی ہیں. ذہنی صحت خُدا سے نزدیکی جبکہ ذہنی بیماری خُدا سے دوری ہے.
علم کی دو اقسام ہیں پہلا مادی علم اور دوسرا روحانی علم ہے. روحانی علم اعلی قسم کا علم ہے جبکہ مادی علم ادنی قسم کا علم ہے. غزالی رح کے نزدیک پیغمبر اعلی ترین ہستیاں ہیں جو خُدا سے الہامی علم حاصل کرتی ہیں. علم کا حتمی مقصد خُدا کی پہچان ہے. ذات ہی وہ قوت ہے جو خُدا تک پہنچاتی ہے. اور ذات ہی کے ذریعے خود آگاہی سے خدا آگاہی تک پہنچا جاسکتا ہے.
جہالت ایک ذہنی مرض ہے جبکہ علم صحت ہے. خدا کی ذات کا علم اعلی ترین علم ہے. ذات اور اسکی قوتوں کا علم ذات باری تعالٰی کی تلاش کے لیے انتہائی ضروری ہے.
غزالی رح نے بیماری کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے.
1- جسمانی(Physical ) امراض
2- تفاعلی (Functional) امراض
جسمانی خرابیاں جو کہ جسم کا کام ہیں انکا علاج آسانی سے کیا جاسکتا ہے. جبکہ تفاعلی امراض جہالت کا نتیجہ ہوتے ہیں. ذہنی بیماری کی سب سے بڑی وجہ خُدا سے دوری ہے غزالی رح نے تفاعلی امراض کی کئی مثالیں دی ہیں. مثلاً العمل (خاص عمل) ایک تفاعلی مرض ہے جو شک کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے. بغض ایک تفاعلی مرض ہے جو کہ دولت، طاقت اور رتبے کی بدولت جنم لیتا ہے. جہل بھی روحانی مرض ہے جو کے جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے. بزدلی کی وجہ سے روحانی مرض جبن پیدا ہوتا ہے. جفا بھی ایک روحانی مرض ہے جو ظلم وجہالت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اسی طرح روحانی مرض ہوس جو مادی اشیاء کے ساتھ بے پناہ لگاؤ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اسی طرح وسوسہ، حسد اور طمع بھی روحانی امراض ہیں.
غزالی رح کے نزدیک تفاعلی روحانی امراض بہت شدید ہوتے ہیں. حقیقت تو یہ ہے کہ فرد منفی قوتوں کو جدوجہد کے ذریعے مغلوب کر سکتا ہے. تفاعلی روحانی امراض کو اللہ تعالٰی کا شکر بجا لا کر دور کیا جا سکتا ہے.
قادیانی کی دلیل کا رد :۔
قادیانی:۔
محتر م ہم تو پہلے سے ہی سورۃ - ا لنساء - 70 - کے مطا بق جیسا کہ اس آ یت میں بتا یا گیا ہے کہ جو لو گ اللہ تعا لی اور ( ا س ر سو ل ) یعنی محمد ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کا مل ا طا عت کر نے و ا لے ہو نگے - ان میں سے نبی بھی ہونگے ' صد یق بھی ہو نگے ' شہید بھی ہونگے اور صا لحین میں سے بھی ہو نگے یعنی وہ سب اللہ کے کے ا نعا م یا فتہ عا لی مرا تب کے حا مل ہو نگے - یعنی ا یسے سب مد ا رج اللہ اور ر سول اللہ کی خو شنو دی سے ہی حا صل ہو سکتے ہیں -
لیکن منکر ین میں تو تم لو گ ہو - یعنی جب کہ تمہیں قر ا نی آ یا ت سے د لا ئل بھیجے جا تے ہیں ' تو تم لو گ ان آ یا ت کا ا نکا ر کر دیتے ہو - - اور جو بھی ر سول اللہ پر نازل ہو ئ کتا ب کی آ یا ت کا ا نکا ر کر تے ہیں ' تو وہ گو یا اس ر سول اللہ کا بھی ا نکار کر نے وا لے ہیں -
اس کے بعد اور کیا د لیل ہو سکتی ہے ؟ ؟ ؟ //
جواب:۔
قرآن کی من مانی تاویلات اور قرآنی الفاظ کو من چاہے معنی پہنانے کا کا م تو قادیانیوں کا من پسند کام ہے ۔ قرآن کو من چاہے معنی پہنا کر اس معنی کے منکر کو بڑے آرام سے منکر قرآن کہہ دیتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے سادہ لوح لوگ ان کے جھانسے میں آ جاتے ہیں ۔ لیکن صاحب علم جانتے ہیں کہ یہ کس قدر بددیانت اور خائن ہیں جو قرآن جیسی لاریب کتاب تک میں تحریف معنوی سے باز نہیں آتے۔
مذکوہ بالا دلیل بھی اسی معنوی تحریف کی بدترین مثال ہے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ قادیانی کا حوالہ ہی غلط ہے یہ آیہ سورہ نساء کی 70 نہیں بلکہ اس سے قبل 69 نمبر آیہ ہے ۔
دوسرا قادیانی کے من چاہے معنی کے پوسٹ مارٹم کے لیئے میں آپ کے سامنے اس آیہ کے عربی الفاظ اور ان کا لفظ بہ لفظ ترجمہ رکھتا ہوں تاکہ اس کا دجل و فریب آشکار ہو سکے ۔
آیہ یہ ہے :۔
وَمَنْ يُّطِعِ اللّـٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّـذِيْنَ اَنْعَمَ اللّـٰهُ عَلَيْـهِـمْ مِّنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصَّالِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيْقًا (سورۃ النساء 69)
اب اس آیہ کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :۔
وَمَنْ :۔ اور جو
يُّطِعِ :۔ اطاعت کرے
اللّـٰهَ وَالرَّسُوْلَ :۔ اللہ اور رسول ﷺ کی
فَاُولٰٓئِكَ :۔ پس یہی لوگ
مَعَ الَّـذِيْنَ :۔ ان لوگوں کے ساتھ
اَنْعَمَ :۔ انعام کیا
اللّـٰهُ عَلَيْـهِـمْ :۔ اللہ نے ان پر
مِّنَ :۔ سے (یعنی)
النَّبِيِّيْنَ :۔ انبیاء
وَالصِّدِّيْقِيْنَ :۔ اور صدیق
وَالشُّهَدَآءِ :۔ اور شہداء
وَالصَّالِحِيْنَ ۚ :۔ اور صالحین
وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيْقًا :۔ اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔
لفظ بہ لفظ اس ترجمے کو دیکھیں اور اس کے بعد قادیانی کے بتائے گئے ترجمے کو دیکھیں تو اس کا دجل و فریب اور منافقت آشکار ہو جاتی ہے ۔
قادیانی کہتا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی کامل اطاعت کرنے والے ہوں گے ان میں سے نبی بھی ہوں گے صدیقین و شہدا اور صالحین بھی معاذ اللہ
قرآن کی اس آیہ کے ترجمے میں سے وہ ان الفاظ سے چشم پوشی کر گیا جو اس کے ساری دلیل کا ہی ستیاناس کر دیتے ہیں ۔ اس آیت کا درست ترجمہ یہ ہے کہ :۔
" اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا فرمانبردار ہو تو ایسے لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا جو نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحوں میں سے ہیں، اور یہ رفیق کیسے اچھے ہیں۔"
قرآن یہ کہتا ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام فرمایا اور پھر بتاتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا تو وہ لوگ انبیاء ، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں ۔ قرآن کی اس آیہ کا یہ مفہوم ہر گز نہین بنتا کہ کامل اطاعت کرنے والوں میں سے انبیاء ہونگے ۔
قادیانی کی یہ دلیل باطل ہے ۔ اور اپنی ہی پیش کردہ دلیل کے تحت قادیانی خود منکر قرآن اور منکر رسالت ہے ۔
فنکشن کے لحاظ سے انسانی دماغ کو تین حصوں میں کیٹگرائزڈ کیا جاتا ہے.
ریپٹیلین برین،
لِمبک برین اور
لاجیکل برین.
ریپٹیلین برین ریپٹائیلز یعنی رینگنے والے جاندار مثلاً کینچوا، کیکڑا، بچھو، سانپ وغیرہ کی دماغی صلاحیات صرف جسمانی ضروریات پوری کرنے تک محدود ہیں. خوراک اور جنسی اختلاط کے علاوہ انکی کوئی دوسری ضروریات نہیں. یہ جذباتی یا عقلی خصوصیات نہیں رکھتے. عموما دیکھا گیا ہے کہ یہ جانور اپنی پیدائش کے موسم میں ایک بڑی تعداد میں انڈوں سے نکلتے ہیں اور بغیر کسی گائیڈنس کے یہ اپنی دماغی خصوصیات کے لحاظ سے زندگی گزارنے لگتے ہیں. انسان کے دماغ کا یہ حصہ ریپٹائیلز کی طرح صرف جسمانی ضروریات کا احساس دلاتا ہے. بھوک و پیاس و دیگر جسمانی ضروریات کی انفارمیشن ریپٹیلین برین سے جاری کی جاتی ہیں. جو انسان کو بنیادی ضروریات پورا کرنے کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے.
لِمبک یا میمیلِک برین میملز یعنی اپنے بچوں کو دودھ پلانے والے جانور مثلاً گائے، بھینس، بکری، بندر، شیر، چیتا وغیرہ انکی ذہنی صلاحیتیں جسمانی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اموشنل یعنی جذباتی ضروریات پر بھی مشتمل ہوتی ہیں، خوراک، جنسی اختلاط اور دیگر جسمانی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان میں خوشی اور غمی کے تاثرات دینے اور سمجھنے کی بھی صلاحیت موجود ہوتی ہے. نر و مادہ اپنے بچوں سے بے انتہا پیار کرتے ہیں. جذباتی ضروریات انہیں ایک دوسرے کے قریب رکھتی ہیں. یہ جانور قدرتی طور پر ماحول سے متاثر بھی ہوتے ہیں اورایک دوسرے کا احساس کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں. اور نظر انداز کیے جانے کے احساس کو بخوبی سمجھتے ہیں. انسانی دماغ بھی میملز کی طرح لِمبک نظام کی خصوصیت رکھتا ہے. دیگر جسمانی ضروریات کے ساتھ انسان کو اموشنل سیٹیسفیکشن کی بھی ضرورت ہوتی ہے. اگر اموشنل سیٹیسفیکشن نہ ملے تو انسان نتیجتاًہیجان اور دباؤ کی کیفیات کا شکار ہوجاتا ہے. جس سے دفاعی کمزوریاں جنم لیتی ہیں.
لاجیکل برین انسانی دماغ کا بڑا حصہ لاجیکل برین پر مشتمل ہوتا ہے. جس سے انسان کسی بھی چیز کے عقلی دلائل یا بصری مشاہدے کے بعد اُسے قبول یا رد کرنے کی خصوصیت رکھتا ہے. عقل اور غوروفکر کی یہ صلاحیت اُسے فیصلہ کرنے میں مدد دیتی ہے. اور اسی عقل کی بدولت وہ تمام تر جانداروں سے افضل ہے اور اشرف المخلوق کا درجہ رکھتا ہے. انسان ذہین ترین مخلوق ہے کیونکہ اسکی دماغی صلاحیت تمام تر جانداروں کی نسبت زیادہ ہے. یہ ناصرف عقل رکھتا ہے بلکہ اسکا بہترین استعمال بھی جانتا ہے. لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک بچے کو بنسبت ایک بالغ کے عقلی یا جسمانی ضروریات کی بجائے اموشنل سیٹیسفیکشن کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے. اسکی وجہ یہ ہے کہ بچے کا دماغ ماحول سے آہستہ آہستہ متاثر ہوتا ہے اور آغاز میں بچہ خود سوچنے سمجھنے کی بجائے ماحول پر انحصار کرتا ہے. اگر اس کی اموشنل نیڈز (جذباتی ضروریات) بروقت پوری نہ کی جائیں تو نتیجتاً وہ ضدی، چڑچڑے پن اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے.
جیسے جیسے عمر گزرتی ہے مسلسل مشاہدے اور ماحول کے انفلوینس کی بدولت انسانی دماغ جذباتیت کی بجائے عقلی دلائل کو ترجیح دینے لگتا ہے اور عوامل کو بغیر وجہ کے قبول نہیں کرتا. اللہ نے انسان کو عقل کی نعمت عطا کی اور اسی عقل کے درست یا غلط استعمال پر وہ رب کو جواب دہ ہے. دماغ کا وہ حصہ جو لاجیکل یعنی عقلی صلاحیتوں پر مشتمل ہوتا ہے. فرونٹل کورٹیکس کہلاتا ہے. فرونٹکل کورٹس کے لیے عربی میں ناصیہ کا لفظ موجود ہے. تو ہم کہہ سکتے ہیں ناصیہ ان تمام تر خصوصیات پر مشتمل عضو ہے. جو انسان کو تحقیق کرنے کے ساتھ ساتھ درست اور غلط کی پہچان کروانے کا ذریعہ بھی ہے. جدید سائیکلوجیکل سائنس کے مطابق فرونٹل کورٹیکس سچ اور جھوٹ، نیکی و بدی کو سمجھنے اور غلط یا درست راستہ منتخب کرنے کی صلاحیتوں پر مشتمل ہے. اگر کبھی آپ کے تجربہ یا نظر سے گزرا ہو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پولیس یا دیگر ایجنسیز مجرم سے سچ اگلوانے کے لیے لائی ڈیٹیکٹر مشینز استعمال کرتے ہیں. لائی ڈیٹیکٹر مشین کو فرونٹل کارٹس یا ناصیہ سے اٹیچ کرنے کے بعد سوالات پوچھے جاتے ہیں. جھوٹ بولنے کی صورت میں دماغ میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے. جسے مشین ڈیٹیکٹ کرنے کے بعد آلارمنگ ساؤنڈ دیتی ہے. اور اس طرح مجرم کے سچ اور جھوٹ بولنے کا پتا لگایا جاسکتا ہے.
آئیے دیکھتے ہیں قرآن پاک ناصیہ کے بارے میں کیا کہتا ہے. سورہ العلق آیت ١٣ تا ١٦ اَرَءَیۡتَ اِنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ؕ۱۳﴾اَلَمۡ یَعۡلَمۡ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی ﴿ؕ۱۴﴾ کَلَّا لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ ۬ ۙ لَنَسۡفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ ﴿ۙ۱۵﴾ نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ ﴿ۚ۱۶﴾ بھلا دیکھو تو اگر یہ جھٹلاتا ہو اور منہ پھیرتا ہو تو ۔ کیا اس نے نہیں جانا کہ اللہ تعالٰی اسے خوب دیکھ رہا ہے ۔ یقیناً اگر یہ باز نہ رہا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے ۔ ایسی پیشانی جو جھوٹی خطا کار ہے ۔
جزیہ ایک ٹیکس ہے جو اسلامی مملکت کے غیر مسلم شہریوں سے وصول کیا جاتا ہے ۔جو اسلامی مملکت کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے ایک پر امن شہری کی طرح وہاں آباد ہونے کا معاہدہ کریں ۔دشمنان اسلام نے جزیہ کی وجہ سے اسلامی نظام سیاست پر اعتراضات کی بوچھاڑ کی ہےاور اسلام کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں غلط تصورات پیدا کرنے کی مساعی ناپاک کی ہے۔اس لیئے یہ ضروری ہے کہ جزیہ کے متعلق زرا تفصیل سے لکھا جائے تاکہ معترضین کے اعتراضات کی حقیقت طشت از بام کی جا سکےاور اسلام کے اس بے لاگ انصافی کے نظام کے متعلق شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جا سکے۔ اسلامی مملکت کے باشندوں کوہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ٭مسلم رعایا ٭ غیر مسلم رعایا غیر مسلم رعایا کی بھی آگے دو قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جنہوں نے جنگ کیئے بغیر صلح کی اور صلح نامے کے مطابق اسلامی مملکت کی شہریت قبول کر لی اور دوسرے وہ جنہوں نے جنگ میں شکست کھانے کے بعد گھٹنے ٹیکے اور اسلامی مملکت میں پر امن شہری کے طور پر سکونت پذیر ہو گئے ۔ان دونوں قسموں کو آسانی سے ہم اہل ذمہ کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں ۔ مملکت اسلامیہ میں سکونت پذیر ان تینوں طبقات کی جان ومال عزت و آبرو کی حفاظت کی مکمل ذمہ داری اسلامی حکومت پرعائد ہوتی ہے ۔یہ ذمہ داری صرف قول کی حد تک نہین بلکہ عملی طور پر اس سے عہدہ برآ ہونا اسلامی حکومت کا دینی فریضہ ہے۔ غیر مسلم رعایاکی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیئے ہادی برحق ﷺ نے جو تاکیدی ارشادات فرمائے ان کی فصاحت و بلاغت اور زور بیاں سے پتھر دل بھی پسیج جاتے ہیں اور رعونت سے اکڑی گردنیں جھک جاتی ہیں ۔
ان ان گنت فرامین میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :۔
٭ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کو اہل ذمہ سے جزیہ وصول کرنے کو بھیجا ۔ جب وہ بارگاہ رسالت سے رخصت لے کر روانہ ہوئے تو نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے انہیں اپنے پاس بلایا اور ارشاد فرمایا:۔ "اے عبد اللہ ! ! جس نے بھی کسی معاہد (اہل ذمہ) پر ظلم کیا، یا اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دی ،یا اسے نقصان پہنچایا، یا اس کی رضامندی کے بغیر اس کی کوئی چیز لی تو قیامت کے روز میں اس کا گریبان پکڑوں گا ۔"
(کتاب الخراج امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم ص 150)
غور فرمایئے جو شخص حضور اکرم ﷺ کو اپنا نبی اور ہادی تسلیم کرتا ہے کیا وہ برداشت کر سکتا ہے کہ وہ ایسے جرم کا ارتکاب کرے جس کے باعث روز قیامت شفیع المذنبین ﷺ اس کا گریبان پکڑ کر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں پیش کریں۔اس سے بلیغ تر اسلوب ناممکن ہے ۔
٭ حضرت نافع حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ "آپ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے دنیا سے انتقال فرماتے ہوئے جو آخری بات فرمائی وہ یہ تھی کہ میں نے جن لوگوں کی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی ہے اس کی لاج رکھنا اور اس پر آنچ نہ آنے دینا۔"
(ابو یعلی محمد بن الحسین الفراء الحنبلی، الاحکام السلطانیہ ص 154)
کیا شان ہے اس نبی رحمت ﷺ کی کہ آخری وقت میں بھی مملکت اسلامیہ کی غیر مسلم رعایا کا اتنا خیال رہا اور اپنی امت کو وصیت کی اور اس طرف توجہ دلائی کہ کسی غیر مسلم پر زیادتی کر کے تم یہ نہ سمجھو کہ تم نے غیر مسلم پر صرف زیادتی کی ہے بلکہ درحقیقت تم نے میرے عہد کو توڑا ہے۔جس کے ایفاء کی میں نے ذمہ داری قبول کی تھی ۔اس کی سنگینی اور سزا کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ پہلی حدیث کے ذریعہ سے بھی مسلمانوں کی توجہ اس حقیقت کی طرف دلائی کہ اگر تم نے اسلامی مملکت کے کسی غیر مسلم شہری کی جان و مال عزت و آبرو پر دست درازی کی تو تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے مسلمان ہونے یا اعمال حسنہ کی وجہ سے پردہ پوشی کر لی جائے گی ۔ ہر گز نہیں بلکہ میں خود روز قیامت تمہارا گریبان پکڑ کر بارگاہ ایزدی میں تمہارے خلاف مقدمہ دائر کروں گا ! حضور نبی کریم روؤف الرحیم ﷺ کے خلفاء راشدین نے بھی اس حکم نامے کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھا ۔یہاں تک کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بھی جو آخرئ وصیت فرمائی اس کا تعلق بھی غیر مسلم رعایا سے تھا ۔آپ شدید زخمی ہیں زندگی کے آخری لمحے ہیں اس وقت آپ نے جو گفتگو فرمائی وہ بھی ملاحظہ فرمائیں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اسلامی سلطنت کی غیر مسلم رعایا کی جان و مال عزت و آبرو کی اسلام کے نزدیک کیا قدر ومنزلت ہے! قاضی امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :۔
" حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت جو گفتگو فرمائی وہ یہ تھی کہ میں اپنے بعد منصب خلافت کے لیئے مقرر ہونے والے خلیفہ کو رسول اللہ ﷺ کے ذمہ کی وصیت کرتا ہوں ۔ یعنی اہل ذمہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا ہے وہ اسے پورا کرے۔اگر ان پر بیرونی یا اندرونی دشمن حملہ آور ہو تو اپنی فوجوں سے ان کا دفاع کرے ۔اور ان پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالے جس کو اٹھانے کی ان میں طاقت نہ ہو۔"
(کتاب الخراج 149)
اسلام کا فوجداری اور دیوانی قانون مسلم و غیر مسلم کے لیئے بلکل یکساں ہے ۔یعنی اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کرے گا تو مسلمان ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے گی بلکہ اس سے اسی طرح قصاص لیا جائے گا جیسے مسلم مقتول کا لیا جاتا ہے ۔ چنانچہ ایک دفعہ عہد رسالت میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کر دیا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس قاتل کو قصاص میں قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ اس کا سر قلم کر دیا گیا ۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: "میں سب سے زیادہ اس بات کا حق دار ہوں کہ اپنی ذمہ داری کو پورا کروں۔"
(العنایہ شرح الہدایہ امام محمد بن محمود البابرتی)
اسی طرح سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے زمانے میں بھی ایک مسلمان نے ذمی کو قتل کر دیا مقتول کے بھائی نے قاتل کو معاف کر دیا۔ لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اطمینان نہ ہوا آپ نے اسے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ شاید ان لوگوں نے تمہیں ڈرایا ہو یا دھمکی دی ہو اور اس لیئے تم نے قصاص معاف کر دیا ہو۔ اس نے عرض کی اے امیر المؤمنین!میں نے اپنے مقتول بھائی کی دیت لے لی ہے اور میں نے اس کا خون معاف کر دیا ہے۔ تب آپ نے اس قاتل کو رہا کر دیا اور ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایاجس میں اسلام کے قانون کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ۔ فرمایا: " ان لوگوں نے اس لیئے ذمی کے معاہدے کو قبول کر لیا ہے تاکہ ان کا مال ہمارے مالوں کی طرح اور ان کے خون ہمارے خونوں کی طرح ہو جائیں "
(برہان شرح مواہب الرحمان)
یہ ہے اپنی غیر مسلم رعایا کے بارے میں اسلام کا طرز عمل ! کیا دنیا کا کوئی اور نظام اس کی ہمسری کا دعویٰ کر سکتا ہے ؟ جب مملکت اسلامیہ کے ہر شہری کی جان و مال عزت و آبرو کی ذمہ داری اسلامی حکومت کی ہے تو ہر محب وطن شہری پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق بیت المال میں حصہ داخل کرے تاکہ اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت اور اندرون ملک امن و امان برقرار رکھنے کے لیئے اخراجات برداشت کر سکے ۔مسلمان رعایا بیت المال میں جو رقم جمع کراتی ہے اسے زکوٰۃ و عشر کہتے ہیں ۔یہ زکوٰۃ و عشر مردوو عورت اور بچوں(بچوں پر صرف عشر) سب پر فرض ہے۔اور ذمی رعایا جو رقم بیت المال میں جمع کراتی ہے اسے جزیہ کہتے ہیں ۔یہ وہ جزیہ ہے جس کے بارے میں اسلام کے سیاسی حریفوں نے کہرام مچا کر رکھا ہوا ہے۔اسلام کے رخ زیبا کو شکوک و شبہات کی گرد سے غبار آلود کرنے میں اپنی ساری قوتیں صرف کر رہے ہیں ۔کبھی کہتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے ۔ جزیہ صرف غیر مسلموں سے وصول کیا جاتا ہے مسلمانوں سے نہیں کیا جاتا۔ ایک مملکت کا شہری ہونے کے ناطے دونوں کے ساتھ مساویانہ سلوک ہونا چاہیئے تھالیکن اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے ۔ کبھی ہتے ہیں کہ غیر مسلموں کی مالی مشکلات بڑھانے کے لیئے ان پر جزیہ کی ادائیگی ضروری قرار دی گئی ہے ۔ ان کے تمام اعتراضات کی تان اس پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ جزیہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ غیر مسلموں پر یہ مالی تاوان لگا کر انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ اسلام قبول کر لیں ! ان اعتراضات کا حقائق کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں :۔
کہا جاتا ہے کہ جزیہ صرف غیر مسلموں سے وصول کیا جاتا ہے مسلمانوں سے وصول نہیں کیا جاتا۔اور یہ ناروا سلوک ہے۔ اس کے بارے میں عرض ہے کہ یہ بلکل جھوٹا الزام ہے جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا مسلمان بھی اپنے کمائے ہوئے مال سے حصہ دیتے ہیں جسے زکوٰۃ و عشر کہا جاتا ہے ۔اور وہ مقدار میں جزیہ سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ نیز اگر مسلمانوں کے پاس مویشی ہوں بھیڑ ، بکریاں، گائے، بھینس، گھوڑے اور اونٹ تو ان کی بھی زکوٰۃ مسلمانوں کوا دا کرنی پڑتی ہے۔حالانکہ ذمی رعایا سے مویشیوں پر کسی بھی قسم کا لگان یا ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا۔ مسلمان عورت اگر صاحب نصاب ہو یا بچہ اگر اگر صاحب نصاب ہو تو اس کو بھی لازمی طور پر اپنے اموال کی زکوٰۃ و عشر دینا پڑتا ہے۔اس کے برعکس کسی ذمی عورت اور بچے سے کوئی جزیہ نہیں لیا جاتا۔خود ہی سوچیئے کہ اسلام نے مالی ذمہ داریوں کے نقطہ نظر سے ذمیوں کو کس قدر مراعات سے بہرہ ور کیا ہے۔ بجائے اس کے کہ ان حقائق کو سمجھا جاتا ، اعتراف کیا جاتا، اور اسلام کی فیاضی کا شکریہ ادا کیا جاتا، الٹا یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ اسلام غیر مسلم رعایا سے امتیازی سلوک روا رکھتا ہے۔اب خود ہی فیصلہ کریں کہ یہ الزام کس حد تک درست ہے ؟ دوسرا یہ الزام کے جزیہ ایک مالی تاوان ہےجس سے اسلامی حکومت اپنی غیر مسلم رعایا کو زیر بار کرتی ہےاور ان کو مالی دشواریوں سے دوچار کرتی ہےاس کے بارے میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اگر آپ جزیہ کی مقدار سے آگاہ ہو جائیں تو یہ الزام خود بخود کالعدم ہو جائے گا ۔
امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق غیر مسلموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دولت مند طبقہ متوسط طبقہ فقراء امراء پر اڑتالیس درہم سالانہ یعنی چار درہم ماہوار، متوسط طبقہ پر چوبیس درہم سالانہ یعنی دو درہم ماہوار اور تیسرے طبقہ پر بارہ درہم سالانہ یعنی ایک درہم ماہوار ! اب آپ خود سوچیئے کہ کیا یہ اتنا بڑا "بوجھ" ہے جو ان کے لیئے ناقابل برداشت ہے ؟؟؟ اور ان کو طرح طرح کی مالی پریشانیوں میں مبتلاء کرنے کا باعث بن سکتا ہے ؟یہ ایک نہایت قلیل اور حقیر سی رقم ہے جو قطعاََ بوجھ تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی آخری تہمت کہ جزیہ وصول کرنے کا مقصد یہ ہے کہ غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے ۔ اس کے سراسر کذب و افتراء ہونے میں کوئی شک و شبہہ نہیں ۔جس دین کا بنیادی اصول ہی ہو "لا اکراہ فی الدین" ، اس دین کے پیروکار کسی پر جبر کر کے اسے مسلمان بنانے میں کیوں اپنی طاقت اور وقت صرف کریں گے ؟کیا عقیدہ اتنی حقیر اور کم مایہ چیز ہے کہ اتنی قلیل سی رقم کی ادائیگی سے بچنے کے لیئے انسان اپنے پہلے عقیدے کو چھوڑ کر ایک نیا عقیدہ قبول کر لے جس کو اس کا ضمیر تسلیم نہیں کرتا ۔لوگ تو اپنے عقیدہ کے لیئے وطن چھوڑ دیتے ہین اپنی عمر بھر کی کمائی پر لات مار دیتے ہیں اور اپنے عقیدہ کی راہ میں سر کٹانا پڑے تو اس کو بھی بصد مسرت قبول کر لیتے ہیں ۔ عقیدہ اتنی سستی اور ارزاں چیز نہیں کہ لوگ اتنی حقیر اور قلیل رقم کے بدلے تبدیل کر لیں ۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ہر غیر مسلم پر جزیہ کی ادائیگی لازم نہیں بلکہ اس کے لیئے کچھ شرائط کاپایا جانا ضروری ہے ۔ اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط نہیں پائی جائے گی تو جزیہ ساقط ہو جائے گا۔ جزیہ ادا کرنے کی شرائط درج ذیل ہیں ٭ عاقل و بالغ ہو اور مرد ہو۔ ٭ جسمانی عوارض سے محفوظ ہو ۔ یعنی اپاہج، اندھا، پیر فرتوت اور دائم المرض نہ ہو۔ ٭ آزاد ہو ٭ ایسا مفلس نہ ہو جو بے روزگار ہو۔ ان شرائط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نابالغ، دیوانہ، بچہ ، عورت، اپاہج، اندھا، پیر فرتوت، دائم المرض، غلام اور بے روزگار سے جزیہ وصول نہیں کیا جاتایہ سب لوگ جزیہ کے حکم سے مستشنیٰ ہیں۔اگر جزیہ کا مقصد غیر مسلموں کو جبراََ مسلمان بنانا ہوتا تو ان سب پر ضرور جزیہ لگایا جاتا۔کم از کم نابالغ بچے اور عورت سے تو ضرور جزیہ وصول کیا جاتا کیونکہ نابالغ مسلمان بچے اور عورت سے بھی زکوٰۃ اور عشر لیا جاتا ہے ان تمام افراد کو مستشنیٰ کرنے سے کیا ان لوگوں کے اس الزام کی تردید نہیں ہو جاتی کہ جزیہ کا مقصد لوگوں کو جبراََ مسلمان بنانا ہے ؟ اور یہ صرف نظریات ہی نہیں بلکہ مسلمانوں نے اپنے عہد اقتدار میں ان احکامات پر عمل بھی کیا ہے ۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ اپنی کتاب الخراج میں فرماتے ہیں کہ : حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے جن غیر مسلم قوموں اور قبیلوں سے صلح کی ان کو صلح نامے لکھ کر دیئے ان میں یہ جملہ موجود ہے کہ "اگر کوئی بوڑھا کام کرنے کے قابل نہ رہے یا بدنی بیماریوں میں سے اسے کوئی بیماری لگ جائےیا پہلے وہ غنی تھا اب محتاج ہو گیا اور اس کے مذہب والے اس کو صدقہ و خیرات دینے لگیں، ان حالات میں اس سے جزیہ ساقط ہو جائے گا۔اور اس کا اور اس کے اہل و عیال کا خرچ بیت المال سے ادا کیا جائے گا جب تک سلطنت اسلامیہ میں سکونت پذیر رہے ۔" جزیہ کی اصل وجہ :۔ جزیہ کے متعلق اسلام کے سیاسی حریفوں کے پیدا کیئے شکوک و شبہات کے طشت ازبام ہونے کے بعد یہ بات تو بلکل واضح ہو چکی کہ جزیہ کا مقصد نہ تو غیر مسلم رعایا سے امتیازی سلوک ہے نہ انہیں زیربار لانا ہے اور نہ ہی زبردستی اسلام قبول کرانا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے ؟ مسلم اور غیر مسلم سے جو الگ الگ رقم وصول کی جاتی ہے اس کے مختلف ناموں کی وجہ یہ ہے کہ زکوٰۃ یا عشر جو مسلمانوں کے ذمہ واجب الادا ء ہےیہ اسلام کی دوسری عبادتوں کی طرح ہی ایک عبادت ہے۔اور غیر مسلم رعایا جو اسلام کو نہیں مانتی ان کی ادا کی گئی رقم کو زکوٰۃ یا عشر سے موسوم کرنا قرین انصاف نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام ان کو اپنے نظام عبادات پر عمل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جو اس کی سچائی کو مانتے ہی نہیں ۔یہ کتنی بے انصافی کی بات ہے کہ ان غیر مسلموں کو اسلام کے پیش کردہ نظام عبادات کا پابند بنایا جائے۔ اسلام کی عادلانہ روح اس چیز کو قبول نہیں کر سکتی۔ اس لیئے ان کے ذمہ جو واجبات ہیں ان کو الگ نام دیا گیا اور ان کی مقدار بھی کم رکھی گئی تاکہ مسلمانوں کے واجبات اور غیرم مسلم ذمیوں کے واجبات کے درمیان امتیاز باقی رہے۔ اس قدر عادلانہ اور انسانی حقوق کے پاسدار دین کی مخالفت کرنا سورج کو چراغ دکھانے اور چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے !
احادیث طیبہ کی اہمیت و حجیت کے متعلق چند قرآنی آیات:۔
٭ قُلْ اِنْ كُنْتُـمْ تُحِبُّوْنَ اللّـٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّـٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُـوْبَكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ
سورۃ آل عمران (31)
کہہ دو اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو تاکہ تم سے اللہ محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آیہ کریمہ میں اللہ عزوجل حضور اکرم ﷺ کی اطاعت کو ہی اللہ سے محبت کے دعویٰ کی واحد دلیل قرار دے رہاہے۔اور ساتھ ہی ان لوگوں کو اپنی محبوبیت اور گناہوں کی بخشش کا مژدہ سنا رہا ہےجو حضور اکرم ﷺ کی اتباع کرتے ہیں۔حضور اکرم ﷺ کی اتباع جو محبت خدا کے لیئے بھی ضروری ہے اور جو گناہوں کی بخشش کا بھی ذریعہ ہے، وہ حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے بغیر ممکن ہی نہیں کیونکہ اتباع کا مفہو م یہ ہے کہ:۔
"کسی کے فعل کی اتباع کا یہ معنی ہے کہ اس کے فعل کو عین اسی طرح کیا جائے جس طرح وہ کرتا ہے اور اسی لیئے کیا جائے کیونکہ وہ کرتا ہے"
(ضیاء القرآن جلد 1)
اتباع کی اس تشریح سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ حضور اکرم ﷺ نے جو کام کیئے ہیں وہ بعینہ اسی طرح کیئے جائیں اور اس لیئے کیئے جائیں کیونکہ آپ ﷺ نے کیئے۔ ہم مستشرقین اور ان کے شاگردوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا قرآن حکیم کے اس ارشاد پر احادیث طیبہ کی مدد کے بغیر عمل کرنا ممکن ہے ؟ قطعاََ نہیں ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ جو کام کیا کرتے تھے اور جس طرح کیا کرتے تھے اس کا پتا ہمیں صرف احادیث ہی سے ملتا ہے۔اس لیئے ہم قرآن حکیم کے اس ارشاد پر عمل کرنے اور اس ارشاد خداوندی میں جن انعامات کا تذکرہ ہے انہیں حاصل کرنے کے لیئے احادیث طیبہ کے محتاج ہیں۔
٭ قُلْ اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۖ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّـٰهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِـرِيْنَ
سورۃ آل عمران(32)
کہہ دو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو، پھر اگر وہ منہ موڑیں تو اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔
یہ آیت کریمہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ حضور اکرم ﷺ کی اطاعت کا بھی حکم دے رہی ہے۔اللہ عزوجل کی اطاعت کے حکم پر تو ہم قرآن مجیدکی تعلیمات کو اپنا کر عمل کر سکتے ہیں ۔ لیکن حضور اکرم ﷺ کی اطاعت تبھی ممکن ہے جب آپ ﷺ کے اقوال و افعال اور تقاریر کی تفصیلات ہمارے سامنے ہوں۔اور یہ تمام تفصیلات ہمیں صرف احادیث طیبہ ہی سے ملتی ہیں۔ اس لیئے قرآن حکیم کے اس حکم پر ہم احادیث طیبہ کے بغیر عمل نہیں کر سکتے۔
٭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّـٰهِ ۚ وَمَنْ يُّطِــعِ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ يُدْخِلْـهُ جَنَّاتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِـهَا الْاَنْـهَارُ خَالِـدِيْنَ فِيْـهَا ۚ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْـمُ
سورۃ النساء(13)
یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلے (اللہ) اسے بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
اس آیہ کریمہ میں اللہ عزوجل مسلمانوں کو اس حقیقت عظمیٰ سے آگاہ فرما رہا ہے کہ انسان کی اصل اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہواور دنیا سے کوچ کرنے کے بعد وہ جنت کی ابدی بہاروں سے بہرہ ور ہو۔ساتھ ہی اللہ عزوجل نے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا ہے کہ اس کامیابی کو حاصل کرنے کا واحد طریقہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت چونکہ احادیث طیبہ کے بغیر ممکن ہی نہیں اس لیئے مسلمانوں کے لیئے اپنی تاریخ کے کسی بھی دور میں احادیث طیبہ سے بے اعتنائی ممکن نہ تھی۔مستشرقین کی اکثریت زندگی کی مادی تشریح کی عادی ہے۔ان کے لیئے شاید یہ سمجھنا ممکن ہی نہیں کہ کس طرح مسلمان دنوی نعمتوں سے بے نیاز ہو کر اخروی زندگی کی کامیابی کے لیئے کوشاں تھے۔مسلمانوں نے کسی بھی مادی مفاد کے بغیر اپنی جائیدادیں، اپنا گھر بار، اپنے عزیز و اقارب اور اپنی اولاد سب کچھ چھوڑ دیا اور وقت آنے پر اپنی جان کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی ان قربانیوں کو مستشرقین کی عقل تسلیم نہیں کرتی اس لیئے وہ مسلمانوں کی تاریخ کو خلاف عقل قرار دینے سے بھی باز نہیں آتے۔وجہ یہ ہے کہ مستشرقین مسلمانوں کی ان بے مثال قربانیوں کی کوئی مادی توجیہ نہیں کر سکتے۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ان بے مثال قربانیوں کے پیچھے کوئی مادی مقصد تھا بھی نہیں ۔ وہ تو یہ قربانیاں اس کامیابی کو حاصل کرنے کے لیئے دے رہے تھے جسے ان کے رب نے فوز عظیم قرار دیا تھا۔ جب مسلمانوں کی ساری قربانیاں اس فوز عظیم کی خاطر تھیں تو پھر وہ اطاعت خدا اور اطاعت رسول ﷺ کیسے نظر انداز کر سکتے تھے جسے ان کے پروردگار نے اس کامیابی کے حصول کی اولین شرط قرار دیا تھا۔
٭ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
سورۃ المجادلہ( 9 )
مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکوکاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا۔ اور خدا سے جس کے سامنے جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہنا
اسلام مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے قومی امور باہم مشورہ سے طے کیا کریں لیکن یہ آیت کریمہ انہیں یہ بتا رہی ہے کہ باہم مشورہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ تم جو چاہو کروبلکہ مسلمانوں کے لیئے یہ ضروری ہے کہ جب وہ باہم کوئی فیصلہ کریں تو یہ فیصلہ گناہ، حدود سے تجاوز اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کے زمرے میں نہ آتا ہو۔احکام خدا کی خلاف ورزی گناہ ہے۔خدا کی مقرر کردہ حدود اے تجاوز عدوان ہےاور سنت رسول ﷺ کی مخالفت معصیت الرسول ہے۔ مسلمانوں کی پارلیمانی تنظیموں اور مشاورتی اداروں کو یہ آیہ کریمہ حکم دے رہی ہے کہ خبردار! قومی امور میں مشاورت کے وقت وہ مادر پدر آزادی کا مظاہرہ نہ کریں۔وہ قومی امور کے متعلق فیصلے کرتے وقت مغربی جمہوریت کی نقل نہ کریں جو کثرت رائے سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال تک قرار دے دیتی ہے۔ یہ آیہ کریمہ مسلمانوں کو متبنہ کر رہی ہے کہ تمہارا جو اجتماعی یا اکثریتی فیصلہ احکام خدا و رسول ﷺ کے خلاف ہو گا ناجائز ہو گا اور اس کے لیئے تمہیں روز قیامت جواب دہ ہونا پڑے گا۔مسلمان، خصوصاََ عہد صحابہ کے مسلمان اپنے معاملات ہمیشہ باہمی مشاورت سے طے کرتے رہے ہیں ۔ ان کی جب بھی باہمی مجلس مشاورت منعقد ہوتی تھی یقیناََ یہ آیہ کریمہ ان کی نظروں کے سامنے رہتی تھی اور انہیں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی ایسا مشورہ جو حکم خدا اور حکم رسول ﷺ کے منافی ہو گاوہ خدا کی نافرمانی کے زمرے میں آئے گا۔اگر احادیث طیبہ ان کے پاس محفوظ نہ ہوتیں تو انہیں کیسے معلوم ہوتا کہ وہ جو مشورہ کر رہے ہیں وہ فرمان رسول ﷺکے مطاق ہے یا مخالف؟ اس لیئے اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اگر مسلمانوں کے پاس ذخیرہ حدیث محفوظ نہ ہوتا تو وہ اس آیہ کریمہ پر عمل نہ کر سکتے
٭ قَاتِلُوا الَّـذِيْنَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّـٰهُ وَرَسُوْلُـهٝ وَلَا يَدِيْنُـوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّـذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَابَ حَتّـٰى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُـمْ صَاغِرُوْنَ
سورۃ التوبہ(29)
ان لوگوں سے لڑو جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور نہ اسے حرام جانتے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور سچا دین قبول نہیں کرتے ان لوگوں میں سے جو اہل کتاب ہیں یہاں تک کہ عاجز ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔
اس آیہ کریمہ میں اللہ عزوجل مسلمانوں کو اہل کتاب سے جنگ کرنے کا حکم دے رہا ہے اور اہل کتاب پر جو فرد جرم عائد کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیااور نہ ہی وہ دین حق کے پیروکار ہیں۔گویا مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ جو لوگ ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے جن کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا تو وہ ان کے خلاف جنگ کریں ۔اگر مسلمانوں کے پاس احادیث طیبہ کا مجموعہ نہ ہو تو انہیں کیسے پتا چلے کہ رسول اللہ ﷺ نے کن چیزوں کو حرام قرار دیا۔ اس لیئے احادیث طیبہ کے بغیر مسلمانوں کے لیئے اس آیہ کریمہ پر عمل کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
٭ وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ (7)
سورۃ الحشر
اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو، اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
یہ آیہ کریمہ حکم دے رہی ہے کہ امور حیات میں رسول اللہ ﷺ تمہیں جو کام کرنے کا حکم دیں اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دو اور جس چیز سے روکیں اس کے قریب بھی مت پھٹکو۔ حضور اکرم ﷺ کے اوامر و نواہی کا علم احادیث طیبہ کے بغیر ممکن نہیں ۔اس لیئے مسلمان قرآن حکیم کی اس آٰہ پر بھی عمل کرنے کے لیئے احادیث طیبہ کے محتاج ہیں۔
٭ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ سَـمِيْعٌ عَلِـيْمٌ
سورۃ الحجرات(1)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو، اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔
علامہ ابن جریر لکھتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے پیشوا یا امام کے ارشاد کے بغیر ہی امر و نہی کے نفاذ میں جلدی کرے تو عرب کہتے ہیں کہ :" فلاں یقدم بین یدی امامہ" یعنی فلاں شخص اپنے امام کے آگے آگے چلتا ہے۔علامہ ابن کثیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ :
"عن ابن عباس لا تقولوا خلاف الکتاب والسنۃ" کہ کتاب و سنت کی خلاف ورزی نہ کرو۔
حق تو یہ ہے کہ اللہ عزوجل اور اس کے نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کے بعد کسی کو بھی یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے رب اور رسول اللہ ﷺکے ارشاد کے علی الرغم کوئی بات کہے یا کوئی کام کرے۔جب انسان اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتا ہے تو وہ ساتھ اس امر کا بھی اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ آج کے بعد اس کی مرضی، اس کی خواہش اور اس کی ہر مصلحت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم پر بلا تامل قربان کر دی جائے گی۔یہ حکم اہل اسلام کی فقط انفرادی اور شخصی زندگی تک نہیں بلکہ قومی و اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں، سیاسی ، اقتصادی اور اخلاقی کو بھی محیط ہے۔نہ کسی مقنّنہ کو حق پہنچتا ہے کہ وہ کوئی ایسا قانون بنائے جو قرآن و سنت کے خلاف ہواور نہ ہی کسی عدالت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شریعت کے برعکس کوئی فیصلہ دے۔
یہ آیہ کریمہ مسلمانوں کو حکم دے رہی ہے کہ زندگی میں کوئی کام کرنے سے قبل یہ معلوم کر لو کہ آیا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اس کام کے کرنے کی اجازت بھی دی ہے کہ نہیں۔ہم مستشرقین کے شاگردوں سے وضاحت چاہتے ہیں کہ اگر مسلمان احادیث طیبہ کو نظر انداز کر دیں تو کیا وہ اس آیہ کریمہ پر عمل کر سکتے ہیں جو ہر کام سے قبل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا معلوم کرنے کا حکم دے رہی ہے۔
٭ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ حَتّـٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَـهُـمْ ثُـمَّ لَا يَجِدُوْا فِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا
سورۃ النساء(65)
سو تیرے رب کی قسم ہے یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں۔
اس آیہ کریمہ کا حکم صرف عہد نبوی ﷺ کے مسلمانوں ہی تک محدود نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے سب مسلمانوں کے لیئے ہے۔یہ آیہ کریمہ اعلان کر رہی ہے کہ جو لوگ اپنے امور حیات میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کو نہ مانیں یا فرمان رسول ﷺ پر عمل کرتے ہوئے ان کے دل تنگی محسوس کریں تو ان کا ایمان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ مومن کی ساری متاع حیات ہی ایمان ہے اسی قوت ایمانی کے سہارے وہ زندگی کی سختیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔جب اطاعت رسول ﷺ کے بغیر ایمان ہی معتبر نہیں تو پھر ایک مسلمان اطاعت رسول ﷺ کے بغیر دین کے باقی احکام پر کیسے عمل پیرا ہو سکتا ہے؟حضور اکرم ﷺ کے فیصلوں کا علم ہمیں احادیث طیبہ سے ملتا ہے ۔ اس لیئے ایک مسلمان کبھی بھی کسی بھی حالت میں بھی احادیث طیبہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔کیونکہ احادیث طیبہ کے مطابق ہی اس کا عمل اس کے مومن ہونے کی نشانی ہے اور احادیث طیبہ پر عمل کے بغیر بارگاہ خداوندی میں اس کا ایمان ہی غیر معتبر ہے۔
٭ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوٓا اَعْمَالَكُمْ
سورۃ محمد(33)
اے ایمان والو! اللہ کا حکم مانو اور اس کے رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔
یہ آیت کریمہ اللہ عزوجل کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا بھی حکم دے رہی ہے ۔اور ساتھ ہی تنبیہ بھی کر رہی ہے کہ خبردار! اگر تم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں کوتاہی کی تو تم اپنے اعمال ضائع کر بیٹھو گے ۔ اللہ عزوجل کی اطاعت تو قرآن حکیم کے احکامات پر عمل سے ہو جائے گی رسول اللہ ﷺ کی اطاعت احادیث طیبہ کے بغیر کیسے ممکن ہے ؟
٭ وَاِنْ تُطِيْعُوا اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ
الحجرات(14)
اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو تو تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بے شک اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
اس آیہ کریمہ میں اللہ عزوجل اپنی اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرنے والے کو یقین دہانی کرا رہا ہے کہ جو کوئی بھی اللہ عزوجل اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا اس کو اس کے اعمال حسنہ کا اجر ضرور ملے گا۔ اور اس کے اعمال ضائع نہ ہونگے۔یعنی اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت ہی اعمال کے قبول ہونے کی ضامن ہے۔
کسی بھی مذہب کے پیروکار جب مذہب کے حلقے میں داخل ہوتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس مذہب کا نجات اخروی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔گو کہ کوئی بھی سچامذہب دنیوی فوز و فلاح کو بھی نظر انداز نہین کرتا، لیکن مذہب کی نظر میں دنیوی زندگی چند روزہ ہوتی ہےاور حقیقی زندگی اخروی زندگی ہی ہوتی ہے۔اس لیئے ہر مذہب اخروی زندگی کی فلاح و کامرانی کے لیئے اپنے پیروکاروں کو اعمال صالحہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔اسلام ایک سچا مذہب ہے اور وہ اپنے پیروکاروں کو اعمال صالحہ کا حکم دیتا ہے۔اور ساتھ ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ اعمال صالحہ ہی روز قیامت کام آئیں گے۔ایمان کے بعد مومن کی سب سے بڑی متاع اعمال صالح ہیں۔یہ آیات ہمیں بتا رہی ہیں کہ اعمال صالحہ انہی لوگوں کے قبول اور مؤثر ہوں گے جن کی زندگیاں اطاعت خدا اور اطاعت رسول ﷺ کے رنگوں میں رنگی ہوں گی۔اور جو لوگ اطاعت رسول ﷺ کو چھوڑ کر صرف اطاعت خدا ہی کو کافی سمجھیں گے ان کے دفتر عمل روز قیامت انہیں نیکیوں سے خالی نظر آئیں گے۔وہ مسلمان جنہوں نے اپنی زندگیوں میں اعمال صالح کے علاوہ کوئی اور کمائی نہیں کی مستشرقین کے شاگردوں کو ان سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیئے کہ وہ کوئی ایسا کام کریں گے جس سے ان کے اعمال صالح برباد ہو جائیں۔
چونکہ اطاعت رسول ﷺ ہی مومن کے اعمال صالح کی حفاظت کی ضامن ہے اس لیئے مسلمان اطاعت رسول ﷺ کے معاملے میں غفلت نہیں برت سکتے ۔اور اطاعت رسول ﷺ کے لیئے وہ احادیث طیبہ کے محتاج ہیں۔لہذا احادیث طیبہ ان کے لیئے ایک بیش بہا سرمایہ ہیں۔اور اس سرمائے کی حفاظت کے لیئے ان کا ہر ممکن کوشش کرنا ایک قدرتی بات ہے۔
قرآن حکیم کی مذکورہ بالا آیات پر تو احادیث طیبہ کے بغیر عمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ لیکن احادیث طیبہ کی ضرورت اور اہمیت صرف انہی آیات قرآنی پر عمل کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ بے شمار قرآنی احکامات جو اللہ عزوجل کی طرف سے بندوں کے لیئے نازل کیئے گئے ، ان پر بھی حضور اکرم ﷺ کی قولی یا عملی راہنمائی لیئے بغیر عمل کرنا ممکن نہیں۔
وما علینا الاالبلاغ المبین
اللہ کی اطاعت کس لیے؟
اسلام اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کا نام ہے اور آدمی مسلمان بن ہی نہیں سکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کی, رسم و رواج کی, دنیا کے لوگوں کی, غرض ہر ایک کی اطاعت چھوڑ کر اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت نہ کرے.
اللہ اور اسکی رسول ﷺ کی اطاعت پر اس قدر زور کیوں دیا جاتا ہے؟
ایک شخص پوچھ سکتا ہے کہ کیا خدا ہماری اطاعت کا محتاج ہے ؟ نعوذ باللہ کہ وہ ہم سے اس طرح اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے ؟ کیا نعوذ باللہ خدا بھی دنیا کے حاکموں کی طرح اپنی حکومت چلانے کی خواہش رکھتا ہے کہ جیسے دنیا کے حاکم کہتے ہیں کہ ہماری اطاعت کرو اور اسی طرح خدا بھی کہتا کہ میری اطاعت کرو؟
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو انسان سے اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے وہ انسان ہی کی فلاح اور بہتری کے لیے کرتا ہے. وہ دنیا کے حاکموں کی طرح نہیں ہے. دنیا کے حاکم اپنے فائدے کے لیے لوگوں کو اپنی مرضی کا غلام بنانا چاہتے ہیں مگر اللہ تمام فائدوں سے بے نیاز ہے. اس کو ہم سے ٹیکس لینے کی حاجت نہیں. اسے کوٹھیاں بنانے اور موٹریں خریدنے اور ہماری کمائی سے اپنے عیش کے سامان جمع کرنے کی حاجت نہیں. وہ پاک ہے. کسی کا محتاج نہیں. دنیا میں سب کچھ اسی کا ہے. اور سارے خزانوں کا وہی مالک ہے. وہ ہم سے صرف اسلیے اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے کی اس میں ہماری بھلائی ہے. وہ نہیں چاہتا کی جس مخلوق کو اس نے اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ شیطان کی غلام بن کر رہے یا پھر کسی انسان کی غلام ہو یا ذلیل ہستیوں کو سامنے سر جھکائے. وہ نہیں چاہتا کہ جس مخلوق کو اس نے زمین پر اپنی خلافت دی ہے وہ جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتی رہے. اور جانوروں کی طرح اپنی خواہشات کی بندگی کر کے اَسفَلُ السّافِلِینَ میں جاگرے. اسلیے وہ فرماتا ہے کہ تم میری اطاعت کرو, اور ہم نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے جو روشنی بھیجی ہے اسکو لے کر چلو پھر تم کو سیدھا راستہ مل جائے گا. اور تم اس راستہ پر چل کر دنیا میں بھی عزت اور آخرت میں عزت حاصل کر سکو گے.
لَآ اِكْـرَاهَ فِى الدِّيْنِ ۖ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَّكْـفُرْ بِالطَّاغُ
وْتِ وَيُؤْمِنْ بِاللّـٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى لَا انْفِصَامَ لَـهَا ۗ وَاللّـٰهُ سَـمِيْعٌ عَلِـيْم(256)
اَللَّـهُ وَلِىُّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا يُخْرِجُـهُـمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ ۖ وَالَّـذِيْنَ كَفَرُوٓا اَوْلِيَآؤُهُـمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَـهُـمْ مِّنَ النُّـوْرِ اِلَى الظُّلُـمَاتِ ۗ اُولٰٓئِكَ اَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُـمْ فِيْـهَا خَالِـدُوْنَ (257)
دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے، بے شک ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے، پھر جو شخص شیطان کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیا جو ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے.
اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے، اور جو لوگ کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں، یہی لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ پاک ہی کی وہ ذات ہے جہاں سے روشنی مل سکتی ہے. اللہ علیم و بصیر ہے. وہ ہر چیز کی حقیقت کو جانتا ہے. وہی ٹھیک ٹھیک بتا سکتا ہے کہ حقیقی نفع کس چیز میں ہے اور حقیقی نقصان کس میں. وہ بے نیاز بھی ہے. اسکی اپنی کوئی غرض ہے ہی نہیں. اسے اسکی ضرورت ہی نہیں ہے کہ معاذ اللہ ہمیں دھوکا دے کر کچھ نفع حاصل کرے. اسلیے وہ پاک بے نیاز جو کچھ بھی ہدایت دے گا. بے غرض دے گا اور صرف ہمارے فائدے کے لیے دے گا. پھر اللہ تعالیٰ عادل بھی ہے. ظلم کا اس ذات پاک میں شائبہ تک بھی نہیں ہے. اسلیے وہ سراسر حق کی بنا پر حکم دے گا. اسکے حکم پر چلنے میں اس بات کا کوئی خطرہ نہیں ہے. کہ ہم خود اپنے اوپر یا دوسرے لوگوں پر کسی قسم کا ظلم کر جائیں.
کافی عرصہ سے میں بہت ہی میٹھی بنی ہوئی ہوں مطلب کہنے کا یہ ہے اصلاح ہی اصلاح لکھ رہی ہوں... لیکن اخلاقی و کردار کی اصلاح اب کچھ دن سے کچھ احباب کا تقاضہ تھا کہ کچھ خالصتاً اسلام کے لیے لکھا جائے خاص کر "منکرین احادیث" کے لیے لیکن اس پر ماشاء اللہ میرے بہن بھائی کام کر رہے ہیں ہیں اور بہترین کر رہے ہیں... تو اس پر بس اپنا ما فی الضمیر بیان کروں گی.... جب میں پڑھتی کہ فلاں صاحب علم صاحب نے اپنے علم کے زعم میں انکار کردیا.... بہت حیرت بھی ہوتی ہے مگر اب نہیں ہورہی کیونکہ ابھی ابھی میں ایک موضوع پڑھا منافق کا اور سچ بات یہ ہے کہ پڑھ کر ایک یہ بات واضح ہوگئ منافق اور منکرین احادیث دونوں یک صفات کے حامل ہیں......
کہ یہ صاحب علم و استدلال ان کے لیے صرف ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے... "علم و دولت سنبھالنا سب کے بس کی بات نہیں اوقات کیسے نہ کیسے دکھائی جاتی ہے دولت میں سدھ بدھ کھولتی ہے اور علم کے زعم میں شعور"
اور یہی حال اُن صاحبِ علم و دانشور منافق اسکالرز کاہے جیسا کہ
قرآن پاک کی روشنی میں منافقین کی تقریبا6 اقسام بیان کی گئیں ہیں
منافقین کی اَقسام
#پہلی_قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے برحق ہونے کے قائل تھے لیکن اس کی خاطر نہ اپنے مفادات کی قربانی کے لئے تیار تھے اور نہ مصائب و آلام کو برداشت کرنے کے لئے لہذا کچھ خود غرضی و مفاد پرستی اور کچھ بزدلی ان کے سچا مسلمان ہونے کے راستے میں حائل تھی۔
#دوسری_قسم ایسے منافقین کی تھی جو دل سے قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض سازش اور فتنہ و شر کے لئے اسلامی صفوں میں گھس آئے تھے۔ یہ اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے۔
#تیسری_قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے اقتدار و حکومت کے باعث مفاد پرستانہ خواہشات کے تحت اسلام سے وابستہ ہو گئے تھے۔ لیکن مخالفینِ اسلام سے بھی اپنا تعلق بدستور قائم رکھے ہوئے تھے تاکہ دونوں طرف سے حسبِ موقع فوائد بھی حاصل کر سکیں اور دونوں طرف کے خطرات سے بھی محفوظ رہیں۔
#چوتھی_قسم ایسے منافقین کی تھی جو ذہنی طور پر اسلام اور کفر کے درمیان متردد تھے۔ نہ انہیں اسلام کی حقانیت پر کامل اعتماد تھا اور نہ وہ اپنی سابقہ کفر یا جاہلیت پر مطمئن تھے وہ اوروں کی دیکھا دیکھی مسلمان ہو گئے تھے لیکن اسلام ان کے اندر راسخ نہیں ہوا تھا۔
#پانچویں_قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو حق سمجھے ہوئے دل سے اس کے قائل تو ہو چکے تھے لیکن پرانے اوہام و عقائد اور رسم و رواج کو چھوڑنے، دینی اور اخلاقی پابندیوں کو قبول کرنے اور اوامر و نواہی کے نظام پر عمل پیرا ہونے کے لئے ان کا نفس تیار نہیں ہو رہا تھا
#چھٹی_قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو توحید، احکامِ الٰہی اور آخرت وغیرہ پر ایمان لانے کی حد تک تو تسلیم کرتے تھے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور وفاداری سے گریزاں تھے۔ نہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و سیادت دل سے ماننے کو تیار تھے اور نہ آپ کی حاکمیت و شفاعت۔ اس میں وہ اپنی ہتک اور ذلت محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ وہ تعلق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ذاتِ ربانی تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔( بحوالہ. منافق کی علامات)
اب قرآن کی روشنی میں موجود علامات ان آج کے اسکالرز(غامدی، کاری واری وغیرہ) میں مل رہی ہے یہ وہ منافق ہیں جو اسلام کو جانتے بھی ہیں پہچانتے بھی ہیں مگر ان کا عَالمْ "منافق ِ وقت" ہونے کے ساتھ ساتھ "عَالمِ ابلیس" کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ابلیس بھی سب جانتا تھا "توحید" کو بھی "درجہ آدم علیہ السلام" کو بھی تب بھی منکرِ سجدہ ہوا تھا... اور منافقین کا بھی یہی عمل رہا سب کچھ جانتے تھے پہچانتے تھے مگر دل کو راسخ ایمان نہ کرسکے..... اور یہی حال ان ماڈرن اور نیم ماڈرن اسلامک اسکالرز کا ہے کہ
بے چارے اسلام کے دامن میں پناہ گزین بھی ہیں، اسلام سے استفادہ بھی لیتے ہیں، اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں، اپنے آپ کو پیشواِ اسلام کہتے ہوئے اسی اسلام کے نام پر پلتے بھی ہیں، اور پھر کم ظرفی، صفت ابلیس، بےایمانی و منافقت دکھاتے ہوئے اسی اسلام میں غلطیاں نکالنے لگتے ہیں..... کیا کہنے ان کے... اس اسلام سے روشناس کروانے والے نبی علیہ الصلاۃ التسلیم کی زبان مبارک سے ادا ہوئے کلمات کا انکار کر کے صاحب علم بن کر تعریفات سمیٹتے ہیں......
قرآن پاک میں ارشاد ہے
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا.
النساء، 4: 115
‘‘اور جو شخص رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہےo’’
یہ آیت ویسے تو بنیادی طور پر پر اجماع پر دلالت کرتی ہے آیتِ متذکرہ اور مندرجہ بالا احادیث سب اجماعِ اُمت کے واجب ہونے کی متقاضی ہیں۔ اس لیے اہلِ اسلام کے نزدیک متفقہ طور پر قرآن و سنت کے بعد ‘‘اجماع’’ کو تیسرے ماخذِ شرعی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اجماع اُمت یا مسلمانوں کے اکثریتی طبقے کے اتقاقِ رائے سے مراد امت کے جہلاء اور محض عوام ہی کے اکثریت کا بغیر دلیل کے کسی مسئلے پر مجتمع ہونا نہیں ہے۔ کیونکہ عوام کو ازخود مسائل کا صحیح علم بھی نہیں ہوتا جب اُمت کا اکثریتی طبقہ کسی دینی موقف پر متفق ہوتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد علماء راسخین اور مجتہدینِ اُمت کی تحقیق و تصریح یا اہلِ علم کا تعامل و تواتر ہی ہوتا ہے۔ اہلِ علم کے قبولِ عام کی بنا پر اس شرعی مؤقف کو امتِ مسلمہ کی اکثریت بھی قبول کر لیتی ہے۔
لہٰذا اس مسئلے پر ذہن با لکل صاف ہونا چاہیے کہ اُمّتِ مسلمہ کے اکثریتی طبقے کا اجماع ازخود واقع نہیں ہو جاتا بلکہ یہ اجماع ہمیشہ اہلِ علم و اجتہاد کی اکثریت کے نزدیک کسی مسئلے پر ‘‘تلقی بالقبول’’ کی بنا پر واقع ہوتا ہے یہی وجہ ہلے کہ اجماعِ امت یا سوادِ اعظم پر مبنی مذہب کو شریعت نے مذہبِ حق قرار دیا ہے۔
اجماعِ صحابہ یا صحابہ کے اکثریتی طبقے کا اتفاق رائے اس لیے آج بھی شرعاً حجت ہے کہ اس کی بنیاد بھی اہلِ علم صحابہ کا اجتہاد ہوتا تھا۔ جو ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں واقع ہوتا۔ جب اسے تمام یا اکثر صحابہ قبولِ عام ہو جاتا تو وہی اجتہاد، اجماع قرار پاتا۔ اور اسی کو سوادِاعظم کا مسلک کہا جاتا تھا تعاملِ صحابہ یا آثارِ تابعین کے متعدد نظائر و شواہد اسی طور واقع ہوئے ہیں۔
لہٰذا اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکثریتی طبقے کو قرآن و سنت کے خلاف اور گمراہ تصور کرنا دراصل اپنی آمریت کو قرآن و سنت یا اسلام کا نام دے کر دوسروں پر مسلط کرنے کی خواہش ہے۔ اس لیے اسے قرآن مجید نے منافقت قرار دیا۔
فلهذا دور حاضر کے قابل اسکالرز میرا کہنے کا مطلب ہے منافق ِ وقت، ان کی خود کی نظر میں دانشور ِ وقت سے کہنا یہ کہ
اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَيٰطِيْنِهِمْ قَالُوْا اِنَّا مَعَکُمْ.
کی تفسیر بغور مطالعہ فرمائیں(اپنی خود کی کی ہوئی تفسیر نہیں پڑھنی....) اور سورہ بقرہ کے دوسرے رکوع کو بھی پڑھ لیں..... اور پھر
اپنے نفس کو سمجھائیں جو آپ کو شیطان بن کر ملتا ہے اور آپ نفس کی تسکین یا دیگر جو بھی مفادات ہیں ان سے قاطع نظر دین اسلام کے لیے کام کریں نہ کہ
اپنے مفادات کی خاطر مسلمانوں کے ذہن و ایمان خراب کرنے کی کوشش کی جائے....
ابنِ تمیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں '' عبادت سے مراد اللہ تعالی کی تمام پسندیدہ و محبوب، ظاہری و باطنی اقوال و افعال ہیں ''
یاد رہے تمام پسندیدہ و محبوب ، چاہے ظاہری ہوں یا باطنی ''اقوال و افعال''
کچھ لوگوں کے نزدیک نماز ادا کرنا، روزہ رکھنا ، حج کرنا اور دیگر فرائض ادا کرنا ہی عبادت ہے جبکہ کچھ لوگ صرف '' انسانیت '' کی خدمت کرنے کو ہی عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔
عبادت یہ بھی نہیں ہے کہ دنیا سے کٹ کر کونوں کھدروں میں اللہ اللہ کی مالا جپی جائے بلکہ اپنی پوری زندگی کو اللہ اور اس کے حکم کے مطابق بسر کرنے کا نام عبادت ہے۔
ہماری عبادت کی انتہا یہ ہے کہ ہماری انگلی کی جنبش بھی اللہ کے مقرر کردہ حکم کے مطابق ہو۔ اپنے اختیار و اقدارکو اللہ کے حکم کے مطابق سر انجام دینا، جائیز و ناجائیز کی حدود کا خیال رکھنا، رستہ سے پتھر یا کانٹا ہٹا دینا، بیمار کی خدمت ، اس کے بندوں کی خدمت کرنا، کسی کی دل آزاری سے بچنا، غیبت و جھوٹ سے بچنا سب عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔
اپنا محاسبہ کرنے بیٹھے تو ہم نے صرف نماز، روزہ، زکوۃ اور دیگر فرائض کی ادائیگی کو عبادت سمجھ لیا ہے ، اور ان کی ادائیگی کے بعد سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض ادا ہوگیا جبکہ اصل عبادت تو یہ ہے کہ ہم دنیا ہر کام کو عبادت سمجھ کر سر انجام دیں خواہ اس کا تعلق مذہب سے ہو یا معاشرے سے، معشیت سے ہو یا سیاست سے ، انفرادی زندگی سے یا اجتماعی زندگی سے۔
گویا عبادت اس کیفیت کا نام ہے جو پوری زندگی کے اعمال و افعال پر محیط ہوتی ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں اسلام کو سمجھنے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے ۔ آمین
دورِ حاضر میں پردہ ایک فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ آج پردہ یا حجاب کی بہت سی صورتیں رائج ہیں جن میں سرِ فہرست سر کو اسکارف سے ڈھانپنا ہے۔ بعض خواتین سر تا پاوں عبایا یا برقع میں ملبوس ہوتیں ہیں حتی کہ ہاتھوں کو بھی دستانوں اور پیروں کو موزوں سے ڈھانپا ہوتا ہے۔ کچھ تو اسکن ٹائٹ زرق برق عبایا کو ہی پردہ گردانتی ہیں ، کچھ تو صرف دوپٹے سے سر ڈھانپ کر ہی مطمئن ہو جاتی ہیں کہ پردہ ہوگیا اور کچھ ایسی ہیں جن کے نزدیک حج و عمرہ کا پردہ ہی پردہ ہے اور بعض ایسی ہیں جن کے نزدیک '' پردہ تو صرف آنکھوں کا ہوتا ہے'' ۔
اس طرح حجاب یا پردے کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتیں ہیں ۔
اس مضمون میں ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ اصل پردہ کیا ہے؟
عام طور پر ستر اور حجاب میں فرق نہیں کیا جاتا حالانکہ یہ شریعت کی رو سے یہ مختلف ہیں ۔
حجاب اور ستر کے درمیان فرق :
الستر (مصدر) کا بنیادی معنی محض کسی چیز کو چھپانا ہے۔ اور ستر اور سترۃ ہر اس چیز کو کہتےہیں جس سے کوئی چیز چھپائی جائے۔ مقاماتِ ستر سے مراد انسانی جسم کے وہ حصے ہیں جنہیں شریعت نے دوسرے انسانوں سے ہر حالت میں چھپانا واجب قرار دیا ہے۔
مرد کا ستر اسکی ناف سے لیکر گھٹنے تک ہے ۔ اور عورت کا ستر پورا جسم ماسوائے شہرہ اور ہاتھوں کے ستر میں شمار ہوتیں ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہہ فرماتی ہیں کہ میں اپنے بھتیجے عبداللہ بن طفیل کے سامنے زینت کے ساتھ آئی تو آپ ﷺ نے اسے نا پسند فرمایا۔ میں نے کہا یہ تو میرا بھتیجا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اپنے جسم میں سے کچھ ظاہر کرے سوائے چہرے کے اور سوائے اس کے یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنی کلائی پر اس طرح ہاتھ رکھا کہ آپﷺ کی گرفت کے مقام اور ہتھیلی کے درمیان صرف ایک مٹھی بھر جگہ باقی تھی۔
حجاب دو چیزوں کے درمیان کسی ایسی حائل ہونے والی چیز کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں چیزیں ایک دوسرے سے اوجھل ہوجائیں۔
ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ اور جب تمہیں (نبی کی بیویوں سے) کوئی چیز مانگنا ہو تو پردے کے باہر سے مانگو۔ سورہ احزاب ۳۳
گویا حجاب ستر کے علاوہ اضافی چیز ہے جس کا تعلق غیر محرم یا اجنبی مرد سے ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ستر فی نفسہ ضروری ہے چاہے کوئی موجود ہو یا نہ ہو جبکہ حجاب فی نفسہ ضروری نہیں جب تک دیکھنے وال غیر محرم موجود نہ ہو۔
اللہ تعالی نے سورہ احزاب اور سورہ نور کے ذریعے مسلمانوں کو احکامِ ستر و حجاب سے روشناس کروایا۔
سورہ احزاب کی آیت 59 میں '' جلباب'' اور سورہ نور کی آیت 31 میں '' خمر '' کا ذکر ہوا ہے۔
جلباب کہتے ہیں بڑی چادر یا عبایا سے مشابہ چیز کو جو پورے جسم کو ڈھانپ لے جبکہ خمر کے معنی چھوٹے دوپٹے کے ہیں جو کہ عورتیں گھروں میں اوڑھا کرتیں تھیں۔
سورہ احزاب آیات ٣٣ میں ارشاد باری تعالی ہے :
وَقَرْنَ فِىْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَـرَّجْنَ تَبَـرُّجَ الْجَاهِلِيَّـةِ الْاُوْلٰى ۖ وَاَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكَاةَ وَاَطِعْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ ۚ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّـٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْـرًا
اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو، اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو، اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اس گھر والو تم سے ناپاکی دور کرے اور تمہیں خوب پاک کرے۔
اس آیت میں پردے احکامات سب سے پہلے نبی ﷺ کے گھرانے کو دئیے گئے کیونکہ آپ ﷺ کو اسوہ حسنہ بنا کر پیش کرنا مقصود تھا۔ اور ویسے بھی اصلاح کا عمل دوسروں کی بجائے اپنے آپ سے شروع کرنا زیادہ موثر ہوتا ہے۔ اس آیت میں تنبیہہ کر دی گئی کہ زمانہ جاہلیت کی طرح اپنی زینت و آرائش نہ دکھاتی پھرو۔ اس کے لیے خاص لفظ استعمال کیا گیا ہے تبرج۔۔
تبرج کیا ہے ؟؟
تبرج میں پانچ چیزیں شامل ہیں۔
اپنے جسم کے محاسن کی نمائش۔
زیورات کی نمائش اور جھنکار۔
پہنے ہوئے کپڑوں کی نمائش۔
رفتار میں بانکپن اور نازو ادا۔
خوشبویات کا استعمال ۔
ان سب باتوں سے منع فرما دیا گیا۔
سورہ احزاب کی آیت 59 میں چہرے کا پردہ کرنے کا حکم دیا گیا :
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِْهِنَّ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا
اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں، یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
اب جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ '' ید نین علیھن من جلا بیبھن '' سے مراد چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکالنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد چادر کو اپنے جسم کے گرد اچھی طرح لپیٹنا ہے، تو ان کے لیے عرض یہ ہے کہ لغوی لحاظ سے ''دنی یدنی'' کا معنی قریب ہونا بھی ہے اور جھکنا اور لٹکنا بھی۔ '' ادنی ''کے معنی ہیں قریب کرنا ، جھکانا اور لٹکانا۔۔۔ اب اگر قرآن کے الفاظ ہوتے'' ادنی الیھن من جلا بیبھن'' تو ان میں اس بات کی گنجائش ہوتی کہ اس کے معنی اپنی چادروں کو اپنے جسموں کی طرف قریب کرلیں یا بکل مار لیں ۔۔ لیکن قرآن کے الفاظ ہیں'' یدنین علیھن من جلابیبھن'' جس کا معنی لا محالہ کسی چیز کو لٹکانا ہی ہو سکتا ہے ۔ ادنی کے ساتھ علی کا صلہ اس میں ارخاء یعنی اوپر سے لٹکانے کے معنوں میں مخصوص کر دیتاہے۔ جب لٹکانا یا نیچے کرنا معنی ہو تو اس کا مطلب چہرہ کا گھونگھٹ نکالنا ہی ہوگا۔
اس ضمن میں واقعہ افک سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہہ کا بیان ہے جو کہ بخاری میں مذکور ہے۔۔۔ میں اسی جگہ بیٹھی رہی اتنے میں میری آنکھ لگ گئی۔ اتنے میں ایک شخص صوان بن معطل اسلمی اس مقام پر آیا اور دیکھا کہ کوئی سو رہا ہے۔ اس نےمجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کا حکم اتنے سے پہلے اس نے مجھ کو دیکھا تھا۔ اس نے مجھ کو پہچان کر انااللہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو میری آنکھ گھل گئی تو میں نے اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔ ۔۔ الفاظ ہیں'' فخمرات وجھی بجلبابی''۔۔۔ اگر چہرہ خارج ہے تو کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم نے اس کا مطلب غلط سمجھا تھا؟
بعض افراد چہرہ اور ہاتھوں کے استثناء کے لیے سورہ نور کی آیت 31 وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْـهَا پیش کرتے ہیں لیکن یہ توجیہہ بھی اس صورت میں غلط ثابت ہوتی ہے کہ اس آیت میں حجاب کی رخصتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے نا کہ حجاب کی پابندیوں کا ۔۔۔ یعنی کن محرم رشتوں سے حجاب کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس زینت سے از خود ظاہر ہو جائے۔ گویا اللہ تعالی عورتوں کو تکلیف میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے کہ اگر بڑی چادر یا برقعہ کے باوجود کسی اتفاق سے عورت کی زینت ظاہر ہو جائے تو اسمیں مضائقہ نہیں ۔ صحابہ اور تابعین کی اکثریت اس پر متفق ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر عورت کے چہرے کا پردہ ضروری نہیں ہے تو اس حکم کی کیا ضرورت رہ جاتی تھی کیونکہ اس آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ گھر کے باہر کھڑے ہو کر چیز مانگ لیا کرو بلکہ کہا ہے من وراء حجاب یعنی حجاب کے پیچھے سے مانگا کرو۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ترجمہ : عورت احرام کی حالت میں نہ نقاب اوڑھے اور نہ دستانے پہنے۔ نسائی
اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پردے کے حکم کے بعد عورتوں نے اپنے منہ اور ہاتھوں کو چھپانا شروع کردیا تھا جبھی تو حالتِ احرام میں استثنی کا حکم جاری ہوا۔ اگر چہرے کے پردے کا رواج نہ ہوتا تو اس حکم کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی ۔
'حضرت عائشہ رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے'وہ فرماتی ہیں کہ(حج کے دوران) قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتی تھیں، پس جب وہ ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم اپنے جلباب اپنے سر سے اپنے چہرے پر لٹکالیتی تھیں اور جب وہ قافلے آگے گزر جاتے تو ہم اپنے چہرے کو کھول دیتی تھیں۔ سنن ابی داود اگر چہرے کے پردے کا رواج نہ ہوتا تو ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟؟
اس کے ساتھ ساتھ شادی کے لیے عورت کو پسند کرنے کے لیے اسے دیکھنے کی اجازت دی گئی۔۔ اگر چہرے کا پردہ نہ ہوتا تو اس اجازت کی بھی ضرورت نہیں رہ جاتی تھی۔
امہات المومنین رضی اللہ وعنہا چہرہ کا پردہ کرتی تھی حالانکہ وہ تمام مسلمانوں کی مائیں تھیں اور نبی ﷺ کی وفات کے بعد ان سے کوئی نکاح بھی نہ کر سکتا تھا۔ اگر ان کو چہرے کے پردے استثنی نہیں تھا تو پھرعام مسلمان عورتوں کو کیونکر ہو سکتا ہے؟
اگر اس ضمن میں مختلف آئمہ اکرام رحمتہ اللہ کے اقوال کا جائیزہ لیا جائے تو اگرچہ چہرے کے پردے کے بارے میں اختلافات موجود ہیں لیکن وہ صرف اس حد تک ہیں کہ چہرے کا پردہ لازم ہے یا شریعت کی رو سے موجب ثواب یا مسنون ہے۔ پردے سے انکار کسی کو بھی نہیں ہے اور جو فقہا چہرے کے پردے کو لازمی قرار نہیں دیتے وہ بھی یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ چہرے یا ہتھیلی پر کوئی زینت کا سامان نہ ہو۔ اگر ہو تو اس کا چھپانا واجب قرار دیا گیا ہے۔
احکامِ ستر و حجاب کی استثنائی صورتیں درج ذیل ہیں :
کسی قسم کے اتفاقیہ امر میں احکامِ ستر و حجاب لاگو نہ ہونگے۔ مثلاََ ہوا سے چہرہ ننگا ہو جانا یا کسی پر نظر پڑنا یا اتفاقاََ کسی مرد کا سامنے آ جانا۔
کسی لازمی ضرورت جیسے رشتہ کے لیے چہرہ دیکھنے کی ممانعت نہیں ۔ یا علاج کروانے کے لیے اپنے جسم کا کوئی حصہ عریاں کیا جاسکتا ہے۔
کسی اضطراری حالت مثلاََ پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدور کرنے کی صورت میں پردے نہ کرنے کی گنجائش ہے، کسی حادثے کی صورت میں یا جنگ کی صورت میں بھی پردہ نہ کرنے پر مواخذہ نہیں ۔
اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حالتِ احرام کا پردہ ہی اصل پردہ ہے تو ان کے لیے عرض یہ ہے کہ بعض مرتبہ شریعت کے احکام زمان اور مکان کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں ۔ جیسے عرفہ میں ظہر و عصر کا ایک ساتھ پڑھنا اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ عشاء کے وقت ادا کرنا ۔ اسی طرح شریعت نے دورانِ احرام پردے میں تخفیف کردی کہ عورت چہرے پر نقاب نہ ڈالے بلکہ کھلا رکھے ۔ جیسا کہ بخاری کی حدیث ہے کہ البتہ کسی نامحرم کے سامنے آنے پر وہ اپنے چہرے کو چھپا لے تاکہ اس جگہ بدنگاہی اور بے پردگی نہ ہو۔
قرآن و سنت کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا قطعاََ دشوار نہیں ہے کہ '' حجاب یا پردہ '' کی اصل صورت کیا ہے اور کن حالتوں میں اس سے استثنی ہے نیز ہم جو پردہ کرتے ہیں وہ کس حد تک اسلامی احکامات سے ہم آہنگ ہے۔
اللہ تعالی ہمیں دینِ اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے ۔ آمین
استفادہ
قرآن پاک
احکام ستر و حجاب ۔۔ مولانا عبدالرحمان کیلانی
آج کل مختلف فورمز پر یہ بات تواتر سے پڑھنے کو مل رہی ہے کہ '' مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے '' اس کے ساتھ یہ بیان دینے والے اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ '' اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔'' لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا خیال یہ بھی ہے کہ '' جب کسی انسان نے کلمہ پڑھ لیا وہ مسلمان ہے، گناہ ثواب جزا سزا سب کچھ اللہ اور اس انسان کا معاملہ ہوگیا۔ ''
ہے نا دلچسپ بات ہے کہ ایک ہی لمحہ میں '' اسلام '' کو مکمل ضابطہ حیات کہا جاتا ہے اور دوسری ہی لمحہ اس کی نفی کی جاتی ۔
آج کے دور کر بلا شبہ دورِ فتن کہنا مناسب ہے۔ آئے روز نت نئے نظریات سامنے آتے ہیں جو عقل کو دنگ کر دیتے ہیں۔۔۔
لیکن جب ان کی گہرائی کو جانچا جائے تو ہم آسانی سے پتا چلا سکتے ہیں کہ یہ کوئی نیا نظریہ نہیں بلکہ ان کے ڈانڈے پرانے نظریات سے جا ملتے ہیں۔
کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے اصول و ضوابط اور اخلاقی اقدار بنیاد کی حثیت رکھتے ہیں ۔ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کسی بھی لحاظ سے مکمل قرار نہیں دئیے جا سکتے کہ یہ انسان کی فطرت کا مکمل احاطہ نہیں کرتے، ایسے میں مذہب ہی ہے جو ایک فرد کو زندگی گزارنے کے رہنما اصول و ضوابط فراہم کرتا ہے اس کے اندر احساسِ ذمہ داری پیدا کرتا ہے اور اسے اس کےحقوق کے ساتھ ساتھ فرائض یاد دلاتا ہے کیونکہ مذہب صرف اصول و ضوابط یا قانون کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے کردار و عمل کو مذہب کے مطابق ڈھال لینے کا نام ہے۔
ہمارے سامنے ایسے معاشروں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے مذہب کو '' ذاتی '' معاملہ کہا لیکن کیا ان معاشروں کو مثالی کہا جاسکتا ہے؟؟؟
ان معاشروں کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کچرے کے ڈھیر کے اوپر خوشنما قالین ڈال دیا جائے ۔
'' تھیوکریسی '' کے ردِ عمل میں اپنایا جانے والا نظریے سیکولر ازم کے بانی ہولی اوک کے مطابق ''سیکولر ازم نام ہے اس ضابطے کا جسکا تعلق دنیا سے متعلق فرائض سے ہے ، جسکی غایت خالصتاََ انسانی ہے اور یہ بنیادی طور پر ان افراد کے لیے ہے جو الہیات کو نامکمل یا ناکافی ، ناقابلِ اعتبار یا فضول اور بے معنی سمجھتے ہیں۔''
دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیکولر ازم اس وقت بطور نظریہ سامنے آتا ہے جب انسان مذہب سے غیر متعلق ہونا شروع کردے۔ اسے مذہب میں اپنے مسائل کا حل نہ ملے یا پھر وہ یہ سمجھے کہ مذہبی عقائد ناقابلِ یقین ہیں ۔
اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے امریکی مفکر رابرٹ گرین نے سیکولر ازم کو '' انسانیت کا مذہب قرار دیا ۔''
اسی سیکولر ازم کی بنیاد پر قائم جمہوری حکومتیں جن کے نزدیک صرف اپنے ملک میں بسنے والے انسان کو ''انسانیت'' کے پیمانے پر پورا اترتے ہیں ، اور باقی دنیا کے انسان اس پیمانے سے خارج ہیں جس کا ثبوت بوسنیا، شام، فلسطین، کشمیر، برما میں ہونے والے وحشیانہ مظالم ہیں ۔ پوری دنیا کو ''انسانیت'' کا درس دینے والوں کے ہی ہاتھوں انسانیت تڑپ ، سسک اور مظالم کا شکار ہے۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں؟؟؟
اسلام اس دنیا کو آخرت کی تیاری کے لیے '' کھیتی '' قرار دیتا ہے جس کا بدلہ فرد کو بعد از موت ملے گا۔ اسلیے مسلمانوں کے ہاں دین اور دنیا میں کوئی تفریق نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو ایسے ہر کام سے منع کیا گیا ہے جس کے لیے اسلامی شریعت اجازت نہیں دیتی اور اسی طرح حکومت کے معاملات بھی کسی کی شخصی خواہش کے مطابق نہیں چلائے جاتے بلکہ اللہ کے احکامات کے مطابق چلائے جاتے ہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو انسان کی معاشرتی، اخلاقی ، معاشی، سیاسی ہر پہلو سے رہنمائی کرتا ہے۔
اب یہ بہت عجیب بات ہوگی کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہو لیکن اس کا اطلاق صرف فرد کی ذات تک محدود رہے اور وہ زندگی کے باقی شعبوں کے لیے '' سیکولر ازم '' کا سہارا لے۔۔۔۔
مثل مشہور ہے جو زہر سے نہ مرے اسے شہد سے مارو۔۔۔ آج اسلام کے مکمل ضابطہ حیات قرار دینے والے جب اس میں تڑکہ لگاتے ہیں کہ '' مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے '' تو اسکا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ سیکولر ازم کی کی زہریلی گولی کو انسانیت کے شہد میں لپیٹ کر کھانے کا کہہ رہے ہیں۔
آج اگر کچھ مفاد پرست عناصر مسجد منبر کے تقدس کا خیال کئے بغیر مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کر رہے ہیں تو اس کے ذمہ دار '' دینِ اسلام '' ہر گز نہیں بلکہ یہ مفاد پرست عناصر ہیں جو اپنی ذاتی مفاد اور اسلام دشمنوں کی ایما پر ایسا کر رہے ہیں۔
دین اسلام سے زیادہ انسانوں کی عظمت اور انسانیت کی بھلائی اور محبت کی بات کرنے والا کون ہے؟؟
"سورہ المائدہ کی آیت ۳۲ ترجمہ : 'ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل کرنے کے مترادف ہے۔''
ضرورت صرف اس کی ہے کہ ہم اسلام کو اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کا حصہ بنائیں۔
اللہ تعالی ہمیں اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے ۔ آمین
اعتراض : قرآن حکیم میں جدت کا فقدان ہے
جواب:۔ مستشرقین نے قرآن حکیم کے متعلق یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کی تعلیمات میں کوئی چیز نئی نہیں ۔ مستشرقین میں عام طور پر یہ فقرہ مشہور ہے کہ " قرآن حکیم میں جو کچھ جدید ہے وہ صحیح نہیں اور جو صحیح ہے وہ جدید نہیں "
مستشرقین کہنا یہ چاہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے قرآن حکیم کی جو تعلیمات یہود و نصاریٰ سے اخذ کی ہیں وہ صحیح ہیں لیکن جو باتیں آپ ﷺ نے اپنی طرف سے پیش کی ہیں وہ صحیح نہیں ۔وہ اپنے اسی نظریے کو ذہن میں رکھ کر قرآن حکیم کی تعلیمات کا منبع تلاش کرنے کے لیئے عہدنامہ قدیم و جدید کا مطالعہ کرتے ہیں۔جب انہیں قرآن حکیم کی کوئی بات سابقہ صحف سماویہ کے مطابق نظر آتی ہے تو بڑی خوشی سے اعلان کرتے ہیں کہ محمد ﷺ نے یہ بات فلاں جگہ سے اخذ کی ہے تاکہ قاری یہ محسوس کرے کہ قرآن حکیم اللہ کا نازل کردہ کلام نہیں بلکہ محمد ﷺ نے دیگر کتب سماویہ سے نقل کر کے اس کو تصنیف کیا ہے۔مستشرقین صحف سماویہ کے علاوہ زمانہ جاہلیت کے عربوں کی روایات، مکی زندگی کے رسوم و رواج اور جاہلی عرب شاعری میں بھی ایسے مقامات تلاش کرتے ہیں جن کو قرآن حکیم کا منبع قرار دیا جاسکے۔
مستشرقین سے ایک سوال ہے کہ انہوں نے یہ اصول کہاں سے حاصل کیا کہ سچ وہی ہوتا ہے جو نیا ہو یا دین وہی سچا ہوتا ہے جو اپنے سے پہلے انسانی معاشرے میں موجود تمام عقائد، نظریات، روایات اور معمولات کو یکسر ملیامیٹ کر دے ۔اور پھر ان کے کھنڈروں پر عمارت نو تعمیر کرے؟ کیا اصلاحی تحریکیں وہی سچی ہوتی ہیں جو جو معاشرے کی ہر قدر کو ،صحت و سقم کی تمیز کے بغیرملیامیٹ کر دیں اور پھر نظریات، اخلاق، اقدار اور روایات کا وہ مجموعہ پیش کریں جس کی پہلے کہیں نظیر نہ ملتی ہو؟
یہ بات سچ ہے کہ اسلام کی بہت سی باتیں ایسی ہیں جو نئی نہیں مگر یہ بات بھی غلط ہے کہ اسلام نے یہ سب کسی انسانی ذریعے سے حاصل کیں۔ اسلام نے یہ دعوی کب کیا ہے کہ جو تعلیمات اس نے پیش کیں وہ اس سے پہلے کسی نبی یا رسول نے پیش نہیں کیں؟ اسلام کا تو دعوی ہی یہی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضور اکرم ﷺ تک تمام انبیاء و رسل عظام ایک ہی پیغام کے علمبردار رہے۔ حق ناقابل تغیر ہوتا ہے وہ زمانے کے بدلنے سے نہیں بدلتا۔جو بات حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں حق تھی وہی بات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں بھی حق تھی ۔جو بات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں حق تھی وہی بات حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں بھی حق تھی ۔چونکہ تمام انبیاء کرام علیھم السلام حق ہی کے علمبردار تھے تو ان کے پیغامات میں موافقت ایک قدرتی بات ہے۔
دور حاضر میں موجودقرآن کے علاوہ دیگر صحف سماویہ میں جو تضاد نظر آتا ہے وہ اس لیئے نہیں کہ پیغمبران کرام ایک دوسرے سے متضاد پیغامات لے کر آئے تھے بلکہ اس لیئے ہے کہ یہود و نصاریٰ نے صدیوں اپنے صحائف کو بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے۔اگر آج بھی اصل انجیل، زبور اور تورات مل جائیں تو ان کی بنیادی تعلیمات اور قرآن کی بنیادی تعلیمات میں سرمو فرق نظر نہ آئے۔تفصیلات کے معمولی اختلافات زمانے کے تقاضوں کے مطابق ضروری ہیں۔اور ان میں عین حکمت ہے۔
قرآن حکیم تو بار بار اعلان فرما رہا ہے کہ وہ باقی صحف سماویہ کی تصدیق کرنے والا ہے۔اگر اس کی تعلیمات اور اس سے قبل صحف سماویہ کی تعلیمات میں فرق ہو تو یہ ان کی تصدیق کیسے کر سکتا ہے؟ اسلام میں تو ایمان بالرسات اور ایمان بالکتب کا مطلب ہی یہی ہے کہ رسالت کے پورے ادارے اور الہامی کتابوں کے مکمل سلسلے پر ایمان لایا جائے۔کوئی بھی مسلمان صرف حضور اکرم ﷺ کی رسالت پر ایمان لا کر ایمان بالرسالت کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا بلکہ اسے دیگر تمام انبیاء و رسل پر ایمان لانا پڑتا ہے ۔ اسی طرح ایمان بالکتب کے لیئے صرف قرآن پر ایمان لانا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ مسلمان مجملاََ یہ عقیدہ رکھے کہ سابق انبیاء و رسل پر جو نازل ہوا وہ بھی برحق ہے۔گویا اسلام کے ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتب کاتقاضا ہی یہی ہے کہ تمام انبیاء و رسل ایک ہی دین کے علمبردار ہوں اور تمام کتب سماوی کا منبع ایک ہی ہو۔
اگر مستشرقین کے اعتراض کے مطابق کسی کتاب کے منز ل من اللہ ہونے کا یہ معیار ہو کہ اس کی تعلیمات کسی دوسری کتاب کی تعلیمات سے مشابہ نہ ہوں تو ایمان بالکتب ممکن ہی نہیں رہتا۔اس صورت میں تو ایمان بالکتب کے لیئے یہ نئی اصطلاح استعمال کرنی ہو گی کہ تمام انبیاء و رسل کے پیروکار صرف ایک ہی کتاب پر ایمان رکھیں۔اس سے نہ صرف مسلمان متاثر ہوں گے بلکہ خود مستشرقین کے لیئے بھی مسئلہ بن جائے گا۔
ہم مستشرقین سے پوچھتے ہیں کہ اگر انہیں اناجیل کی کوئی بات تورات سے مشابہ نظر آ جائے تو کیا وہ اس بنا پر اناجیل کے کلام الٰہی ہونے کا انکار کر دیں گے اور اسے تورات سے نقل شدہ کتاب قرار دیں گے ؟؟؟
اگر نہیں اور یقیناََ نہیں تو کیا وجہ ہے کہ انجیل کی تعلیمات کی سابقہ کتب سے مشابہت کے باوجود اس کے کلام الٰہی ہونے پر کوئی حرف نہ آئے اور اگر قرآن میں کوئی بات سابقہ صحف سماوی سے مشابہ نظر آ جائے تو اس کے کلام الٰہی ہونے کا انکار کر کے اسے سابقہ کتب کی نقل قرار دے دیا جائے ؟؟؟
ہمارا ایمان ہے کہ تمام کتب جو انبیاء و رسولوں پر نازل ہوئیں سب برحق تھیں سب کا پیغام اور تعلیمات ایک تھیں ۔ ان میں سے کوئی بھی کتاب کسی دوسری کتاب کی نقل نہ تھی ۔بلکہ ہر کتاب بذریعہ وحی اللہ عزوجل نے اپنے ایک برگزیدہ بندے اور رسول پر نازل فرمائی تھی۔
مستشرقین اگر ایک اصول بنا کر اسے تمام کتابوں پر لاگو کر دیں تو انہیں اعتراض کرنے کا قطعاََ کوئی موقع نہ ملے۔مگر عجیب بات یہ ہے کہ قرآن حکیم پر اعتراض کرنے کے لیئے مستشرقین جو اصول وضع کرتے ہیں ان اصولوں سے وہ ان کتابوں کو مستشنٰی سمجھتے ہیں جو ان کے عقیدے کے مطابق منزل من اللہ ہیں۔یہ دوغلی پالیسی نہ علم ہے نہ معروضیت ۔ اس لیئے مستشرقین کے یہ جانبدارانہ اور یک طرفہ فیصلے قطعاََ درخو اعتناء نہیں ۔
قرونِ وُسطیٰ میں سائنسی علوم کا فروغ
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے تاریخِ اِنسانیت میں علم و فن، فکر و فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی اور ثقافت کے نئے اسالیب کا آغاز ہوا اور دُنیا علمی اور ثقافتی حوالے سے ایک نئے دَور میں داخل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازِل ہونے والے صحیفۂ اِنقلاب نے اِنسانیت کو مذہبی حقائق سمجھنے کے لئے تعقّل و تدبّر اور تفکّر و تعمق کی دعوت دی۔ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ (تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟)، اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ (وہ غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟) اور اَلَّذِیْنَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (جو لوگ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں) جیسے الفاظ کے ذریعے اللہ ربّ العزت نے اپنے کلامِ برحق میں بار بار عقلِ اِنسانی کو جھنجھوڑا اَور اِنسانی و کائناتی حقائق اور آفاقی نظام کو سمجھنے کی طرف متوجہ کیا۔ اِس طرح مذہب اور فلسفہ و سائنس کی غیریت بلکہ تضاد و تصادُم کو ختم کر کے اِنسانی علم و فکر کو وحدت اور ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا گیا۔ تاجدارِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس اِحسان کا بدلہ اِنسانیت رہتی دُنیا تک نہیں چکا سکتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک دُنیا میں جس قدر علمی و فکری اور ثقافتی و سائنسی ترقی ہوئی ہے یا ہوگی وہ سب دینِ اِسلام کے اِنقلاب آفریں پیغام کا نتیجہ ہے، جس کے ذرِیعے علم و فکر اور تحقیق و جستجو کے نئے دَر وَا ہوئے۔ معلّمِ اِنسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بِعثت سے قبل دُنیا میں علم، فلسفہ اور سائنس کی ترقی کا جو بھی معیار تھا اُس کی بنیاد سقراط (Socrates)، اَفلاطون (Plato) اور اَرسطو (Aristotle) کے دیئے گئے نظریات پر تھی۔ آمدِ دینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل یونان (Greece) اور اسکندریہ (Alexandria) کی سرزمین علم کی سرپرستی کرتی رہی تھیں۔ اُن مخصوص خطہ ہائے زمین کے علاوہ دُنیا کا بیشتر حصہ جہالت کی تاریکی میں گم تھا۔ سرزمینِ عرب کا بھی یہی حال تھا، جہاں کے لوگ اپنی جہالت اور جاہلیت پر فخر کرتے تھے۔ قدیم یونان، اسکندریہ اور رُوما (اٹلی) میں علم اور تمدّن کی ترقی کا کوئی فائدہ اہلِ عرب کو اِس لئے نہ تھا کہ اُن کے مابین زبانوں کا بہت فرق تھا۔ تاہم جاہلی عرب میں بعض علوم و فنون کا اپنا رواج اور ماحول تھا۔ مختلف علمی و اَدبی میدانوں میں عربوں کا اپنا مخصوص ذوق اور اُس کے اِظہار کا اپنا ایک مخصوص انداز ضرور تھا۔ ایسے حالات میں قرآنِ مجید کی پہلی آیاتِ طیبات اِلٰہیات، اَخلاقیات، فلسفہ اور سائنس کا پیغام لے کر نازل ہوئیں۔ اِرشادِ ربانی ہوا : اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِO عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْO (العلق، 96 : 1 - 5) (اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اُس نے اِنسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وُجود سے پیدا کیاo پڑھئے اور آپ کا ربّ بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذرِیعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے اِنسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاo تاجدارِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازِل ہونے والی پہلی وحی کی پہلی آیت نے اِسلامی ’اِلٰہیات‘ و ’اَخلاقیات‘ کی علمی بنیاد فراہم کی، دُوسری آیت نے ’حیاتیات‘ اور ’جینیات‘ کی سائنسی اَساس بیان کی، تیسری آیت نے اِنسان کو اِسلامی عقیدہ و فلسفۂ حیات کی طرف متوجہ کیا، چوتھی آیت نے فلسفۂ علم و تعلیم اور ذرائعِ علم پر روشنی ڈالی اور پانچویں آیت نے علم و معرفت، فکر و فن اور فلسفہ و سائنس کے تمام میدانوں میں تحقیق و جستجو کے دروازے کھول دیئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں علم و فن اور تعلیم و تعلم کی ایسی سرپرستی فرمائی کہ اپنی جہالت پر فخر کرنے والی اُمیّ (اَن پڑھ) قوم تھوڑے ہی عرصہ میں پوری دُنیا کے علوم و فنون کی اِمام و پیشوا بن گئی اور شرق سے غرب تک علم و اَخلاق اور فلسفہ و سائنس کی روشنی پھیلانے لگی۔ وہ عرب قوم۔۔۔ جسے علم و سائنس کی راہ پر ڈالنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ بدر کے کافر قیدیوں کے لئے چار ہزار درہم زرِ فدیہ کی خطیر رقم چھوڑتے ہوئے دس دس مسلمان بچوں کو پڑھانے کا فدیہ مقرر کر دِیا تھا۔۔۔ اِسلام کی اَوائل صدیوں کے اندر ہی پوری دُنیائے اِنسانیت کی معلّم بن کر اُبھری۔ اور اُس نے سائنسی علوم کو اَیسی مضبوط بنیادیں فراہم کیں جن کا لوہا آج بھی مانا جاتا ہے۔ اِس باب میں قرآن و سنت کی تعلیمات کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اُس نے اِنسانی ذِہن کو اپنے وُجود اور نظامِ کائنات کے حقائق کو سمجھنے کے لئے دعوتِ غور و فکر دی۔ کلامِ مجید میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ. (حم السجده، 41 : 53) ہم عنقریب اُنہیں اپنی نشانیاں خارجی کائنات (universal phenomenon) میں اور اُن کے وُجودوں (human world) کے اند ر دِکھا دیں گے، حتی کہ اُن پر آشکار ہوجائے گا کہ اللہ ہی حق ہے۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس جاہل بدوِی قوم کو حقائق کے تجزیہ و تعلیل کا مزاج دیا، حقائقِ کائنات میں جستجو اور تحقیق کا ذَوق دیا۔ کائنات کی تخلیق سے لے کر اُس کے اِختتام تک اور اِنسان کی تخلیق سے لے کر اُس کی موت تک، پھر موت سے قیامت تک کے اَحوال پر غور و فکر کے لئے بھی بنیادی مواد فراہم کیا۔ اِس طرح کائناتی اور اِنسانی علوم (sciences) کی ترقی کی راہیں تسلسل کے ساتھ کھلتی ہی چلی گئیں۔ چنانچہ اُمتِ مسلمہ میں علمی ذوق نے اِس حد تک فروغ پایا کہ حکم قرآنی ’’عَلَّمَ بِالْقَلَمِ‘‘ کا اِشارہ پاکر مسلم اہلِ علم نے ’’قلم‘‘ کی تاریخی تحقیق کا بھی حق اَدا کردیا۔ یہاں تک کہ اِمام عبدالرحمن بن محمد بن علی الحنفی البسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر اپنے دَور تک قلم کے جملہ مناہج و اَسالیب کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی، جس کا نام ’’مباھجُ الاعلام فی مناھجِ الاقلام‘‘ رکھا۔ اُس کتاب میں اُنہوں نے 150 سے زائد قلموں اور اُن کے اَدوار و اَحوال کی تاریخ مرتب کی ہے۔ غالباً یہ دُنیا میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے۔ اُس کا مخطوطہ یونیورسٹی آف لیڈن (ہالینڈ) میں محفوظ ہے۔ برائے حوالہ ملاحظہ ہو : Catalogue of Arabic Manuscripts (xxi) Fasciule 2 by J. J. Witkam, (Leiden University Press, Leiden, 1984) عالمِ اِسلام میں تہذیب و ثقافت کا فروغ اِبنِ حوقل نے بیان کیا ہے کہ قرونِ وُسطیٰ میں اِسلامی اور عرب دُنیا میں شرحِ خواندگی اور تعلیم و تعلم (education & literacy) کے شغل نے یہاں تک ترقی کی کہ صرف سسلی (Sicily) جیسے ایک چھوٹے سے شہر میں 600 پرائمری سکول موجود تھے اور اُن کی وُسعت کا یہ عالم تھا کہ ابو القاسم بلخی کی رِوایت کے مطابق 3,000 طلباء صرف اُن کے اپنے اِنسٹیٹیوٹ میں زیرتعلیم تھے۔ اِسی طرح دِمشق (Damascus)، حلب (Halab)، بغداد (Baghdad)، موصل (Mosul)، مصر (Egypt)، بیتُ المقدس (Jerusalem)، بعلبک، قرطبہ (Cordoba)، نیشاپور اور خراسان (Central Asia) وغیرہ بھی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے معمور تھے۔ ’جامعہ نظامیہ بغداد‘۔۔۔ جو پانچویں صدی سے نوی صدی ہجری تک دُنیا کی عظیم ترین یونیورسٹی تھی۔۔۔ اُس میں ریگولر طلبہ کی تِعداد 6,000 رہتی تھی۔ دسویں صدی میں بقول اِمام نعیمی رحمۃ اللہ علیہ، صرف شہر دِمشق میں فقہ و قانون (law and jurisprudence) کے کالجز اور جامعات کا عالم یہ تھا کہ 63 تعلیمی اِدارے فقہ شافعی کے تھے، 52 فقہ حنفی کے، 11 فقہ حنبلی کے اور 4 فقہ مالکی کے تھے۔ اِس کے علاوہ علمُ الطب (medical sciences) کے سکول اور کالج الگ تھے۔ اِمام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ تاریخ پر اپنی کتاب ’البدایہ والنہایہ‘ میں سن 631ھ کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اُس سال ’مدرسہ مستنصریہ‘ کی تعمیر مکمل ہوئی، جو اُس وقت کی قانون کی سب سے بڑی درسگاہ تھی۔ اُس میں چاروں فقہی و قانونی مکاتبِ فکر کے 62، 62 ماہرین و متخصّصین فقہ و قانون کے شعبوں میں تدرِیس کے لئے تعینات تھے۔ اِسلامی تاریخ کا سب سے پہلا باقاعدہ ہسپتال اُموِی خلیفہ ’ولید بن عبدالملک‘ (86ھ تا 96ھ) کے زمانے میں پہلی صدی ہجری میں ہی تعمیر ہوگیا تھا۔ اُس سے قبل ڈسپنسریاں (dispensaries) موبائل میڈیکل یونٹ (mobile medical units) اور میڈیکل ایڈ سنٹرز (medical aid centres) وغیرہ موجود تھے، جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں غزوۂ خندق کے موقع پر بھی مدینہ طیبہ میں کام کر رہے تھے۔ اُس ہسپتال میں indoor patients کے باقاعدہ وارڈز تھے اور ڈاکٹروں کو رہائش گاہوں کے علاوہ بڑی معقول تنخواہیں بھی دی جاتی تھیں۔ اِسلامی تاریخ کے اُس دورِ اوائل کے ہسپتالوں میں درج ذیل شعبہ جات مستقل طور پر قائم ہوچکے تھے : 1- Department of Systematic Diseases 2- Ophthalmic department 3- Surgical department 4- Orthopaedic department 5- Department of mental diseases اُن میں سے بعض بڑے ہسپتالوں کے ساتھ میڈیکل کالج(medical colleges) بھی متعلق کردیئے گئے تھے, جہاں پوری دُنیا کے طلبہ medical science کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ دِمشق کا ’نوری ہسپتال‘ (Noorie Hospital) اور مصر کا ’ابنِ طولون ہسپتال‘ (Ibn-i-Tulun Hospital) اِس سلسلے میں بڑے نمایاں تھے۔ ابنِ طولون میڈیکل کالج میں اِتنی عظیم لائبریری موجود تھی جو صرف medical sciences ہی کی ایک لاکھ سے زائد کتابوں پر مشتمل تھی۔ ہسپتالوں کا نظام دَورِ جدید کے مغربی ہسپتالوں کی طرح نہایت منظم اور جامع تھا اور یہ معیار دِمشق، بغداد، قاہرہ، بیتُ المقدس، مکہ، مدینہ اور اندلس ہر جگہ برقرار رکھا گیا تھا۔ بغداد کا ’اَزدی ہسپتال‘ (Azdi Hospital) جو 371ھ میں تعمیر ہوا، دِمشق کا ’نوری ہسپتال‘ (Noorie Hospital)، مصر کا ’منصوری ہسپتال‘ (Mansuri Hospital) اور مراکش کا ’مراکو ہسپتال‘ (Moroccan Hospital) اُس وقت دُنیا کے سب سے بڑے اور تمام ضروری سہولتوں اور آلات سے لیس ہسپتال تھے۔ اِسلامی تعلیمات کی بدولت ملنے والی ترغیب سے مسلمان تو تعلیم اور صحت کے میدانوں میں ترقی کی اِس اَوج پر فائز تھے جبکہ یورپ کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ تھا۔ مسلمانوں کے علمی شغف کا یہ عالم تھا کہ اِسلامی دُنیا کے ہر شہر میں پبلک اور پرائیویٹ لائبریریوں کی قابلِ رشک تعداد موجود تھی اور بیشتر لائبریریاں لاکھوں کتابوں کا ذخیرہ رکھتی تھی۔ قرطبہ (Cordoba)، غرناطہ (Granada)، بغداد (Baghdad) اور طرابلس (Tarabulus) وغیرہ کی لائبریریاں دُنیا کا عظیم تاریخی اور علمی سرمایہ تصوّر ہوتی تھیں۔ علوم القرآن (Quranic Sciences) قرآنِ مجید ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہمیں اِنسانی زِندگی کے ہر گوشے سے متعلق ہدایت فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک اَیسی کتابِ ہدایت ہے جس سے تمام علوم کے سُوتے پھوٹتے ہیں۔ چنانچہ اَوائل دورِ اِسلام ہی سے قرآنِ مجید کو منبعِ علوم تصوّر کرتے ہوئے اُس سے مستنبط ہونے والے علوم و فنون پر کام کیا گیا۔ قاضی ابو بکر بن عربی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’قانونُ التاوِیل‘ میں بیان کرتے ہیں کہ قرآنی علوم کی تعداد 77,450 ہے۔ مسلمان اہلِ علم نے صرف مطالعۂ قرآن کے ذرِیعے جو علمی و اَدبی اور سائنسی و سماجی علوم و فنون اَخذ کئے اُن میں سے چند ایک یہ ہیں : علمُ التوحید (theology) علمُ القراۃ والتجوید (pronunciation) علمُ النحو (grammer & syntax) علمُ الصرف (morphology) علمُ التفسیر (exegesis) علمُ اللغہ (linguistics) علمُ الاصول (science of fundamentals) علمُ الفروع (science of branches) علمُ الکلام (theology) علمُ الفقہ والقانون (law & jurisprudence) علمُ الفرائض والمیراث(law of inheritance) علمُ الجریمہ (criminology) علمُ الحرب (science of war) علمُ التاریخ (history) علمُ التزکیہ والتصوف (theosophy) علمُ التعبیر (oneiromancy) علمُ الادب (literature) علمُ البلاغت، المعانی، البیان، البدیع (rhetoric) علمُ الجبر و المقابلہ (algebra) علمُ المناظرہ (polemics) علمُ الفلسفہ (philosophy) علمُ النفسیات (psychology) علمُ الاَخلاق (ethics) علمُ السیاسہ (political science) علمُ المعاشرہ (sociology) علمُ الثقافہ (culture) علمُ الخطاطی (calligraphy) علمُ المعیشت والاقتصاد(economics) علمُ الکیمیا (chemistry) علمُ الطبیعیات (physics) علمُ الحیاتیات (biology) علمُ النباتات (botany) علمُ الزراعہ (agronomy) علمُ الحیوانات (zoology) علمُ الطب (medical science) علمُ الادویہ (pharmacology) علمُ الجنین (embryology) علم تخلیقیات (cosmology) علم کونیات (cosmogony) علمُ الہیئت (astronomy) علمِ جغرافیہ (geography) علمُ الارضیات (geology) علمُ الآثار (archaeology) علمُ المیقات (timekeeping) وغیرہ اِسی طرح اَحادیثِ نبوی سے بھی ہزارہا علوم و فنون کا اِستنباط کیا گیا اور اگلی صدیوں میں اُن پر تحقیق کے ذریعے ہزاروں کتب کا بیش بہا ذخیرہ مرتب ہوا۔ اَب ہم اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں چند سائنسی اور سماجی علوم و فنون کے اِرتقاء میں ہونے والی پیش رفت کا باری باری جائزہ لیتے ہیں۔ علمِ ہیئت و فلکیات (Astronomy) علم ہیئت و فلکیات کے میدان میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اُنہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علمُ الہیئت کو صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر اُستوار کیا۔ مغربی زبانوں میں اَب بھی بے شمار اَجرام سماوِی کے نام عربی میں ہیں، کیونکہ وہ مسلم ماہرینِ فلکیات کی دریافت ہیں۔ عظیم مغربی مؤرخ Prof Hitti لکھتا ہے : Not only are most of the star۔۔۔ names in European languages of Arabic origins۔۔۔ but a numbers of technical terms۔۔۔ are likewise of Arabic etymology and testify to the rich legacy of Islam to Christian Europe." (History of the Arabs, pp.568-573) ترجمہ : ’’یورپ کی زبانوں میں نہ صرف بہت سے ستاروں کے نام عربی الاصل (عربی زبان سے نکلنے والے) ہیں بلکہ لاتعداد اِصطلاحات بھی داخل کی گئی ہیں جو یورپ پر اِسلام کی بھرپور وراثت کی مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں‘‘۔ اندلس کے عظیم مسلمان سائنسدان ابنِ رشد۔۔۔ جسے مغرب میں Averroes کے بدلے ہوئے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔۔۔ نے سورج کی سطح کے دھبوں (sun spots) کو پہچانا۔ Gregorian کیلنڈر کی اِصلاحات ’عمر خیام‘ نے مرتب کیں۔ خلیفہ مامون الرشید کے زمانہ میں زمین کے محیط کی پیمائشیں عمل میں آئیں، جن کے نتائج کی درُستگی آج کے ماہرین کے لئے بھی حیران کن ہے۔ سورج اور چاند کی گردِش، سورج گرہن، علمُ المیقات (timekeeping) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیرمعمولی سائنسی معلومات بھی البتانی اور البیرونی جیسے نامور مسلم سائنسدانوں نے فراہم کیں۔ مسلمانوں کی علمُ المیقات (timekeeping) کے میدان میں خصوصی دِلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ اِس علم کا تعلق براہِ راست نمازوں اور روزوں کے معاملات سے تھا۔ یاد رہے کہ البتانی (877ء۔ 918ء) اور البیرونی (973ء۔ 1050ء) کا زمانہ صرف تیسری اور چوتھی صدی ہجری کا ہے، گویا یہ کام بھی آج سے گیارہ سو سال قبل اِنجام پذیر ہوئے۔ (History of the Arabs, pp.373-378) پنج وقتی نمازوں کے تعینِ اَوقات کی غرض سے ہر طول و عرض بلد پر واقع شہروں کے لئے مقامی ماہرینِ تقوِیم و فلکیات نے الگ الگ کیلنڈرز وضع کئے۔ رمضانُ المبارک کے روزوں نے طلوع و غروبِ آفتاب کے اَوقات کے تعین کے لئے پوری تقوِیم بنانے کی الگ سے ترغیب دی، جس سے بعداَزاں ہر طول بلد پر واقع شہر کے مطابق الگ الگ کیلنڈرز اور پھر مشترکہ تقوِیمات کو فروغ ملا۔ یہاں تک کہ تیرہویں صدی عیسوی میں باقاعدہ طور پر ’مؤقّت‘ کا عہدہ وُجود میں آگیا، جو ایک پیشہ ور ماہرِفلکیات ہوتا تھا۔ مغرب کے دورِ جدید کی مشاہداتی فلکیات (observational astronomy) میں اِستعمال ہونے والا لفظ almanac بھی عربی الاصل ہے اِس کی عربی اصل ’المناخ‘ (موسم) ہے۔ یہ نظام بھی اصلاً مسلم سائنسدانوں نے اِیجاد کیا تھا۔ ’شیخ عبدالرحمن الصوفی رحمۃ اللہ علیہ‘ نے اِس موضوع پر ایک عظیم کتاب ’صورُالکواکب‘ (figures of the stars) کے نام سے تصنیف کی تھی، جو جدید علمِ فلکیات کی بنیاد بنی۔ مستزاد یہ کہ اِس باب میں ’ابنُ الہیثم‘۔۔۔ جسے اہلِ مغرب لاطینی زبان میں Alhazen لکھتے ہیں۔۔۔ کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش سائنسی سرمایہ ہے۔ علمِ ہیئت و فلکیات (astronomy) اور علمِ نجوم (astrology) کے ضمن میں اندلسی مسلمان سائنسدانوں میں اگرچہ ’علی بن خلاف اندلسی‘ اور ’مظفرالدین طوسی‘ کی خدمات بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر اُن سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ (Cordoba) کے عظیم سائنسدان ’عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا جو دورِ جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium) کی بنیاد بنا۔ اُس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ ’عباس بن فرناس‘ وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے دُنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اُڑایا۔ بعد اَزاں البیرونی (al-Biruni) اور ازرقیل (Azarquiel) وغیرہ نے equatorial instruments کو وضع کیا اور ترقی دی۔ اِسی طرح سمتِ قبلہ کے درُست تعین اور چاند اور سورج گرہن (lunar & solar eclipses) کو قبل اَز وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردِش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی، ابنِ یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنسدانوں نے وضع کیا۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے Toledan Astronomical Tables مرتب کئے۔ چنانچہ بعض غیرمسلم مؤرخین نے اِس حقیقت کا اِن اَلفاظ میں اِعتراف کیا ہے : "Muslim astrologers also discovered (around the thirteenth century) the system for giving the ephemerids of the sun and the moon --- later extended to the other planets --- as a function of concrete annual dates. Such was the origin of the almanacs which were to be so widely used when trans-oceanic navigation began." (The Legacy of Islam, pp. 474-482) ترجمہ : ’’مسلمان ماہرینِ فلکیات نے بھی (تیرہویں صدی عیسوی کے قریب) چاند اور سورج کو حرکت دینے والے نظام کو دریافت کیا اور بعد ازاں دُوسرے سیاروں کے حوالے سے تحقیق شروع کی۔ طے شدہ سالانہ تاریخوں کے حساب سے اور اُن تاریخوں کا رجسٹر کا آغاز کچھ ایسا تھا کہ اسے سمندر کو پار کرنے کے لئے جہازوں کی رہنمائی میں بہت زیادہ اِستعمال میں لایا گیا‘‘۔ حساب، الجبرا، جیومیٹری (Mathematics, Algebra, Geometry) حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں ’الخوارزمی‘ مؤسسینِ علم میں سے ایک ہے۔ حساب میں algorism یا algorithm کا لفظ الخوارزمی (al-Khwarizimi) کے نام سے ہی ماخوذ ہے۔ اُن کی کتاب ’’الجبر و المقابلہ‘‘ کا بارہویں صدی عیسوی میں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ کتاب سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصابی کتاب (textbook) کے طور پر پڑھائی جاتی رہی اور اُسی سے عالمِ مغرب میں الجبرا متعارف ہوا۔ اُس کتاب میں ’تفرّق کے معکوس‘ (integration) اور ’مساوات‘ (equation) کی آٹھ سو سے زائد مثالیں دِی گئی تھیں۔ مستزاد یہ کہ یورپ میں trigonometrical functions کا علم ’البتانی‘ کی تصانیف کے ذریعے اور tangents کا علم ’ابوالوفا‘ کی تصانیف کے ذریعے پہنچا۔ اسی طرح صفر (zero) کا تصوّر مغرب میں متعارف ہونے سے کم از کم 250 سال قبل عرب مسلمانوں میں متعارف تھا۔ ابو الوفاء، الکندی، ثابت بن القرّاء، الفارابی، عمرخیام، نصیرالدین طوسی، ابنُ البناء المراکشی، ابنِ حمزہ المغربی، ابوالکامل المصری اور اِبراہیم بن سنان وغیرہ کی خدمات arithmetic، algebra، geometry اور trigonometry وغیرہ میں تاسیسی حیثیت کی حامل ہیں۔ حتیٰ کہ اِن مسلمان ماہرین نے باقاعدہ اُصولوں کے ذریعے optics اور mechanics کو بھی خوب ترقی دِی۔ یہ بات بھی قابلِ ذِکر ہے کہ ’المراکشی‘ نے mathematics کی مختلف شاخوں پر 70 کتابیں تصنیف کی تھیں، جو بعد اَزاں اِس علم کا اَساسی سرمایہ بنیں۔ الغرض مسلم ماہرین نے علمِ ریاضی کو یونانیوں سے بہت آگے پہنچا دیا اور یہی اِسلامی کام جدید mathematics کی بنیاد بنا۔ طبیعیات، میکانیات اورحرکیات (Physics, Mechanics, Dynamics) قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے ابنِ سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی خدمات طبیعیات کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں محمد بن زکریا رازی، البیرونی او ر ابو البرکات البغدادی نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے علمِ تخلیقیات (cosmology) کو خاصا فروغ دیا۔ البیرونی نے ارسطو (Aristotole) کے کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ’کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حرکت (motion) اور سمتی رفتار (velocity) کی نسبت البغدادی اور ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لئے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر ابنُ الہیثم نے density, atmosphere, measurements, weight, space, time, velocities, gravitation, capillary attraction جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات (physics) کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح mechanics اور dynamics کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔ ابنُ الہیثم کی ’کتابُ المناظر‘ (optical thesaurus) نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی dynamics میں نمایاں علمی خدمات اِنجام دیں۔ اُنہوں نے ارسطو کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح ابنِ رشد نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔ اِن مسلم سائنسدانوں نے galileo سے بھی پہلے gravitational force کی خبر دِی مگر اُن کا تصوّر دورِ حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح momentum کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے ذرِیعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ ثابت بن قراء نے lever پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی تاریخ میں liber karatonis کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بغداد کے دِیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی mechanical devices اور godgets وغیرہ پر بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔ علم بصریات (Optics) بصریات (optics) کے میدان میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیرمعمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول پروفیسر آرنلڈ (Arnold) اِس میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور کمالُ الدین الفارسی کی سائنسی خدمات نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء کتاب "On Optics" آج اپنے لاطینی ترجمہ کے ذرِیعے زندہ ہے۔ اُنہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ lenses کی magnifying power کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے magnifying lenses کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کردیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ بصارت (nature of vision) کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں (rays) آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام (external objects) کی طرف سے آتی ہیں۔ اُنہوں نے پردۂ بصارت (retina) کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اُس کا optic nerve اور دِماغ (brain) کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ Euclid اور Kepler کے درمیان اُس جیسا کوئی اور شخص تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات (optics) کے بانی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف Witelo Roger Bacon اور Peckham جیسے قدیم سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں Kepler اور Newton کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام velocities, light, lenses, astronomical observations, meteorology اور camera وغیرہ پر تاسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح قطبُ الدین شیرازی اور القزوِینی نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات اِنجام دی ہیں۔ علمُ النباتات (Botany) اِس موضوع پر الدینوری (895ء) کی چھ جلدوں پر مشتمل ’کتابُ النبات‘ سائنسی دُنیا میں سب سے پہلا ضخیم اور جامع Encyclopaedia Botanica ہے۔ یہ مجموعہ اُس وقت تحریر کیا گیا جب یونانی کتب کا عربی ترجمہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ ایک مغربی سائنسی مورخ Strassburg لکھتا ہے : "Anyhow it is astonishing enough that the entire botanical literature of antiquity furnishes us only two parallels to our book (of Dinawari). How was it that the Muslim people could, during so early a period of its literacy life, attain the level of the people of such a genius as the Hellenic one, and even surpassed it in this respect." (Zeitschrift fuer Assyriologie, Strassburg, vols. 25,44) ترجمہ ’’الغرض یہ ایک اِنتہائی حیران کن بات ہے کہ زمانۂ قدیم میں لکھا جانے والا علمِ نباتات کا مواد ہمیں الدنیوری کی کتاب جیسی صرف دو مثالیں پیش کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اپنی تعلیمی زندگی کے اُس اِبتدائی دَور میں مسلمانوں نے قدیم یونان جیسے دانشور و محقق لوگوں کا درجہ حاصل کرلیا تھا بلکہ وہ اِس معاملے میں تو اُن سے بھی آگے نکل گئے تھے‘‘۔ پروفیسر آرنلڈ کے مطابق دُنیا بھر سے مسلمانوں کے مکہ و مدینہ کی طرف حج اور زیارت کے لئے سفر کرنے کے عمل نے biological science کو خاصی ترقی دی ہے۔ الغفیقی اور الادریسی نے اندلس (Spain) سے افریقہ تک سفر کر کے سینکڑوں پودوں کی نسبت معلومات جمع کیں اور کتابیں مرتب کیں۔ ابنُ العوام نے 585 پودوں کے خواص و اَحوال پر مشتمل کتاب مرتب کی اور علمُ النباتات (botany) کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا۔ پروفیسر Hitti بیان کرتا ہے : "In the field of natural history especially botany, pure and applied, as in that of astronomy and mathematics, the western Muslims (of Spain) enriched the world by their researches. They made accurate observations on the sexual difference (of various plants)." (Ameer Ali, The Spirit of Islam. pp. 385-387) ترجمہ : ’’قدرتی تاریخ کے میدان میں خاص طور پر خالص یا اطلاقی علم نباتات میں فلکیات اور ریاضیات کی طرح اندلس کے مغربی مسلمانوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعہ سے دُنیا کو مستفید کیا۔ اِسی طرح مختلف پودوں میں پائے جانے والے جنسی اِختلاف کے بارے میں اُن (ابو عبداللہ التمیمی اور ابو القاسم العراقی) کی تحقیقات بھی علمُ النباتات کی تاریخ کا نادِر سرمایہ ہیں‘‘۔ اِسلامی سپین کے فرمانروا عبدالرحمن اوّل نے قرطبہ (Cordoba) میں ایک زرعی تحقیقاتی اِدارے ’’حدیقہ نباتاتِ طبیہ‘‘ کی بنیاد رکھی، جس سے نہ صرف علمِ نباتات (botany) کو مستحکم بنیادوں پر اُستوار کرنے کے مواقع میسر آئے بلکہ علمُ الطب (medical sciences) میں بھی تحقیق کے دَر وَا ہوئے۔ چنانچہ اندلس کے ماہرینِ نباتات نے پودوں میں جنسی اِختلاف کی موجودگی کو بجا طور پر دریافت کرلیا تھا۔ اِس دریافت میں جہاں اُنہیں ’’حدیقہ نباتاتِ طبیہ‘‘ میں کی گئی تجربی تحقیقات نے مدد دی وہاں اللہ ربّ العزت کے فرمان ’’خَلَقَ اﷲُ کُلَّ شَیْئٍ زَوْجًا‘‘ (اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو جوڑا جوڑا بنایا) نے بھی بنیادی رہنمائی عطا کی۔ عبداللہ بن عبدالعزیز البکری نے ’کتاب اَعیان النبات و الشجریات الاندلسیہ‘ کے نام سے اندلس کے درختوں اور پودوں کے خواص مرتب کئے۔ اشبیلیہ کے ماہرِنباتات (botanist) ابنُ الرومیہ نے اندلس کے علاوہ افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ممالک کی سیاحت کی اور اُس دوران ملنے والے پودوں اور جڑی بوٹیوں پرخالص نباتی نقطۂ نظر سے تحقیقات کیں۔ اِس کے علاوہ ابنُ البیطار، شریف اِدریسی اور ابنِ بکلارش بھی اندلس کے معروف ماہرینِ نباتا ت میں سے ہیں۔ علمُ الطب (Medical Science) اِس میدان میں بھی اِسلامی تاریخ عدیمُ المثال مقام کی حامل ہے۔ اِس باب میں الرازی، ابو القاسم الزہراوی، ابنِ سینا، ابنِ رُشد اور الکندی کے نام سرِ فہرست آتے ہیں۔ ’’مسلم سائنسدانوں نے اِسلام کے دورِ اَوائل میں ہی بڑے بڑے ہسپتال اور طبی اِدارے (medical colleges) قائم کرلئے تھے، جہاں علم الادویہ (pharmacy) اور علمُ الجراحت (surgery) کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں‘‘۔ (Islamic Science, S.H. Nasr, pp.156) ایک میلینئم سے زیادہ وقت گزرا جب عالمِ اِسلام کے نامور طبیب ’الرازی‘ (930ء) نے علمُ الطب (medical science) پر 200 سے زائد کتب تصنیف کی تھیں، جن میں سے بعض کا لاطینی، انگریزی اور دُوسری جدید زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اُنہیں صرف 1498ء سے 1866ء تک تقریباً 40 مرتبہ چھاپا گیا۔ smallpox اور measles پر سب سے پہلے صحیح تشخیص بھی ’الرازی‘ نے ہی پیش کی۔ اِسی طرح ابو علی الحسین بن سینا (Avicenna)(1037ء) نے ’القانون‘ (Canon of Medicine) لکھ کر دُنیائے طب میں ایک عظیم دَور کا اِضافہ کیا۔ اِس کا ترجمہ بھی عربی سے لاطینی اور دِیگر زبانوں میں کیا گیا اور یہ کتاب 1650ء تک یورپ کی بیشتر یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی۔ ابو ریحان البیرونی (1048ء) نے pharmacology کو مرتب کیا۔ اِسی طرح علی بن عیسیٰ بغدادی اور عمار الموصلی کی اَمراضِ چشم اور ophthalmology پر لکھی گئی کتب اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف اوّل تک فرانس اور یورپ کے medical colleges میں بطور textbooks شاملِ نصاب تھیں۔ ایک غیرمسلم مغربی مفکر E. G. Browne لکھتا ہے : ’’جب عیسائی یورپ کے لوگ اپنے علاج کے لئے بتوں کے سامنے جھکتے تھے اُس وقت مسلمانوں کے ہاں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز، معا لجین، ماہرین اور شاندار ہسپتال موجود تھے‘‘۔ اِس سے آگے اُس کے اَلفاظ ملاحظہ ہوں : The practice of medicine was regulated in the Muslim world from the tenth century onwards. At one time, Sinan ibn Thabit was Chairman of the Board of Examiners in Baghdad. Pharmacists were also regulated and the Arabs produced the first pharamcopia drug stores. Barber shops were also subject to inspection. Travelling hospitals were known in the eleventh century۔۔۔ The great hospital of al-Mansur, founded at Damascus around 1284 AD, was open to all sick persons, rich or poor, male or female, and had separate wards for men and women. One ward was set apart for fevers, another for ophthalmic cases, one for surgical cases and one for dysentry and kindred intestinal ailments. There were in addition, kitchens, lecture-rooms, a dispensary and so on. (E. G. Browne, Arabian Medicine, pp.101) ترجمہ ’’اِسلامی دُنیا میں دسویں صدی عیسوی سے ہی علمِ طب اور ادوِیہ سازی کو منظم اور مرتب کر دیا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب سنان بن ثابت بغداد میں ممتحنین کے بورڈ کے صدر تھے۔ ادوِیہ سازوں کو بھی باقاعدہ منظم کیا گیا تھا اور عربوں نے ہی سب سے پہلے میڈیکل سٹورز قائم کئے حتیٰ کہ طبی نقطۂ نظر سے حجاموں کی دُکانوں کا بھی معائنہ کیا جاتا تھا۔ گیارہویں صدی میں سفری (mobile) ہسپتالوں کا بھی ذِکر ملتا ہے۔ 1284ء کے قریب دِمشق میں قائم شدہ عظیمُ الشان ’المنصور ہسپتال‘ موجود تھا۔ جس کے دروازے امیر و غریب، مرد و زن، غرض تمام مریضوں کے لئے کھلے تھے اور اُس ہسپتال میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ وارڈ موجود تھے۔ ایک وارڈ مکمل طور پر بخار کے لئے (fever ward) ایک آنکھوں کی بیماریوں کے لئے (eye ward) ایک وارڈ سرجری کے لئے (surgical ward) اور ایک وارڈ پیچش (dysentry) اور آنتوں کی بیماریوں (intestinal ailments) کے لئے مخصوص تھا۔ علاوہ ازیں اُس ہسپتال میں باورچی خانے، لیکچر ہال اور اَدویات مہیا کرنے کی ڈسپنسریاں بھی تھیں اور اِسی طرح طب کی تقریباً ہر شاخ کے لئے یہاں اِہتمام کیا گیا تھا‘‘۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلمانوں کی طبی تحقیقات و تعلیمات کے تراجم یورپی زبانوں میں کئے گئے جن کے ذریعے یہ سائنسی علوم یورپی مغربی دُنیا تک منتقل ہوئے۔ خاص طور پر ابوالقاسم الزہراوی اور المجوسی کی کتب نے طبی تحقیق کی دُنیا میں اِنقلاب بپا کیا۔ ملاحظہ ہو : "Their medical studies, later translated into Latin and the European languages, revealed their advanced knowledge of blood circulation in the human body. The work of Abu`l-Qasim al-Zahrawi, Kitab al-Tasrif,on surgery, was translated into Latin by Gerard of Cremona and into Hebrew about a century later by Shem-tob ben Isaac. Another important work in this field was the Kitab al-Maliki of al-Majusi (died 982 AD), which shows according to Browne that the Muslim physicians had an elementary conception of the capillary system (optic) and in the wokrs of Max Meyerhof, Ibn al-Nafis (died 1288 AD) was the first in time and rank of the precursors of William Harvery. In fact, he propounded the theory of pulmonary circulation three centuries before Michael Servetus. The blood, after having been refined must rise in the arterious veins to the lung in order to expand its volume, and to be mixed with air so that its finest part may be clarified and may reach the venous artery in which it is transmitted to the left cavity of the heart. (Ibn al-Nafis and his Theory of the Lasser Circulation, Islamic Science, 23 : 166, June, 1935) ترجمہ : ’’اُن کے طبی علم اور معلومات والی کتب جن کا بعد ازاں لاطینی اور یورپی زبانوں میں ترجمہ ہوا، اُن کی اِنسانی جسم میں خون کی گردِش کے متعلق وُ سعتِ علم کا اِنکشاف کرتی ہیں۔ ’ابوالقاسم الزہراوی‘ کی جراحی پر تحقیق ’کتابُ التصریف لِمَن عجز عنِ التالیف‘ جس کا ترجمہ Cremona کے Gerard نے لاطینی زبان میں کیا، اور ایک صدی بعد Shem-tob ben Isaac نے عبرانی زبان میں کیا۔ اِسی میدان میں ایک اور اہم ترین کام المجوسی (وفات 982ء) کی تصنیف ’کتابُ الملیکی‘ ہے، ’براؤن‘ کے مطابق یہ کتاب اِس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مسلمان اَطباء کو شریانوں کے نظام کے بارے میں بنیادِی تصوّرات اور معلومات حاصل تھیں اور ’میکس میئرہوف‘ کے اَلفاظ میں ’ابنُ النفیس‘ (وفات 1288ء) وقت اور مرتبے کے لحاظ سے ’ولیم ہاروے‘ کا پیش رَو تھا۔ حقیقت میں اُس نے ’مائیکل سرویٹس‘ سے تین صدیاں پہلے سینے میں پھیپھڑوں کی حرکت اور خون کی گردِش کا سراغ لگایا تھا۔ خون صاف کئے جانے کے بعد بڑی بڑی شریانوں میں وہ یقیناً پھیپھڑے کی شریانوں میں بلند ہونا چاہئے تاکہ اُس کا حجم بڑھ سکے اور وہ ہوا کے ساتھ مل سکے تاکہ اُس کا بہترین حصہ صاف ہو جائے اور وہ نبض کی شریان تک پہنچ سکے جس سے یہ دِل کے بائیں حصے میں پہنچتا ہے‘‘۔ علم ادوِیہ سازی (Pharmacology) Seirton اور Gulick جیسے مغربی محققین نے لکھا ہے کہ ابن البیطار نے سادہ ادوِیات کے مجموعے (collection of simple drugs) کے نام سے ایک کتاب لکھی جو کہ علمِ نباتات (botany) پر عربی زبان میں اُس زمانے کی سب سے بڑی تصنیف تسلیم کی جاتی ہے۔ اُس نے بحیرۂ رُوم میں اندلس (Spain) سے لے کر شام (Syria) تک کے علاقے سے مختلف پودے، جڑی بوٹیاں اور دوائیاں اِکٹھی کیں اور 1,400 سے بھی زیادہ طبی ادوِیات کا اپنی کتاب میں ذِکر کیا اور اُن کا موازنہ اپنے سے قبل 150 دِیگر مصنفین کی تصنیفات سے بھی کیا : Ibn al-Baytr wrote the Collection of Simple Drugs, which is regarded as the greatest Arabic book on botany of the age. He collected plants, herbs and drugs around the Mediterranean from Spain to Syria and described more than 1400 medicinal drugs, comparing them with the records of over 150 writers before him. اُس دَور کے عظیم مسلمان ادوِیہ سازوں (pharmacologists) میں ابوبکر محمد بن زکریا رازی، علی بن عباس، ابوالقاسم خلاف ابن عباس الزہراوی (جسے لاطینی زبان میں Albucasis کا نام دیا گیا)، ابو مروان ابن ظہر (جسے لاطینی زبان میں Aben Bethar کا نام دیا گیا) کے نام بڑے معروف ہیں۔ اِسی طرح medicine پر ابنِ رُشد (Ibn Rushd) کی ’کتابُ الکلیات‘ ایک معرکہ آراء تصنیف ہے، جسے لاطینی میں ترجمہ کر کے پورے عالمِ مغرب میں نصابی کتاب (textbook) کا درجہ دیا گیا مگر اَفسوس کہ ترجمہ کے ذریعے اُس کا نام بدل کر colliget بن گیا، جسے آج کوئی معلوم نہیں کر سکتا کہ یہ حقیقت میں کون سی کتاب تھی۔ (Islamic Science, p.181) علمُ الجراحت (Surgery) اندلس کے عظیم طبیب اور سرجن ابوالقاسم بن عباس الزہراوی کی نسبت پروفیسر Hitti لکھتا ہے : Albucasis (1013 AD) was not only a physician but a surgeon of the first rank. He performed the most difficult surgical operations in his own and the obstetrical departments. The ample description he has left of the surgical instruments employed his time gives an idea of the development of surgery among the Arabs in lithotomy, he was equal to the foremost surgeons of modern times. His work al-Tasrif li-Man Ajaz an al-Ta'alif (an aid to him who is not equal to the large treatises) introduces or emphasises new ideas. It was translated into Latin by Gerard of Cremona and various editions were published at Venice in 1497 AD, at Basle in 1541 AD and at Oxford in 1778 AD. It held its own for centuries as the manual of surgery in Salerono, Montpellier and other early schools of medicine." (Hitti, History of Arabs, pp.576-577) ترجمہ ’’آپ نہ صرف ایک ماہر طبیب تھے بلکہ اوّل درجے کے عظیم سرجن بھی تھے۔ اُنہوں نے اپنے شعبے میں اِنتہائی مشکل اور پیچیدہ سرجری (آپریشن) کئے اور اُس کے ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے زچگی کے شعبے میں بھی آپریشن کئے اور اُنہوں نے اپنے زیراستعمال آلاتِ سرجری کی بڑی واضح اور روشن وضاحت کی ہے، جس سے عربوں میں سرجری کے فن کی ترقی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ Lithotomy میں وہ موجودہ دَور کے عظیم ترین سرجنوں کا ہم پلہ تھے۔ اُن کا کام ’التصریف لِمن عجز عنِ التالیف‘ نئے تصوّرات کو متعارف کرواتا ہے۔ اُس کا ترجمہ کریمونا (Cremona) کے Gerard نے کیا اور اُس کے مختلف ایڈیشن 1497ء میں وِینس سے اور 1541ء میں باسلے اور 1778ء میں آکسفورڈ سے شائع ہوئے۔ اُنہوں نے اپنا مقام و مرتبہ صدیوں تک سرجری کے علم میں برقرار رکھا اور طب کے اِبتدائی اَیام میں بھی طبی سکولوں میں اچھے کام کے ساتھ متعارف رہے‘‘۔ سید حسین نصر نے ابنِ زہر کے مقام و مرتبہ کے بارے میں لکھا ہے : Al-Zahrawi's rank in the art of surgery was paralleled by that of Ibn Zuhr (Aven-Zoar) in the science of medicine (1091-1162 AD). Of the six medical works written by them three are extent. The most valuable is al-Taysir fil-Mudawat al-Tadbir (the Facilitation of Therapy and Diet). Ibn Zuhr is hailed as the greatest physician since Galen. At least he was the greatest clinician in Islam after al-Razi. Ibn Zuhr wrote another book, Kitab al-Aghdhiyah (the Book of Diets) which is among the best of its kind dealing with the subject. (Islamic Science, p.181) ترجمہ : ’’ابنِ زہر کا مرتبہ ادوِیہ (medicine) میں وُہی ہے جو الزہراوی کا سرجری (surgery) کے فن میں تھا۔ جو چھ قسم کا کام اُنہوں نے ’ادوِیہ سازی‘ پر کیا اُن میں سے تین ابھی تک جاری و ساری ہیں۔ سب سے گراں قدر کام ’خوراک اور غذائیت کی نشو ونما‘ ہے۔ گیلن کے بعد ابنِ زہر کو سب سے بڑا طبیب تسلیم کیا جاتا ہے۔ کم از کم ’الرازی‘ کے بعد دُنیائے اِسلام میں وہ سب سے بڑے مطب (clinic) کے مالک تھے۔ ابنِ زہر نے ایک اور تصنیف ’کتاب الاغذیہ‘ بھی ہے، جو اپنے موضوع کے اِعتبار سے اہم ترین کتب میں شمار ہوتی ہے‘‘۔ علمِ اَمراضِ چشم (Ophthalmology) مسلم اَطباء نے اَمراضِ چشم کی دواسازی میں بھی بیش بہا علمی اِضافے کئے۔ علی بن عیسیٰ نے اِنتہائی مشہور کتاب Tadhkirat al-Kahhalin لکھی اور مؤخر الذکر نے صدیوں تک ماہرینِ اَمراضِ چشم کی رہنمائی کی۔ علی بن عیسیٰ کی تصنیفات کو دُنیا میں ہر جگہ پڑھایا گیا حتیٰ کہ Tractus de Oculis Jesu ben Hali کے نام سے اُس کا لاطینی زبان میں ترجمہ بھی ہوا۔ اَمراضِ چشم سے وابستہ ایسی بہت سی فنی اِصطلاحات لاطینی زبان کے علاوہ دِیگر جدید یورپی زبانوں میں بھی اِستعمال ہو رہی ہیں، جن کا منبع عربی زبان ہے۔ اس سے اُن موضوعات پر اِسلامی اَثرات کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔ Muslim physicians also added valuable knowledge to another branch of medicine, Ali ibn Isa wrote the famous work, Tadhkirat al-Kahhalin (Treasury of Ophthalmologists) and Abu Ruh Muhammad al-Jurani entitled Zarrindast (the Golden Hand) wrote Nur al-Ain (the Light of the Eye). The last book has served practitioners of the art for centuries. Ali ibn Isa's works were taught everywhere and even translated into Latin as Tractus de Oculis Jesu ben Hali. Many of the technical terms pertaining to ophthalmology in Latin as well as in some modern European languages, are of Arabic origin, and attest to the influence of Islamic sources on this subject. (Islamic Science, pp.166-167) بیہوش کرنے کا نظام (Anaesthesia) علی بن عیسیٰ تاریخِ عالم میں پہلا سائنسدان تھا جس نے سرجری سے پہلے مریض کو بے ہوش و بے حس کرنے کے طریقے تجویز کئے۔ اندلس کا نامور سرجن ابوالقاسم الزہراوِی بھی آپریشن سے قبل مریض کو بے ہوشی کی دوا دینے سے بخوبی آگاہ تھا۔ اُسی عہد میں تیونس میں ایک اور ماہر اِسحاق بن سلیمان الاسرائیلی منظرِ عام پر آئے، جو اَمراضِ چشم کے ماہر تھے اور اُن کی تصنیفات کا ترجمہ بھی لاطینی اور عبرانی زبانوں میں کیا گیا۔ Ali ibn Isa was also the first person to propose the use of anaesthesia for surgery. Another person appeared at this time in Tunis, Ishaq ibn Sulaiman al-Israili, who practised ophthalmology and his works were also translated into Latin and Hebrew languages. (Islamic Science, p.178) علمُ الکیمیا (Chemistry) اِسلام کی تاریخ میں علمُ الکیمیا کے باب میں خالد بن یزید رضی اللہ عنہ (704ء) اور امام جعفرالصادق رضی اللہ عنہ (765ء) کی شخصیات بانی اور مؤسس کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ نامور مسلم سائنسدان ’جابر بن حیان‘ (776ء) اِمام جعفرالصادق رضی اللہ عنہ ہی کا شاگرد تھا، جس نے کیمسٹری کی دُنیا میں اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ مفروضہ اور تصوّر (hypothesis & speculation) کی بجائے اُنہوں نے تجزیاتی تجربیت (objective experimentation) کو رواج دیا اور اُن مسلم رہنماؤں کی بدولت ہی قدیم الکیمی (Alchemy) باقاعدہ سائنس کا رُوپ دھار گئی۔ evaporation، sublimation اور crystallization کے طریقوں کے موجد ’جابر بن حیان‘ ہی ہیں۔ اُن کی کتابیں بھی عرصۂ دراز تک یورپ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی ہیں۔ ’جابر بن حیان‘ اور اُن کے شاگردوں کی سائنسی تصانیف The Jabirean Corpus کہلاتی ہیں۔ اُن میں کتابُ السبعین (The Seventy Books) اور کتابُ المیزان (The Book of Balance) وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اُن کے علاوہ ’ابو مشعر‘، ’سہروردی‘، ’ابنِ عربی‘ اور ’الکاشانی‘ وغیرہ کا کام بھی کیمسٹری کی تاریخ کا عظیم سرمایہ ہے۔ یہ سب علمی اور سائنسی سرمایہ عربی زبان سے لاطینی اور پھر انگریزی میں منتقل کیا گیا۔ چنانچہ زبانوں کی تبدیلی سے مسلم سائنسدانوں کے نام بھی بدلتے گئے۔ مثلاً الرازی کو Rhazes، ابنِ سینا کو Avicenna، ابوالقاسم کو Abucasis اور ابنُ الھیثم کو Alhazen بنا دیا گیا۔ اِسی طرح عربی اِصطلاحات بھی تراجم کے ذرِیعے تبدیل ہو گئیں، نتیجتاً آج کا کوئی مسلمان یا مغربی سائنسدان جب تاریخ میں اُن ناموں اور اصطلاحات کو پڑھتا ہے تو وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ سب اِسلامی تاریخ کا حصہ ہے اور یہ اَسماء عربیُ الاصل (Arabic origin) ہیں۔ اِن حقائق کو جاننے کے لئے مزید ملاحظہ فرمائیں : 1. Prof. Hitti, History of the Arabs, pp.578-579 (London, 1974). 2. A and R. Kahane, The Krater and the Grail, Hermetic Sources of the Parzival, Urbana (Illinois, 1965). 3. Corbin, En Islamiranien vol.2, chap.4 (Paris, 1971). 4. F.a.Yates, Giordana Bruno and the Hermetic Tradition (London, 1964). 5. Syed Husain Nasir, Islamic Science (London, 1976). 6. George Sorton, An Introduction to the History of Science. 7. Briffault, The Making of Humanity. 8. Schaclt. J and Bosworth C.E. The Legacy of Islam (Oxford, 1947). 9. Watt-W.M. and Cachina P, A History of Islamic Spain (Edinlwrgh). 10. Robert Gulick L.Junior, Muhammad, The Educator (Lahore, 1969). فنونِ لطیفہ (Fine Arts) جہاں تک فنونِ لطیفہ کا تعلق ہے، قرآنِ مجید ہی کے شغف سے قرونِ وُسطیٰ میں ’فنِ خطاطی‘ (calligraphy) کو فروغ ملا۔ مساجد کی تعمیر سے ’فنِ تعمیر‘ (architecture) اور ’فن تزئین و آرائش‘ (decorative art) میں ترقی ہوئی۔ حرمِ کعبہ، مسجدِنبوی، بیتُ المقدس، سلیمانیہ اور دیگر مساجدِ اِستنبول ترکی، تاج محل، قصرِخُلد (بغداد)، جامع قرطبہ، الحمراء اور قصرُ الزہراء (اندلس) وغیرہ اِس فن کی عظیم تاریخی مثالیں ہیں۔ اندلس میں فنونِ لطیفہ کو تمام عالمِ اِسلام سے بڑھ کر تروِیج ملی اور وہاں خطّاطی (calligraphy)، موسیقی (music)، تعمیر و تزئین(architecture & decorative art)، مصوّری (painting)، فیشن اور دُوسرے بہت سے صنعتی فنون اپنے دَور کی مناسبت سے ترقی کی اَوجِ ثریا پر فائز تھے۔ اندلس کی ثقافتی ترقی اور فنونِ لطیفہ کے اِرتقاء کا ذِکر متعلقہ باب میں بالتفصیل ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ علمِ فقہ و قانون (Law & Jurisprudence) اِس باب میں اِمامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 150ھ) نے دُوسری صدی ہجری کے اَوائل میں ہی تاریخِ قانون میں اُن نادِر ذخائر کا اِضافہ کیا جو صدیاں گزرنے کے باوُجود آج تک مینارۂ نور ہیں۔ 1۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے بالخصوص اِمام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’السیرالکبیر‘ اور ’السیرالصغیر‘ کی صورت میں public international law اور private international law پر اِما مِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی فرمودہ تصانیف مرتب کیں۔ جن پر بعد ازاں اِمام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ نے ’شرحُ السیر‘ کے نام سے چار جلدوں پر مشتمل شرح لکھی، جو اپنے دَور میں آج کے strake اور oppeheim سے بہتر مجموعہ تھا۔ اِمام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی ہی 30 جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ’المبسوط‘ قانون (law) پر آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل کا لکھا ہوا ایک نادرُ المثال مجموعہ ہے۔ یہ تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے عطا کردہ فیض کا کارنامہ تھا کہ عالمِ اِسلام اُس دَور میں قانون پر ایسی کتب مہیا کر رہا تھا، جبکہ باقی پوری دُنیا جہالت کے اَٹاٹوپ اندھیروں میں گم تھی۔ آج مغرب کی علمی تاریخ میں اُس دَور کو dark ages کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جبکہ اہلِ اِسلام کے ہاں وہ دَور علوم و فنون کی روشنی سے درخشاں و منوّر تھا۔ 2۔ بین الاقوامی قانون پر اِمام زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 120ھ) کی کتاب ’المجموع‘ میں بھی مفصل باب شامل تھا۔ اِمام مالک رحمۃ اللہ علیہ، اِمام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ، اِمام محمد رحمۃ اللہ علیہ، اِمام اَوزاعی رحمۃ اللہ علیہ، اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ فقہ و قانون نے بھی اِس موضوع پر بھرپور مواد فراہم کیا، جو علمی و قانونی تاریخ کا بیش بہا سرمایہ ہے۔ 3۔ comparative case law، جو دورِ جدید کا ایک نہایت اہم قانونی فن اور علمی موضوع ہے، اُس پر دُوسری صدی ہجری میں ہی باضابطہ کام شروع ہو گیا تھا۔ دبوسی، ابنِ رُشد، شاطبی اور سیموری وغیرہ کی تصانیف اِس فن کے اَعلیٰ پایہ کے نمونے ہیں۔ 4۔ علمِ دستور (constitutional law) پر دُنیا کی سب سے پہلی باضابطہ دستاویز خود حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تیارہ کردہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ (The Pact of Madina) ہے، جو 63 دفعات (articals) پر مشتمل ہے۔ یہ آئینی و دستوری دستاویز ابنِ ہشام رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ اِسحاق رحمۃ اللہ علیہ، ابو عبید رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ سعد رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ اور ابنِ اَبی خثیمہ رحمۃ اللہ علیہ کے ذرِیعے کامل شکل میں ہم تک پہنچی۔ جدید مغربی دُنیا کا آئینی و دستوری سفر 1215ء میں اُس وقت شروع ہوا جب شاہِ انگلستان King John نے ’محضّرکبیر‘ (Magna Carta) پر دستخط کئے، جبکہ اُس سے 593 سال قبل ہجرت کے پہلے سال 622ء میں ریاستِ مدینہ میں حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اِنسانیت کو معاشی و سماجی عدل اور مساوات پر مُشتمل ایک جامع تحریری دستور دیا جا چکا تھا۔ یہ دُنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین (written constitution) ہے، جس سے قبل تاریخِ عالم میں باقاعدہ اور باضابطہ ریاستی دستور کے تحریر کئے جانے کی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ یہ تاریخِ علم و قانون اور تاریخِ سیاسیات میں حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا کارنامہ ہے۔ اُس سے پہلے شہری ریاستوں اور ہندوستان کے دساتیر سمیت منوسمرتی (500 ق م)، آرتھ شاستر (300 ق م) اور ارسطو (322ق م) کی تصانیف میں جو کچھ ملتا ہے وہ سب پند و نصائح پر مشتمل درسی اور تعلیمی نوعیت کا کام ہے۔ ارسطو کا ’شہر ایتھنز کا دستور‘ (Athenian Constitution) جو گزشتہ صدی میں مصر سے دریافت ہوا اور 1891ء میں شائع ہوا، وہ بھی اِسی نوعیت کا کام ہے جو مسلمانوں کے ہاں ’نصیحتُ الملوک‘ جیسی کتابوں میں عام پایا جاتا ہے، جن میں کسی ریاست کا نظام چلانے کے سلسلے میں بادشاہوں کے لئے پندونصائح شامل ہیں۔ کسی سربراہِ ریاست یا حکومت کی طرف سے ارسطو کی یہ دستاویزات باقاعدہ دستور کے طور پر نافذ ہوئیں اور نہ ہی وہ اِس نوعیت کے دستاویز تھیں کہ اُنہیں نافذ کیا جاتا۔ یہ شان سب سے پہلے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کو حاصل ہوئی اور یہ اَمر سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک درخشندہ تاریخی باب ہے۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دستوری و آئینی کام کے باضابطہ آغاز کے بعد اِس موضوع پر الماوردی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوعلی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الاحکام السلطانیہ‘، غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی ’نصیحۃُ الملوک‘، طرطوسی رحمۃ اللہ علیہ کی ’سراجُ الملوک‘ اور الفارابی رحمۃ اللہ علیہ کی ’المدینہ الفاضلہ‘ جیسی درسی کتب بھی معرضِ وُجود میں آئیں۔ الغرض مسلمانوں کی دستوری و آئینی خدمات میں سے سب سے اہم خدمت یہ ہے کہ اُنہوں نے ریاست کے تین اہم اعضاء مقننہ (legislature)، اِنتظامیہ (executive) اور عدلیہ (judiciary) کو الگ الگ تشخص دیا۔ اُنہیں عہدِ خلافتِ راشدہ میں ہی ’اہل الحل والعقد‘، ’اُولی الامر‘ اور ’القضا‘ کے مستقل نام دے دیئے گئے تھے اور اُن کے دائرہ ہائے کار بھی متعین کر دیئے گئے تھے، جبکہ مغربی علمِِ دستور میں اُن کا تصوّر بہت بعد میں فروغ پذیر ہوا۔ 5۔ Common law پر باقاعدہ فقہی و قانونی مجموعات (juristic & legal codes) بھی اِسلام کی دُوسری صدی کے اَوائل میں مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ جنہیں باقاعدہ حصص اور اَبواب (parts & chapters) میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ عبادات (religious laws)، مناکحات (family laws)، معاملات و معاہدات (civil & contractual laws)، عقوبات (penal laws)، مالیات (fiscal laws) اور قضا و شہادات (procedural & evidence laws) وغیرہ کی باقاعدہ قانونی تقسیم بھی تاریخِ اِسلام کی پہلی صدی میں ہی عمل میں آچکی تھی۔ یہ سب وہ علمی نظم تھا جو مسلمانوں کو اَوائلِ اِسلام سے ہی قرآنِ مجید کی تعلیمات اور حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کے ذریعے میسر آگیا تھا، جبکہ اُس وقت مغربی دُنیا بنیادی حقوق انسانی اور علم و آگہی کے تصوّر سے ہی یکسر محروم تھی۔ اِمام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب ’ظاہرالروایہ‘ جنہیں اُن کے شاگرد اِمام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب کیا، اُن کے علاوہ اِمام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی ’الموطا‘، اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ الام‘ اور دیگر ائمہ کی تصانیف کے ذریعے فقہ و قانون کا عظیم سرمایہ معرضِ وُجود میں آگیا تھا۔ بعد اَزاں ’’فقہ حنفی‘‘ میں سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی ’المبسوط‘، مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الھدایہ‘، ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کی ’فتح القدیر‘، کاسانی رحمۃ اللہ علیہ کی ’بدائع الصنائع‘ وغیرہ، ’’فقہ مالکی‘‘ میں ابنِ سحنون رحمۃ اللہ علیہ کی ’المدوّنۃ الکبریٰ‘، ابنِ جزی رحمۃ اللہ علیہ کی ’القوانین الفقیہ‘، ابنِ فرحون رحمۃ اللہ علیہ کی ’تبصرۃُ الحکام‘، الخطاب رحمۃ اللہ علیہ اور خرشی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح ’المختصر‘ وغیرہ، ’’فقہ شافعی‘‘ میں نووی رحمۃ اللہ علیہ کی ’المجموع‘، غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الوجیز‘، بصیر رحمۃ اللہ علیہ کی ’النہایہ‘ وغیرہ، ’’فقہ حنبلی‘‘ میں ابنِ قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ المغنی‘ اور ابنِ القیم رحمۃ اللہ علیہ کی ’اعلام الموقعین عن رب العالمین‘، ابنِ حزم رحمۃ اللہ علیہ کی ’المحلی‘ اور القرافی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الفروق‘ وغیرہ، ’’فقہ جعفریہ‘‘ میں الحلی رحمۃ اللہ علیہ کی ’شرائع الاسلام‘ جواد مغنیہ رحمۃ اللہ علیہ کی ’فقہ الامام جعفر الصادق‘ وغیرہ اور ’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ (الجزیری) جیسی کتب مرتب ہوتی رہی ہیں۔ Case law پر فتاویٰ اور شرعی فیصلہ جات (judicial decisions) کے ’فتاویٰ قاضی خان‘، ’فتاویٰ بزازیہ‘، ’فتاویٰ ابنِ تیمیہ‘، ’فتاویٰ اِمام نووِی‘، ’فتاویٰ اِمام سبکی‘ اور ’فتاویٰ الہندیہ‘ جیسے مجموعات مرتب ہوئے۔ 6۔ fiscal & taxation law اور administrative law میں اِمام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور یحییٰ بن آدم رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ الخراج‘ اور ابو عبید قاسم بن سلام رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ الاموال‘ اوائل دَور کے بہترین علمی شہ پارے ہیں۔ علم تاریخ اور عمرانیات (Historiography & Sociology) اِن علوم میں بھی اِسلام کی اِبتدائی صدیوں میں گرانقدر سرمایہ جمع کیا گیا، جس کے ذریعے نہ صرف سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلکہ دس ہزار سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے حالات و سوانح بھی پوری تحقیق کے بعد مرتب ہوئے۔ تاریخِ اِسلام میں اِس علم کو ’اَسماءُ الرِجال‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، جس کے تحت محققین نے 5 لاکھ سے زیادہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور دِیگر رُواۃِ حدیث کے اَحوالِ حیات مرتب کئے۔ یہ فن اپنی نوعیت میں منفرد ہے جو دُنیا کی کسی قوم اور مذہب میں تھا اور نہ ہے۔ ابنِ اِسحاق رحمۃ اللہ علیہ، جنہوں نے عہدِ حضرت آدم علیہ السلام سے عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پوری اِنسانی تاریخ مرتب کی، اِسلام کے عظیم اوّلیں مورخین میں سے ہیں۔ اِسی طرح ابنِ ہشام رحمۃ اللہ علیہ، طبری رحمۃ اللہ علیہ، مسعودی رحمۃ اللہ علیہ، مسکویہ حلبی رحمۃ اللہ علیہ، اندلسی رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ خلدون رحمۃ اللہ علیہ، دیار بکری رحمۃ اللہ علیہ، یعقوبی رحمۃ اللہ علیہ، بلاذری رحمۃ اللہ علیہ، ابنُ الاثیر رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ، سہیلی رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ سیدُالناس رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے کام بھی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، جبکہ political thought اور sociology میں غزالی رحمۃ اللہ علیہ، فارابی رحمۃ اللہ علیہ، ماوردی رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ خلدون رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ رُشد رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، ابنُ القیم رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ محدّث دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیفات نہایت اہم ہیں۔ جغرافیہ اور مواصلات (Geography & Communications) اِسلامی عہد کے عروج کے موقع پر علمِ جغرافیہ میں بھی خوب ترقی ہوئی۔ بلاذری رحمۃ اللہ علیہ اور ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ عہدِ فاروقی میں ہی خلافتِ اِسلامیہ کی ڈاک ہر وقت ’ترکستان‘ (Central Asia) سے ’مصر‘ (Egypt) تک کے علاقے میں روانہ ہوتی تھی۔ geography اور topography کے ماہرین ڈاک کے ساتھ دورانِ سفر تمام علاقوں کے نقشے تیار کر کے لف کرتے اور تمام متعلقہ مقامات کی جغرافیائی، تاریخی اور اِقتصادی معلومات بھی بترتیبِ ہجائی (alphabetic order) میں فراہم کرنے کا اِہتمام کیا جاتا تھا۔ اوائل دورِ اسلام میں ’ابنِ حوقل‘ نے بھی معلوم کرۂ ارض کے نقشے تیار کئے اور cartography کے فن پر تحقیق کی۔ اپنے بنائے ہوئے نقشوں میں اُس نے زمین کو کروِی شکل (circular shape) میں دِکھانے کے ساتھ ساتھ بحیرۂ رُوم (mediterranian sea) کی حدُود کی صحیح شناخت بھی کروائی۔ اِسی طرح ’الادریسی‘ کا نقشہ جو شاہِ سسلی (1101ء۔ 1154ء) کے لئے آج سے 9 صدیاں قبل تیار کیا گیا تھا، اُس میں دُنیائے عالم کے طوِیل ترین دریا ’دریائے نیل‘ (Nile) کے مصادر (sources) تک کی خبر دی گئی ہے، جو اُس کے ڈیلٹا سے 6,670 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ ’یاقوت حموِی رحمۃ اللہ علیہ ‘ نے ’معجمُ البلدان‘ کے نام سے جغرافیہ پر اُس وقت کی سب سے بڑی معجم (dictionary) مرتب کی، جس نے اہلِ دُنیا کو دُنیا کا علم فراہم کیا۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے دُنیا کے تمام بڑے شہروں اور قصبوں کی تفصیلات حروفِ تہجی کی ترتیب (alphabetic order) سے پیش کی ہیں۔ ’خوارزمی‘ نے ’صورۃُ الارض‘ (Image of the Earth) کے نام سے ایسا جغرافیائی مطالعہ اہلِ علم کو عطا کیا جو بعد ازاں جدید جغرافیہ کی بنیاد بنا۔ ’حمدانی‘ (945ء) نے آج سے گیارہ سو سال قبل چوتھی صدی ہجری میں علمِ جغرافیہ میں اِنتہائی گرانقدر معلومات کا اِضافہ کیا۔ نامور مغربی مؤرِخ Prof. Hitti نے اِن مسلمان ماہرینِ فن کی علمی خدمات کے اِعتراف میں لکھا ہے کہ : "The bulk of this scientific material, whether astronomical, astrological or geographical, penetrated the west through Spanish and Sicilian channels." (History of the Arabs, pp.383-387) ترجمہ : ’’اُس سائنسی مواد کا زیادہ تر حصہ۔۔۔ خواہ وہ ’علمِ فلکیات‘ (اَجرامِ سماوِی کا علم) کے مطالعہ پر مبنی ہو یا ’علم نجوم‘ (پیش بینی) کے مطالعہ پر یا ’علم جغرافیہ‘ پر مبنی ہو۔۔۔ اندلس (Spain) اور (اٹلی کے جنوبی ساحل پر واقع جزیرے) سسلی (Sicily) کے ذریعے عالمِ مغرب میں داخل ہوا‘‘۔ علمِ جغرافیہ (geography) میں قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان اِس قدر مشّاق تھے کہ اُن کا فن عالمی شہرت اِختیار کر گیا تھا۔ چنانچہ 1331ء میں چین (China) کا سرکاری نقشہ (official map) بھی مسلمان جغرافیہ دانوں نے ہی تیار کیا تھا۔ (Islamic Culture, 8 : 514, Oct.1934) وہ ہزارہا اِسلامی سکے جو جزیرہ نمائے سکینڈے نیویا (Scandinavia)، فن لینڈ (Finland)، کازن (Kazan) اور رُوس (Russia) کے دِیگر دُور دراز مقامات کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں، مسلمانوں کے اوائلِ اسلام میں کئے جانے والے تجارتی سفروں اور عالمی سرگرمیوں کی خبر دیتے ہیں۔ Vasco de Gama کے پائلٹ ابنِ ماجد نے مسلمانوں میں اُس دَور میں قطب نما (compass) کے اِستعمال کی خبر دی ہے۔ اِس فن کی بہت سی جدید اِصطلاحات میں بھی قرونِ وُسطیٰ کے عرب مسلمان سائنسدانوں کی باقیات ملتی ہیں۔ حتیٰ کہ arsenal, admiral, cable, monsoon اور tariff وغیرہ جیسے بے شمار عربیُ الاصل اَلفاظ و اِصطلاحات آج کی جدید دُنیا میں بھی متداوَل ہیں، جس سے جدید مغربی کلچر پر مسلم علم و ثقافت کے اَثرات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحرائے عرب کے اَن پڑھ باسی جن کے ہاں پڑھنا لکھنا بھی عیب تصوّر ہوتا تھا، جن کی بدوِی زندگی میں صدیوں تک علمی و فکری ترقی کے ظاہراً کوئی اِمکانات دکھائی نہ دیتے تھے اور ’فتوحُ البلدان‘ میں ’بلاذری‘ کی رِوایت کے مطابق جس قوم کی شرحِ خواندگی کا یہ عالم تھا کہ مکہ شہر کے گرد و نواح میں آباد لاکھوں کی آبادی میں کل 10 سے 15 اَفراد ایسے تھے جو سادہ حد تک لکھ پڑھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ کسی کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا تھا۔ وہ قوم تعلیمی پسماندگی کی اُس حالت سے اُٹھ کر صرف ایک ہی صدی کے بعد علم و فن، تہذیب و ثقافت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے آسمان پر ستاروں کی طرح چمکنے لگی اور پوری دُنیائے تاریک میں تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون کی روشنی پھیلانے لگی۔ آخر اس محیرالعقول علمی و فکری اور سائنسی و ثقافتی اِنقلاب کا سبب کیا تھا؟ کیا یہ عدیمُ المثال اِنقلاب صرف اور صرف حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضانِ سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دی گئی اِسلام کی آفاقی تعلیمات کا نتیجہ نہیں تھا جس نے اَن پڑھ صحرا نشینوں کو ہزارہا علوم و فنون کا بانی اور جدید تہذیب و ثقافت کا مؤسس بنا دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس نے مغربی مفکرین اور مؤرِخین کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اُن کے ذِہنوں میں بھی یہی سوال اُٹھا ہے اور بعضوں نے اُس کا صحیح جواب تلاش کر لیا ہے اور بعض ابھی تک متذبذب ہیں۔ اِسلامی سائنس اور مستشرقین کے اِعترافات یہ ایک حقیقت ہے کہ دُنیائے علم و ثقافت میں عرب مسلمانوں کی یہ حیرت انگیز ترقی اِسلام کی آفاقی تعلیمات ہی کی بدولت ممکن ہوئی اور جب تک مسلمان بحیثیتِ قوم قرآن و سنت کی فطری تعلیمات سے متمسّک رہے رُوحانی بلندی کے ساتھ ساتھ مادّی ترقی کی بھی اَوجِ ثریا پر فائز رہے اور جونہی اُنہوں نے لغزش کی اور اِسلامی تعلیمات سے اِعراض کا رستہ اپنایا قعرِ مذلّت میں جا گرے۔ ایک غیر مسلم مؤرّخ نے اِسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے : The coming of Islam six hundred years after Christ, was the new, powerful impulse. It started as a local event, uncertain in its outcome; but once Muhammad conquered Makkah in 630 AD, it took the southern world by storm. In a hundred years, Islam conquered Alexandria, established a fabulous city of learning in Baghdad and thrust its frontier to the east beyond Isfahan in Persia. By 730 AD the Muslim Empire reached from Spain and Southern France to the borders of China and India. An empire of spectacular strength and grace while Europe lapsed into the Dark Age۔۔۔ Muhammad had been firm that Islam was not to be a religion of miracles, it became in intellectual content a pattern of contemplation and analysis. (J Bronowski, The Ascent of Man, London 1973, pp.165-166) ترجمہ : ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چھ سو برس بعد اِسلام کا ظہور ایک نئی توانا تحریک کے طور پر ہوا۔ اُس کا آغاز ایک مقامی حیثیت سے ہوا، اور شروع میں نتائج کے اِعتبار سے صورتِ حال غیر یقینی تھی، مگر نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 630ء میں جونہی فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے تو دُنیا کے جنوبی حصہ میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی۔ ایک صدی کے اندر ’اسکندریہ‘ فتح ہوا، ’بغداد‘ اِسلامی علم و فضل کا شاندار مرکز بنا اور اِسلامی حدوں کی وُسعت مشرقی اِیران کے شہر ’اِصفہان‘ سے آگے نکل گئی۔ 730ء تک اِسلامی سلطنت ’اندلس‘ اور ’جنوبی فرانس‘ کو سمیٹتی ہوئی ’چین‘ اور ’ہندوستان‘ کی سرحدوں تک جا پہنچی۔ طاقت اور وقار کی اِس اِمتیازی شان کے ساتھ جہاں مسلم سلطنت اپنے عروج پر تھی وہاں یورپ اُس وقت پستی اور تنزّل کے تاریک دَور سے گزر رہا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسلام کو معجزات کے محدُود دائرہ میں رکھنے کی بجائے اُسے غور و فکر اور تجزیہ کی نمایاں عقلی و فکری چھاپ عطا کی۔ اِسی طرح Robert L. Gulick نے بیان کیا ہے : It should be borne in mind, however, that these aphorisms (maxims found in ahadith) have been widely accepted as authentic and it cannot be doubted that they have exerted a wide and salutary influence. The words attributed to Muhammad must assuredly have stimulated and encouraged the great thinkers of the Golden Age of Islamic civilisation. (Muhammad, The Educator) ترجمہ : ’’اِس اَمر کو بخوبی ذِہن میں رکھنا چاہئے کہ ان اَحادیث کو اِنتہائی مستند حیثیت حاصل رہی ہے اور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُن اِرشادات کا بہت مفید اور گہرا اَثر مرتب ہوا ہے۔ اُن اَحادیث نے اِسلامی تہذیب کے سنہری دَور کے عظیم مفکرین پر نہایت صحتمند اور رہنما اَثر ڈالا ہے‘‘۔ پروفیسر Robert علم اور حصولِ علم کی اہمیت و فضیلت پر مبنی آیات و اَحادیث کے ذِکر کے بعد مزید لکھتا ہے : These statements must not be construed as idle and useless words. The results have been very substantial. The strength of Islamic science was its devotion to practical matters rather than to the vague notions of the Byzantine Greeks. (Muhammad, The Educator) ’’Robert L. Gulick کہتا ہے کہ (اِسلام کے) اُن اَقوال کو بے فائدہ اور بے مقصد نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ اُن پر عمل کرنے سے ٹھوس نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ اِسلامی سائنس کی اصل طاقت اِس اَمر میں مضمر ہے کہ یہ بازنطینی یونانی واہموں کے برعکس تجرباتی اُمور پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے‘‘۔ اِس موضوع پر مغرب کے نامور مؤرِخ اور محقق Robert Briffault کا تجزیہ ملاحظہ ہو۔ وہ لکھتا ہے : It is highly probable that but for the Arabs, modern European civilisation never have assumed that۔۔۔ character which has enabled it to transcend all previous phases of evolution. For although there is not a single aspect of European growth in which the decisive influence of Islamic culture is not traceable, nowhere is it so clear and momentous as in the genesis of that power which constitutes the paramount distinctive force of the modern world and the supreme source of its victory, natural science and the scientific spirit. What we call science arose in Europe as a result of a new spirit of enquiry, of new methods of investigation, experiment, observation and measurement of the development of mathematics in a form unknown to the Greeks. That spirit and those methods were introduced into the European world by the Arabs. (The Making of Humanity, pp.190-191) رابرٹ بریفالٹ نے کہا ہے کہ اِس بات کا غالب اِمکان ہے کہ عرب مشاہیر سے خوشہ چینی کئے بغیر جدید یورپی تہذیب دورِ حاضر کا وہ اِرتقائی نقطۂ عروج کبھی حاصل نہیں کر سکتی تھی جس پر وہ آج فائز ہے۔ یوں تو یورپی فکری نشوونما کے ہر شعبے میں اِسلامی ثقافت کا اثر نمایاں ہے لیکن سب سے نمایاں اثر یورپی تہذیب کے اُس مقتدِر شعبے میں ہے جسے ہم تسخیرِ فطرت اور سائنسی وِجدان کا نام دیتے ہیں۔ یورپ کی سائنسی ترقی کو ہم جن عوامل کی وجہ سے پہچانتے ہیں وہ ’جستجو‘، ’تحقیق‘، ’تحقیقی ضابطے‘، ’تجربات‘، ’مُشاہدات‘، ’پیمائش‘ اور ’حسابی مُوشگافیاں‘ ہیں۔ یہ سب چیزیں یورپ کو معلوم تھیں اور نہ یونانیوں کو، یہ سارے تحقیقی اور فکری عوامل عربوں کے حوالے سے یورپ میں متعارف ہوئے۔ یہ بات بڑی حوصلہ اَفزا ہے کہ مغربی مفکرین نے اِس حقیقت کو اِن کھلے اَلفاظ میں تسلیم کیا ہے : There is no doubt that the Islamic sciences exerted a great influence on the rise of European science; and in this Renaissance of knowledge in the west there was no single influence, but diverse ones; the main influence was of course, from Spain, then from Italy and Palestine through the crusaders, who had mixed with Muslims and seen the effect of sciences in Muslim culture. (Joseph Schacht & C.E.Bosworth, The Legacy of Islam, pp.426-427) ترجمہ : ’’اِس اَمر میں قطعی کوئی شبہ نہیں کہ یورپ کے سائنسی فکر پر اِسلامی سائنسی فکر کا گہرا اَثر مرتب ہوا۔ مغرب کی اِس علمی نشاۃِ ثانیہ پر دِیگر کئی اَثرات بھی مرتب ہوئے۔ مگر بنیادی طور پر سب سے گہرا اَثر اندلس (Spain) سے آیا، پھر اٹلی اور فلسطین کی جانب سے اَثرات مرتب ہوئے کیونکہ صلیبی جنگوں نے مغربی ممالک کے لوگوں کو فلسطینی مسلم ثقافت اور سائنسی اُسلوب سے رُوشناس کرایا‘‘۔ ایک اور یورپی محقق نے اِس اَمر کی تصریح اِن اَلفاظ میں کی ہے : Islam, impinging culturally upon adjacent Christian countries, was the virtual creator of the Renaissance in Europe. (Stanwood Cobb, Islam's Contribution to World Culture) Stanwood Cobb نے اپنی درج بالا کتاب میں یہاں تک کہا ہے کہ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ حتمی طور پر اِسلام کا مرہونِ منت ہے۔ اِس اِعترافِ حقیقت کے ساتھ ساتھ یورپی محققین نے براہِ راست اِس سوال پر بھی توجہ کی ہے کہ وہ اِنقلاب کس چیز کے زیرِاثر آیا اور اُس کا محرّک کیا تھا؟ Robert L. Gulick نے درج ذیل اَلفاظ میں اِس حقیقت کا برملا اِظہار کیا ہے : That important contributions to world intellectual progress were made by the Arabs is not open to question. But were these development the result of the influence of Muhammad? (Muhammad, The Educator) ترجمہ : ’’یہ ایک مصدّقہ حقیقت ہے کہ دُنیا کی شعوری ترقی میں عربوں نے نہایت اہم کردار اَدا کیا، مگر کیا یہ ساری ترقی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَثر کا نتیجہ نہ تھی‘‘۔ اُس نے ’بریفالٹ‘ کے اِس نقطۂ نظر کو ردّ کر دیا ہے کہ عرب سائنسدانوں کا مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا اور یہ تمام ترقی عرب علماء اور سائنسدانوں کی اپنی محنت تھی۔ اُس کے نزدیک اِس تمام ترقی کی بنیاد صرف اور صرف دینِ اِسلام اور سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی، جس کے ذرِیعے عرب مسلمان اور سائنسدان علوم و فنون اور تحقیق و جستجوکی شاہراہ پر گامزن ہو گئے تھے۔ Reverend George Bush نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے : No revolution in history, if we accept that affected by the religion of the Gospel, has introduced greater changes into the state of the civilised world than that which has grown out of the rise, progress and permanence of Muhammadanism. (The Life of Muhammad) ترجمہ : ’’اِلہامی کتابوں کے حوالہ سے کوئی بھی تاریخی اِنقلاب اِتنے ہمہ گیر اَثرات کا حامل نہیں جس قدر پیغمبرِ اسلام کا لایا ہوا اِنقلاب جسے اُنہوں نے پائیدار بنیادوں سے اُٹھایا اور بتدرِیج اُستوار کیا‘‘۔ قرآن اور جدید سائنس از ڈاکٹر طاہر القادری
سیکس ایجوکیشن۔۔۔ گمراہی کا ہتھکنڈہ
ابتدائے آفرینش سے ہی انسان اور شیطان کے درمیان نیکی اور بدی کی جنگ جاری ہے۔ شیطان نے پہلا وار انسان کی شرم و حیا پر ہی کیا تھا جسکے نتیجے میں انسان کو جنت سے نکلنا پڑا۔ شرم و حیا انسان کی فطرت کا بنیادی جزو ہے۔ یہ اگر عورت کا زیور ہے تو مرد کے لیے زینت ہے۔ اللہ تعالی نے مرد و عورت کے درمیان فطری کشش پیدا کی ہے جس کا مقصد نسلِ انسانی کی بقا ہے۔لیکن شیطان مردود اس جذبے کو استعمال کرتے ہوئے انسان کو اشرف المخلوقات سے اسفل السافلین کے درجے پر دھکیلنے میں مسلسل کوشاں ہے۔ سیکس ایک فطری جذبہ ہے جو کہ قدرت نے ہر جاندار میں پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے یہ ودیعت کردہ جذبہ ایک دوسرے کے لیے الفت و محبت کا سبب بنتا ہے جسکے ذریعے ایک جوڑا نہ صرف اپنی نسل میں اضافہ کرتا ہے بلکہ اپنی پوری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ بسر کرتا ہے۔ لیکن آجکل اسی فطری جذبے کو مغرب تہذیب نے نوجوان نسل کو شخصی آزادی کے نام پر مادر پدر آزادی دی ہے اور اسے صرف جسمانی تسکین اور عیاشی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ جسکے نتیجہ میں میں ہر دوسری لڑکی کی گود میں ناجائیز بچہ ہوتا ہے جسکے باپ کا بھی کوئی علم نہیں ہوتا۔ہم جنس پرستی عام ہے۔ شادی اور خاندان جیسے انسیٹیوٹ تباہی کی دہانے پر ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان پیار و محبت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ۔محرم یا نامحرم کی تمیز کئے بغیر صرف جنسی تسکین ہی مقصود ہوتی ہے۔ حتی کے فیملی سیکس کے نام پر مغربی معاشرہ اپنی غلاضت کی آخری حد کو چھو رہا ہے۔مغربی معاشرے میں زندگی کا مفہوم صرف اور صرف جنسی تسکین اور عیاشی ہی رہ گیا ہے۔ مغربی اخبارات لیے گئے اعدادو شمار کے مطابق صرف برطانیہ میں ناجائیز بچوں کی تعداد اکتالیس فیصد اور امریکہ میں تنتیس فیصد ہے۔ برطانیہ میں طلاق کا تناسب اکاون اور امریکہ میں پچاس فیصد ہے۔ ہالینڈ میں '' سیکس فری '' قانون کے مزے لوٹنے والوں میں تیس فیصد سے زائد لڑکیاں ایسی ہیں جو کہ اپنے ہی سگے باپ یا بھائی کے گناہ کا نتیجہ بھگت رہی ہوتی ہیں۔ امریکہ میں ہر چھ منٹ کے بعد عصمت دری کا واقعہ پیش آتا ہے اور سویڈن جیسے مہذب ملک میں ستر فیصد لڑکیاں شادی سے پہلے حاملہ ہوجاتی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں ماڈرن ازم اور سیکس ایجوکیشن کے نام پر اسلامی معاشرے میں بھی اسی آزادی کی ترویج کی کوشش کی جا رہی تاکہ نوجوان نسل کو ذہنی عیاشی کا عادی بنایا جائے۔ اور اس کا ہتھیار بنے ہوئے ہیں ہمارے مغربی تہذیب اور نام نہاد ماڈرن ازم کے دلدادہ افراد جو کہ سیکس ایجوکیشن کے نام پر عریانیت کی ترویج اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا میں مصروف ہیں۔ نوجوان کسی بھی معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں، اگر ان کے ذہنوں کو ملک و قوم اور مذہب کے خلاف کر دیا جائے تو اس قوم کو نیست و نابود کرنے کا سامان ہو جاتا ہے۔ یہی آج ہمارے نوجوانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔۔۔ سیکس ایجوکیشن کے نام پر ان کے شہوانی جذبے کو ہوا دی جا رہی ہے اور مذہب کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کو ان کے لیے دقیانوسی اور ناروا کہہ ان کے ذہنوں میں اپنے من پسند نظریات ٹھونسے جا رہے ہیں۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ معاشرہ مغربی شہوانیت پرستی کے سیلاب میں بہہ کر حیوانیت کی سطح پر اتر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں معاشرے میں بےراہ روی،بےحیائی، انتشار اور نفسانفسی کا عالم نظر آتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرتی اقدارو اخلاق کو شکست و ریخت سے بچانے کی خاطر معاشرے کا ہر فرد اپنا کردار ادا کرے اور اپنے آپ کو دینِ اسلام کے قالب میں ڈھالے۔ اللہ تعالی ہمیں دشمنانِ اسلام کےشر سے محفوظ فرمائے۔ آمین
ماڈرن ازم ''عورت'' کی تذلیل
علامہ اقبال نے کہا تھا: وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اس کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں بلاشبہ عورت ہر رشتہ میں مرد کے لیے دوست، غمخوار، مددگار اور راحت کا باعث ہے۔ عورت معاشرے کا ایک اہم رکن ہے۔ چونکہ عورت گھرکے امور کی ذمہ دار اس لیے گھر کے افراد کی تعلیم و تربیت، کردار سازی اور ذہن سازی میں عورت کا کردار اہم ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر گھر کامحاذ سنبھلنے والی عورت غلط اور فاسد خیالات کی حامل ہو گی تو اس گھر کا کیا حشر ہوگا؟؟ یقیناََ اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔ آج ہمارا کچھ ایسا ہی حال ہے۔ آج ہم نے ماڈرن ازم کے نام پر مغربی تہذیب و تمدن کی پیروی کو اپنا اہم فریضہ سمجھ لیا ہے۔ آزادی نسواں کے حسین اور پُرفریب نعرہ کو لگاتے ہوئے آج کی عورت سماجی، سیاسی، معاشی غرض ہر سطح پر بدترین استحصال اور تذلیل کا سامنا کر رہی ہے۔ ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ کیٹ ہڈسن نے ۲۰۰۴ء میں ایک بھارتی روزنامہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا : '' یہ ایک بہترین امر ہے کہ اگر آپ ایک خاتون ہیں جو باہر اور مقامات پر کام کرتی ہیں تو سب سے بہتر اور محفوظ مقام آپ کے لیے آپ کا گھر ہے۔ میری خواہش ہے کہ کاش میں ایک وفاشعار بیوی اور شفیق ماں ہوتی۔'' ایک معاشی طور پر مستحکم اور ہزاروں دلوں کی دھڑکن اداکارہ کی جانب سے ایسی خواہش کا اظہار اس سوچ اور پراپیگنڈہ کے منہ پر طمانچہ ہے جو خود مختار عورت کو ماڈرن ازم کی معراج سمجھتے ہیں۔ گلوبلائیزیشن کے بڑھتے ہوئے رحجان کے تناظر میں آزادی نسواں کا نعرہ دنیا بھر کی خواتین کا پسندیدہ نعرہ بن چکا ہے۔۔ اس کے اغراض و مقاصد یہ ہے کہ معاشرہ مساواتِ مرد و زن کے بنیادی اصول پر استوار ہو۔ اس تحریک کے حامیوں کا دعوی ہے کہ عورت کو اس کے حقوق اسی تحریک کے ذریعے ملے ہیں مگر اگر ایمانداری سے تجزیے کیا جائے تو اسی تحریک کے نتائج یہ ہے کہ آج کی ماڈرن عورت کا دامن نسائیت، عصمت و عفت، احساسِ تحفظ، امن و سکون، احترام و وقار سے خالی ہے ۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ ذہنیت نے خواتین کو گھر سے باہر نکلنے کی ترغیب دیکر صرف اور صرف اپنے لیے معاشی فوائد حاصل کئے ہیں اور انہیں شمعِ محفل بنا ڈالا ہے۔ ایک طرف تو اس ذہنیت نے عورت کو گھروں سے باہر نکال فیکٹریوں، کارخانوں، دکانوں پر لاکھڑا کیا ہے تو دوسری طرف اسی سوچ نے عورت کو میڈیا کی دنیا میں ''کمیوڈیٹی ''کے طور پر استعمال کیا ہے۔ عورت کی حثیت مخص '' شو پیس'' کی سی ہے۔ ایک طرف تو مادر پدر آزادی کا حق دیا جاتا ہے اور دوسری طرف منفعت کے لیے جسم فروشی کو جائیز قرار دیا جاتا ہے۔ تمام اعلی عہدوں پر مغربی مرد قابض ہیں جبکہ عورتوں کو اشتہار بنا دیا گیا ہے ،اس بیچاری کو اداکارائیں، گلوکارائیں، رقاصائیں،ماڈل گرل، کال گرل،ائیرہوسٹس، ویٹریس، سیلز گرل اور پورنو گرافی کے دلدل میں پھینک کر نعرہ دیا گیا ہے آزادی نسواں کے نام پر مردوں سے برابری کا۔ آج کی مغربی عورت معاشرے میں جنسی تسکین کے حصول کا ایک ٹول یا ذریعہ ہے۔ جوں جوں اس کی عمر بڑھتی جاتی ہے وہ معاشرے کے لیے عضوِ معطل کی حثیت اختیار کر لیتی ہے اور اس کی آخری منزل اولڈ ہاوس ہوتے ہیں۔ یہ اسی آزادی مساوات کے ثمرات ہیں کہ آج کی مغربی عورت حقوق تو برابر کے ملے نہیں لیکن فرائض ضرور برابر کے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ وہ معاشی میدان میں مرد کے مساویانہ خرچ کی ذمہ دار ہے تو گھر آ کر اپنے حصے کا آدھا گھریلو کام بھی کرتی ہے۔ پھر اسے اپنے شوہر کے معاشقوں کو بھی کھلے دل کے ساتھ برداشت کرنا پڑتا ہے کہ یہ ان کی ننگی تہذیب و تمدن کا حصہ ہے۔اس پر مستزاد اگر شوہر اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ وقت گزار کر آیا ہے اور واپس آکر بیوی سے منہ پھیر کر سو گیا ہے تو آزادی نسواں کے نام پر مغربی عورت کو پورن فلمز سے اپنا دل بہلانا پڑتا ہے۔ اور پھر اگر ان کے شوہر ان کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو بچوں کی پرورش بھی اس کی ہی ذمہ داری ہے۔ کیا ماڈرن کہلوانے والی عورت کی اس سے بڑھ کر اور تذلیل ہو سکتی ہے؟؟؟؟ مغربی معاشرے کی اخلاقی ساکھ اور گھریلو نظام تباہی کے دہانے پر ہے ۔ آج اسی تہذیب و تمدن کو آزادی نسواں اور ماڈرن ازم کے پُرفریب نعرے کے پردے کے پیچھے سے مسلم خواتین کو اپنی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے ۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ ہمارا معاشرہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مثالی معاشرے کہلوانے کا مستحق نہیں لیکن اس کی بھی اصل وجہ دین سے دوری اور غیر ملکی تہذیب و تمدن سے متاثر ہونا ہے۔ اسکے باوجود مشرقی عورت کو آج بھی گھر کے چراغ کی حثیت حاصل ہے۔ جوں جوں اس کی عمر بڑھتی ہے اس کے حفظ و مراتب اور عزت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ نہ صرف گھر میں بلکہ معاشرہ بھی اسے تکریم و عزت دیتا ہے۔ اسلام میں معاشی و معاشرتی ذمہ داری مرد کے کندھے پر ڈالی گئی ہےاور عورت کی اولین ذمہ داری گھر اور بچوں کو قرار دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دین ِ اسلام انہیں نوکری کی بھی اجازت دیتا ہے اور کاروبار کی۔ انہیں اپنی املاک رکھنے کا حق حاصل ہے ۔ انہیں تعلیم کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مرد کو ہے۔ اسکے باوجود اسلام دشمن اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ اسلام عورتوں کی حق تلفی کرتا ہے۔ انہیں بچارگی اورمظلوم ہونے کا احساس دلا کر دین اور تہذیب و تمدن سے دور کیا جا رہا ہے کیوں کہ اسلام دشمنوں کوعلم ہے اگر مسلم عورت بھی مغربی تہذیب و تمدن کے رنگ میں رنگ گئی تو نظریاتی تعلیم و تربیت کا ایک اور دروازہ بند ہو جائے گا اور اِنہیں دینِ اسلام کے خاتِمہ کے لیے حسبِ منشا نتائج حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔ اللہ تعالی ہمیں دشمنوں کی چالوں کو سمجھنے اور ان کی شر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
کائنات ارض و سماء کی سائنسی تحقیق
ارض کا معنی نظام شمسی میں گردش پذیر جس سیارے میں ہم رہائش رکھتے ہیں، ارض (Earth، زمین) کہلاتا ہے۔ یہ لفظ عام طور پر آسمان کے مقابل بولا جاتا ہے۔ لغت عرب میں ہر نچلی چیز ارض سے تعبیر کی جاتی ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں: الارض يعبربها عن اسفل الشئ کما يعبر بالسمآء عن اعلاه. کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اوپر والے حصے پر بولا جاتا ہے۔ (المفردات : 73) قرآن مجید نے ہر جگہ ارض کا صغیہ واحد ہی استعمال کیا ہے۔ جمع (ارضون یا ارضین) کا صیغہ استعمال نہیں کیا۔ تاہم کئی زمینوں کا وجود یوں بھی ثابت ہوتا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ. اللہ وہی ہے جس نے سات آسمان اور انہی کی طرح زمین بھی (اپنی ہی قدرت و حکمت سے) پیدا کی۔ (الطلاق، 65 : 12) اس آیت کریمہ سے اس امر پر روشنی پڑتی ہے کہ زمینیں بھی آسمانوں کی طرح سات یا متعدد ہیں۔ سات آسمانوں کا معنی السمآء کا لفظ سما، یسمو سے ہے، جس کے معنی بلندی کے ہیں۔ لغت عرب میں ہے : سماء کل شی أعلاه. ہر چیز کے اوپر جو کچھ ہے وہ اس چیز کا سماء ہے۔ (المفردات : 427) لہذا کرہ ارض کے اوپر جس قدر کائنات موجود ہے، وہ عالم سماوات ہے، بلکہ خود کرہ ارض کے اندر وہ بالائی طبقۂ فضا جہاں بادل اڑتے ہیں اور ٹھنڈک کے باعث آبی قطرات کی صورت میں بارش بن کر برستے ہیں، بھی ’’سماء،، کہلاتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَّأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً. اور آسمانوں کی طرف سے پانی برسایا۔ (البقره، 2 : 22) بنا بریں زمین کے اوپر کا طبقۂ کائنات عالم طبیعی کی آخری حد تک عالم سماء کہلاتا ہے۔ اسلام اور یونانی فلسفے کے موقف میں فرق عام طور پراہل علم نے مختلف زمانوں میں فلسفیانہ تصورات کی بناء پر آسمانوں کی ماہیت اور حقیقت متعین کرنے کی کوشش کی ہے، اسی وجہ سے کسی نے چاند کو پہلے آسمان میں مرکوز، سورج کو چوتھے آسمان میں اور دیگر سیار گان فلکی کو دوسرے آسمانوں میں مرکوز قرار دیا۔ کسی نے اس سے مختلف ترتیب بیان کی۔ عوام الناس نے بعض علماء کی ان تحریروں سے یہ اخذ کیا کہ شاید یہی اسلام کا موقف ہے اور یہی کچھ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ یہ تاثر کلیتاً غلط ہے۔ قرآن وحدیث کی کوئی ایک نص بھی اس تصور کی تائید نہیں کرتی۔ یہ موقف دراصل قدیم علماء ہیت کا تھا، جو یونانی فلسفے پر مبنی تھا۔ دینی کتابوں میں اس کے بیان ہوجانے کی وجہ سے اسے غلط طور پر دینی تعلیمات کی طرف منسوب کردیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب تسخیر ماہتاب کاواقعہ پیش آیا تو بعض لوگوں نے کم فہمی کی بناء پر اسے دینی تصورات کے منافی سمجھا۔ حالانکہ اس واقعے کا امکان دینی تصورات اوراسلام کے بیان کردہ حقائق کے عین مطابق تھا۔ اس میں عقلاً و نقلا ًکسی قسم کی مخالفت نہ تھی کیونکہ سورج، چاند اور دیگر سیارے کرہ ارض کے اوپر کروڑوں، اربوں میلوں پر محیط بالائی طبقے میں گردش کرتے ہیں۔ یہ تمام سماوی طبقات اپنے اپنے ’’افلاک،، (Orbits) میں محو گردش ہیں۔ جو زمین اور آسمان کے درمیان واقع ہیں۔ ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے حسان بن عطیہ سے روایت کیا ہے : الشمس و القمر و النجوم مسخرة فی فلک بين السماء و الارض. شمس و قمر اور تمام سیارگان، آسمان اور زمین کے درمیان اپنے فلک یعنی مدار (Orbit) میں گردش کررہے ہیں۔ (الدرالمنثور، 4 : 318) یہ ارشاد اس قرآنی آیت کی تعبیر میں وارد ہوا ہے : کُلٌّ فِيْ فَلَکٍ يَسْبَحُوْنَo تمام (آسمانی کرے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں۔ (الانبياء، 21 : 33) امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اورامام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : الفلک الذی بين السماء و الأرض من مجاری النجوم و الشمس و القمر. ’’فلک،، سے مراد آسمان اور زمین کے درمیان واقع مدار ہیں، جن میں تمام ستارے، سورج اور چاند (سمیت تمام اجرام فلکی) گردش کرتے ہیں۔ (تفسير الدرالمنثور، 4 : 318) اس امر کی وضاحت اس قول سے بھی ہوتی ہے : الفلک موج مکفوف تجري فيه الشمس و القمر و النجوم. ’’فلک،، آسمانوں کے نیچے خلا کا نام ہے جس میں سورج، چانداور ستارے گردش کرتے ہیں۔ (تفسير کبير، 22 : 167) امام رازی رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے مزید بیان کیا ہے کہ فلک ستاروں کے مدار یعنی ان کی گردش کے راستوں کوکہتے ہیں: وهو فی کلام العرب کل شئي مستدير وجمعه أفلاک. لغت عرب میں ہر گول شے کو فلک کہتے ہیں اس کی جمع افلاک ہے۔ (تفسيرکبير، 22 : 167) امام ابوالبرکات نسفی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تک صراحت بیان فرمائی ہے : و الجمهور علی أن الفلک موج مکفوفٌ تحت السماء تجري فيه الشمس و القمر و النجوم. . . يسيرون اي يدورون جمہور علماء کا مذہب یہی ہے کہ فلک آسمانوں کے نچیے خلا کا نام ہے جس میں سورج، چاند اور دیگر سیارے مستدیراً گردش کرتے ہیں۔ (تفسير المدارک، 3 : 78) اس لحاظ سے جتنے سیارے بھی خلا میں گردش کرتے ہیں، ہر ایک کا مدار اس کا فلک کہلاتا ہے۔ ابتداء علم ہیت (ASTROMONY) کے ماہرین کا خیال تھا کہ سیاروں کی کل تعداد 7 ہے اور ان میں ہر سیارہ جس مدار میں موجود ہے وہی اس کا فلک ہے۔ بنا بریں عالم بالا کل سات افلاک میں منقسم ہے، پہلے میں چاند ہے، دوسرے میں عطارد، تیسرے میں زہرہ، چوتھے میں شمس، پانچویں میں مریخ، چھٹے میں مشتری اور ساتویں میں زحل، جیسا کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے دور قدیم کے علماء ہیت کا یہ قول نقل کیا ہے۔ (تفسیرکبیر، 26 : 77) بعض مسلمان اہل علم کی فکری لغزش ہمارے خیال میں جب یہی نقطہ نظر بعض علماء اسلام نے اپنی کتابوں میں درج کیا تواسی سے یہ تصور پیدا ہوگیا کہ سات آسمانوں میں سے ہر آسمان میں ایک سیارہ ہے اوروہ آسمان اسی سیارے کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ایسا مغالطہ تھا جو سات افلاک کے تصور اور سات آسمانوں کے تصور کے درمیان التباس (CONFUSION) کے باعث پیدا ہوا۔ پھر بقول شیخ طنطاوی جوہری جب فلسفہ یونانی پرفارابی اور ابن سینا کی تصانیف عربی زبان میں منظر عام پر آئیں تو 9 افلاک کا تصور قبولیت پاگیا۔ چنانچہ اس کی توجیہہ بعض علماء اور فلاسفہ نے یوں کی کہ ان سے مراد سات آسمان، کرسی اور عرش ہے۔ کرسی، فلک الثوابت ہے اور عرش، فلک محیط۔ یہ تعبیرات اس وجہ سے اسلامی لٹریچر میں شامل ہوگئیں کہ مختلف ادوار میں جب کوئی نئی فلسفیانہ یا سائنسی تحقیق منظر عام پر آئی بعض اہل علم نے اسے قرآنی آیات پر یا قرآنی آیات کو اس پر منطبق کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ وہ تحقیق فی نفسہا حتمی اور قطعی نہ تھی۔ عقلاء، فلاسفہ اور سائنسدان تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اقدام وخطاء (TRIAL & ERROR) کے انداز میں اپنی نئی سے نئی تحقیقات پیش کر رہے تھے۔ ان تحقیقات کو اسلامی تصورات بنانے کی کوشش نے ایسے کئی موضوعات میں علمی مغالطے پیدا کر دیئے جو اب تک بعض اہل علم کے ہاں منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان بے بنیاد اور غلط تصورات کی کوئی سند قرآن و حدیث میں نہیں ملتی۔ جوں جوں انسانی عقل اپنے سائنسی تجربات و مشاہدات کی بناء پر ترقی کررہی ہے۔ عالم بالا کے ہزاروں نئے طبقات منصہ علم پر آرہے ہیں۔ نظام شمسی اور عالم افلاک پہلے جن سیاروں کی کل تعداد 9 بیان کی گئی تھی موجودہ سائنس نے یہ حقیقت منکشف کردی ہے کہ یہ 9سیارے (Planets) تو صرف نظام شمسی (SOLAR SYSTEM) میں موجود ہیں جن کے نام یہ ہیں : 1۔ عطارد (Mercury) 2۔ زہرہ (Vencus) 3۔ زمین (Earth) 4۔ مریخ (Mars) 5۔ مشتری (Jupiter) 6۔ زحل (Saturn) 7۔ یورینس (Uranus) 8۔ نیپچون (Neptune) 9۔ پلوٹو (Pluto) ہماری زمین کے گرد واقع چاند کی طرح ان 9 سیاروں کے گرد کل 61 چاند موجود ہیں ان کے علاوہ تقریباً 45,000 سے زائد Astroids بھی اس نظام شمسی میں موجود ہیں۔ مزید برآں کئی ایسے مزید سیارے تصور کیے جاتے ہیں جو اسی نظام میں ہیں لیکن ابھی تک ظاہر نہیں ہوئے۔ یہ سب وہ سیارے ہیں جو سورج کے گرد اپنے اپنے مدار میں محو حرکت ہیں پھرخود مذکورہ بالا بڑے سیاروں (PLANETS) کے گرد گردش کرنے والے کئی سیارے ہیں جنہیں Satellites کہا جاتا ہے۔ ہمارا چاند (Moon) ان میں سے سب سے بڑا ہے اور زمین کے گرد محو گردش ہے، جس کا ذکر قرآن مجید ان میں الفاظ میں کرتا ہے : وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا. اور ان میں (تمہارے لئے) چاند کو چمکنے والا بنایا۔ (نوح، 71 : 16) کچھ اجرام فلکی ہیں جنہیں COMETS کہا جاتا ہے یہ نام غالباً قرآن حکیم کی اصطلاح الجوار الکنس سے اخذ کیا گیا ہے، جس کا ذکر سیاروں ہی کے ضمن میں یوں آیا ہے : فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِO الْجَوَارِ الْكُنَّسِO پھر میں قسم کھاتا ہوں چلتے چلتے (پیچھے) پلٹ جانے والے تاروں کی (اور قسم کھاتا ہوں) سیدھے چلنے والے (اور) رکے رہنے والے تاروں کی۔ (التکوير، 81 : 15، 16) Comets بھی سورج کے گرد گھومتے ہیں اور مختلف مدتوں میں اپنا مدار مکمل کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک HALLEY'S COMET سے نام سے معروف ہے۔ جو سورج کے گرد اپنا مدار مکمل کرنے میں اوسطاً 77برس لگاتا ہے، گویا 77 برس میں ایک بار نظر آتا ہے، بقیہ عرصہ چھپا رہتا ہے۔ آخری بار HALLAY'S COMETS 80, 156 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے 9 فروری 1986ء کو سورج کے قریب سے گزرا European Space Agency ۔(ESA) کے خلائی جہاز Giotto نے اس کے انتہائی قریب جاکر اس کی تصاویر اتاریں اور اہل زمین کیلئے زمینی سٹیشن کو ارسال کیں۔ یہ COMET اب دوبارہ ان شاء اﷲ سورج کے قریب 29 اپریل 2061ء کو گزرے گا۔ الکنس میں چھپنے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے صاحب المحیط رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : الکنس هی الخنس لانها تکنس فی المغيب. ’’الکنس،، کا معنی چھپنا اور گم جانا ہے۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ (Comet) کسی نادیدہ مقام کی وسعتوں میں کھو جاتا ہے۔ (القاموس المحيط، 2 : 256) مزید برآں کچھ چھوٹے چھوٹے اجرام فلکی اور بھی ہیں جو METEORS کہلاتے ہیں۔ وہ بھی سورج کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ زمین کی بالائی فضا میں داخل ہوتے ہیں مگر حرارت کی شدت کے باعث جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔ ان کے ٹوٹنے سے جو منتشر چمکتے ہوئے ذرات شعلوں اور چنگاریوں کی صورت میں گرتے ہیں انہیں SHOOTING STARS کہتے ہیں۔ انہی کا ذکر قرآن مجید میں یوں آیا ہے : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ. اور بے شک ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے مزین کیا ہے اور ان کو شیاطین کے مارنے کا ذریعہ بھی بنایا ہے۔ (الملک، 67 : 5) اندازہ یہ ہے کہ تقریباً دس کروڑ METEORS روزانہ زمین کی بالائی فضا میں داخل ہوتے ہیں۔ کہکشاں کی وسعت کروڑوں کی تعداد میں پائے جانے والے یہ سب چھوٹے بڑے اجرام صرف نظام شمسی کا حصہ ہیں اور سورج عالم افلاک کے کروڑوں ستاروں میں سے ایک اوسط درجے کا ستارہ (STAR) ہے۔ جس کا Diameter (قطر) 1,400,000کلومیٹر ہے۔ سورج ہماری زمین سے 149,600,000 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار تین سو میل فی سیکنڈ کے حساب سے سفر کرتی ہے۔ اس کے باوجود روشنی کی ایک کرن جو سورج سے نکلتی ہے، زمین تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگا دیتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ جس طرح زمین، نظام شمسی کے بے شمار سیاروں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح سورج 15,000,000,000 ستاروں پر مشتمل کہکشاں (Milky Way) میں سے ایک ہے۔ جب کہ اس کہکشاں کی وسعت اور مسافت کااندازہ اس امر سے لگایئے کہ اسی کہکشاں میں سورج کے بعد ہم سے قریب ترین ستارے Proxima Centauri کی روشنی اسی رفتار سے چل کر چار سال سے زائد عرصہ میں ہم تک پہنچتی ہے۔ جو روشنی صرف ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار تین سو میل طے کرتی ہے، وہ ایک سال میں کتنے ارب میل کی مسافت طے کرتی ہوگی! اور پھر چار سال کے عرصے میں طے ہونے والی مسافت کا عالم کیا ہوگا! اسی طرح ہماری کہکشاں کا ایک ستارہ ALTAIR جس کی روشنی زمین تک 1600 سال میں پہنچتی ہے۔ ’’DENEB،، نامی ستارے کی روشنی زمین تک 1500سال میں پہنچتی ہے۔ یہاں تک کہ کچھ ستارے ایسے ہیں جن کی روشنی زمین تک کئی ہزار سال بعد پہنچتی ہے۔ بلکہ اس وقت تک کی تحقیقات کے مطابق اس کائنات میں ایسے ستارے بھی موجود ہیں جن کی روشنی کے زمین تک پہنچنے کا کل عرصہ پچاس ارب سال بنتا ہے۔ صرف ہماری کہکشاں کی لمبائی اس قدر ہے کہ اس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک روشنی ایک لاکھ سال کے عرصے میں پہنچتی ہے اوراسکی موٹائی کے رخ کا فاصلہ دس ہزار سال کے عرصے میں طے کرتی ہے۔ یہ وسعت تو صرف اس کہکشاں Milky Way کی ہے جس میں ہماری زمین واقع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جیسی کئی کروڑ کہکشائیں (GALAXIES) عالم افلاک میں موجود ہیں۔ امریکہ کی National Optical Astronomy Observations کی تحقیق کے مطابق تقریباً 400 کہکشائیں (Galaxies) توآپس میں ہی منسلک نظر آتی ہیں۔ باقی کہکشاؤں کے سلسلوں کا کیا حال ہے اور یہ سارا عالم افلاک جس کی کل وسعت اور مسافت کااندازہ انسان اپنی تصوراتی قوت سے بھی نہیں کرسکتا، پہلے آسمان یعنی سماء الدنیا سے نیچے واقع ہے۔ لہذا یہ سب صرف پہلے آسمان کے نیچے وسعتوں کا عالم ہے، خدا جانے اس سے اوپر کی وسعتوں کا کیا حال ہے۔ اسی طرح دوسرے، تیسرے، چوتھے اور بالآخر ساتویں آسمان تک کی کائنات کس قدر وسیع ہے۔ اس کے بعد عرش اور مافوق العرش کی وسعتوں کا عالم کیا ہوگا! یہ ساری تفصیل اس لئے عرض کی گئی تاکہ اس کی روشنی میں اتنی بات سمجھی جاسکے کہ مختلف سیاروں، ستاروں، کہکشاؤں اور نظام ہائے نجوم کی آئے دن دریافت ہونے والی نئی سے نئی تقسیمات اور تحقیقات کو سات آسمانوں کی حقیقت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سائنس ابھی تک آسمان دنیا کی کہکشاؤں اور ستاروں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ وہ تو صرف اس معلوم عالم افلاک کی جملہ حقیقتوں کا احاطہ بھی نہیں کرسکی جب کہ سبع سماوات کی حقیقت اس سے کہیں بلند ہے۔ ممکن ہے آئندہ زمانوں کی سائنسی تحقیق اس عالم بالا کے وجود کا کوئی نشان پا سکے۔ اس کی حقیقت و ماہیت اور اس کی تقسیم کا جو کہ سات طبقات پر مشتمل ہے کوئی مزید سراغ پا سکے۔ کیونکہ انسان کا آسمانوں تک پہنچنا اور ان کی حقیقت کی خبر پانا شریعت کی رو سے نہ تو ناممکن ہے اورنہ ہی اس میں کوئی امر مانع ہے۔ یہاں تک کہ اصول فقہ کی بعض کتابوں میں یہ تصریح ملتی ہے کہ اگر کوئی شخص آسمان پر جانے کی قسم کھالے تو اس کی قسم منعقد ہوجائے گی کیونکہ آسمان پر جانا ممکنات میں سے ہے۔ اس سے اس بات کی طرف بھی رہنمائی ملتی ہے کہ اسلامی تحقیقات پر مشتمل سینکڑوں ہزاروں سال پرانے لٹریچر میں بھی آسمان کی وسعتوں میں سفر کو ممکن سمجھا جاتا تھا۔ مذکورہ بالا ساری تفصیل فقط عالم طبیعی سے متعلق ہے جبکہ مابعد الطبیعی عالم کا تو سائنس ادراک بھی نہیں کرسکتی۔ قرآن مجید میں عالم طبیعی کی تقسیم ان تین حصوں میں کی گئی ہے : 1۔ آسمانی کائنات (HEAVENS) 2۔ زمینی کائنات (EARTH) 3۔ فضائی کائنات (SPACE) ارشاد ربانی ہے : ألَّذِيْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهمَا فِيْ سِتَّةِ أيَّامٍ ثُمَّ اسْتَویٰ عَلٰی الْعَرْشِ. (وہی ہے) جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں میں ہے چھ دن میں پیدا کیا۔ پھر (اپنے) عرش (قدرت و حکمت) پر قائم ہوا۔ (الفرقان، 25 : 59) اس وقت سائنس اپنی تحقیق کے فضائی دور (Age of space) میں داخل ہوچکی ہے تاہم اس کی تمام تر وسعتوں کا مکمل اندازہ تاحال سائنس نہیں لگا سکی۔ قرآن مجید کے الفاظ وَمَا بَيْنَھُمَا آسمان اور زمین کی درمیانی کائنات یعنی Space اور Intermediary creation کی واضح نشاندہی کر رہے ہیں۔ انسانی علم تو ابھی تک فقط عالم طبیعی کے تیسرے حصے Space کی وسعتوں کے اندازے میں گم ہے، جبکہ آسمانی کائنات اس سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے۔ پھر اس کے اختتام پر مابعدالطبیعی عالم یعنی کائنات عرش اور مافوق العرش کا آغاز ہوتا ہے۔ جہاں باری تعالی کا مقام استوار ہے اور یہ سب کچھ العالمین کا مصداق ہے۔ اس عالم طبیعی کی تخلیق کے چھ دن میں کیے جانے کا مفہوم معروف معنوں میں ہرگز چھ دن نہیں کیونکہ اس وقت تو سورج اور رات دن کی تخلیق بھی عمل میں نہیں آئی تھی اور معروف دنوں کی تقسیم کا سلسلہ سورج کی تخلیق کے بعد ہی شروع ہوا۔ لہذا 6 دنوں سے مراد تخلیق کے 6 ادوار ہیں جن میں کائناتی تخلیق کا نظام ارتقائی مرحلے طے کرکے یہاں تک پہنچا ہے۔
اسلام اور سائنس
سائنس عقل کے تابع ہے اور وحی عقل سے ماورا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اللہ رب العزت کی وحی کا پہلا لفظ تھا "اقراء " یعنی پڑھو ۔ لیکن "باسم ربک الذی خلق" اس رب کے نام کے ساتھ جس نے تمہیں پیدا کیا ! "خلق الانسان من علق" کس چیز سے پیدا فرمایا "علق" یعنی خون کے جمے ہوئے لوتھڑے سے ۔ مزید آگے فرمایا "علم الانسان مالم یعلم" یعنی انسان کو وہ سب سکھایا جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا ۔ پہلی وحی میں ہی اللہ عزوجل نے انسان کی تخلیق کے متعلق آگاہ فرما دیا کہ انسان جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا گیا ! اور اس انسان کو اللہ عزوجل نے وہ علم سکھایا جس نے اسے تمام مخلوقات میں سب زیادہ معزز و محترم اور شرف والا بنا دیا۔ جس نے انسان کو مسجود ملائکہ بنا کر تمام مخلوقات میں عزت بخشی !جس نے انسان کو عقل و شعور اور علم کی روشنی عطا فرما کر زمین پر اپنا نائب و خلیفہ بنایا ! اور انسان کو وہ سب کچھ سکھا دیا جس سے انسان اس سے قبل واقف تک نہ تھا ! انسان کو جو بھی علم ملا وہ اللہ رب العزت نے عطا فرمایا ! اللہ رب العزت نے انسان کے اندر تحقیق و جستجو کی لگن اور تڑپ پیدا کی ۔ اپنی آخری الہامی کتاب "قرآن عظیم" میں متعدد بار کائنات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی ! انسان کو مظاہر فطرت پر غور کرنے کی ترغیب دلائی ! دن کے رات میں بدلنے اور رات کے دن میں بدلنے کو اپنی نشانیاں قرار دیا ! ان نشانیوں میں غور و فکر اور تدبر کرنے کا حکم دیا ! فرمایا:۔ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْيَا بِهِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (البقرۃ ۔ 164) بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات اور دن کا ہیر پھیر ، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیز کو لیے ہوئے سمندروں میں چلنا ، آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو زندہ کر دینا ، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلادینا ، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں ۔،ان میں عقلمندوں کے لیے قدرتِ الہٰی کی نشانیاں ہیں " آج سائنس بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ تخلیق کے وقت زمین انتہائی گرم تھی اور گیسوں سے گھری ہوئی تھی ۔اس حالت میں زمین پر پانی کی موجودگی ناممکن تھی ! زمین پر پانی کہاں سے آیا اس کی ابتداء کیسے ہوئی آج تک سائنس بتانے سے قاصر ہے سوائے تک بندیوں اور مفروضوں کے ! اور یہ پانی صرف زمین ہی پر کیوں آیا دیگر سیاروں پر کیوں نہیں اترا اس معاملے میں سائنس خاموش ہے ۔ یہاں اللہ عزوجل خالق و مالک کائنات فرماتا ہے " وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْيَا بِهِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا" یہ اللہ عزوجل ہی ہے جو آسمانوں سے پانی برسانے والا ہے مردہ زمین پر ! اس زمین پر جو اپنے اندر زندگی کو قائم رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ اس مردہ زمین پر پانی برسا کر اسے زندہ کرنا یعنی اسے زندگی کو قائم رکھنے کے قابل بنانے والا اللہ عزوجل ہی تو ہے ! وہی تو ہے جو زمین کو زندہ کر کے اس میں جانداروں کا پیدا کرنے والا ہے ! وہی تو ہے جو ہواؤں کے رخ بدلتا ہے !وہی تو ہے جو دن کو رات میں اور رات کو دن میں بدلتا ہے ! وہی تو ہے جو ہر شئے کا خالق ہے ! وہی تو ہے جو اپنے منکرین کو یوں کہہ کر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے :۔ " نَحْنُ خَلَقْنَاكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ () أَفَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُونَ () أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ (الواقعہ:۵۷۔۵۹) ''ہم ہی نے تم سب کو پیدا کیا ہے پھر تم کیوں باور نہیں کرتے۔اچھاپھر یہ بتلائوکہ جو منی تم ٹپکاتے ہو۔ کیا اس کا (انسان)تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں۔ '' أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ () أأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ () لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ (الواقعہ:۶۳۔۶۵) ''اچھاپھریہ بھی بتلائو کہ تم جو کچھ بوتے ہو،اسے تم ہی اُگاتے ہو یا ہم اُگانے والے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اسے ریزہ ریزہ کر ڈالیں اور تم حیرت کے ساتھ باتیں بناتے رہ جاؤ۔'' أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ () أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ (الواقعہ:۷۱،۷۲) کبھی تم نے خیال کیا کہ یہ آگ جو تم سلگاتے ہو، اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟"'' اللہ عزوجل غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ غور تو کرو نطفے سے انسان تخلیق کرنے والا کون ہے ؟ بیج تم اگاتے ہو ؟ یا خالق کائنات؟ جس درخت کو جلا کر تم آگ حاصل کرتے ہو اس کا پیدا کرنے والا کون ہے ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب سے سائنس قاصر ہے ! وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ (الروم:۲۲) ''اس( کی قدرت )کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف (بھی ) ہے۔ دانش مندوں کے لیے اس میں یقینا بڑی نشانیاں ہیں ۔'' اتنی بڑی اور وسیع و عریض زمین اور اس پر چھت کی مانند آسمان اس کو کس نے پیدا کیا؟ کیا یہ سب کچھ یونہی بلاوجہ بلامقصد پیدا ہو گیا ؟ مذہب تو دور کی بات کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اتنی بڑی زمین اور اتبا بڑا آسمان خود بخود ہی پیدا ہو گیا ؟ زمین کے ہر خطہ میں موجود انسانوں کی رنگت الگ الگ ہے کوئی سرخ ہے کوئی سفید کوئی کالا ہے کوئی سانولا، اسی حساب سے ہر ایک کی زبان بھی الگ الگ ہے ! کیا سائنس اور عقل اس کی کوئی توجیح کر سکتے ہیں ؟ جب انسان کی پیدائش کا مآخذ ایک تو رنگت و زبان الگ الگ کیوں ہیں ؟ کیا سائنس یہ بتا سکتی ہے کہ جانور جو گھاس چرتا ہے وہ اس کے پیٹ میں سے گوبر اور دودھ کی شکل میں کیسے الگ الگ ہو جاتی ہے ؟ الغرض کائنات کی ہر شئے کائنات کا ذرہ ذرہ مشیت الٰہی کے تابع ہے ! سائنس جہاں بے بسی کی انتہاؤں کی چھوتی نظر آتی ہے وہاں میرے رب کریم کی صدا آتی ہے "کن " ہو جا "فیکون" پس وہ ہو جاتا ہے سائنس لاکھ چاہے خالق کی موجودگی کا انکار نہیں کر سکتی ! کیونکہ انکار ایسے ایسے سوالات کو جنم دیتا ہے جن سے نبرد آزما ہونا سائنس کے بس کی بات نہیں ! سائنس کا علم محدود ہے ! اس کے نظریات میں تغیر و تبدل واقع ہوتا رہتا ہے ! آج ایک نظریہ پیش کرتی ہے کل اسی کی نفی کرتی نظر آتی ہے ! اس کے برعکس دین اسلام کے عقائد و نظریات اٹل، قطعی اور ناقابل تردید ہیں جن میں صدہا سال سے کسی بھی قسم کا تغیر و تبدل واقع نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اس لیئے دین اسلام کو سائنس کی کسوٹی پر نہیں بلکہ سائنس کو دین اسلام کی کسوٹی پر پرکھنا ہی منطقی اور عقلی لحاظ سے درست ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔!
قرآنسٹس اور قرآن
انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان کے ایک شہر میں ایک صاحب ایک انگریز کلکٹر کے میر منشی تھے۔ کلکٹر اگرچہ انگریز تھا مگر اسے یہ زعم تھا کہ وہ اردو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔چنانچہ وہ میر منشی سے کہا کرتا کہ ہم تم سے زیادہ اردو جانتے ہیں تو بیچارے منشی خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے کیونکہ ملازمت کا سوال تھا۔ ایک دن کلکٹر نے کسی بات پر جوش میں آ کر میز پر مکّا مارتے ہوئے کہا:
منشی جی! یقیناً ہم تم سے زیادہ اردو جانتے ہیں۔
اس بار منشی کو بھی جوش آ گیا، انھوں نے سوچ لیا کہ ملازمت رہے نہ رہے اسے جواب دے ہی دوں گا۔ انھوں نے بھی میز پر مکّا مار کر کہا:
صاحب بہادر! آپ اردو کی ابجد بھی نہیں جانتے۔
یہ سن کر انگریز کلکٹر بڑا حیران ہوا اور کہا :تم میرا امتحان لے لو۔
تو منشی جی نے کہا :اگر میں آپ کا امتحان لوں گا تو آپ بغلیں جھانکنے لگیں گے۔
اب صاحب بہادر واقعی بغلیں جھانکنے لگا کہ اس کا کیا مطلب ہوا! بہت غور کیا مگر خاک سمجھ آتی۔ آخر اس نے کہا:
منشی جی! مجھے تین دن کی مہلت دو،میں اس کا مطلب بتا دوں گا۔
منشی جی نے کہا :تین دن نہیں سات دن کی مہلت لے لیجئے۔
الغرض اس نے اس لفظ کو لغت میں تلاش کیا۔ مگر لغت میں کیا ملتا۔ لغت میں ’’بغل‘‘ مل گیا ’’جھانکنا‘‘ مل گیا مگر مفہوم نہیں ملا۔ آخر سات دنوں کے بعد اس نے کہا:
اس کا مطلب ہے کہ ہاتھ کو اٹھا کر بغل کو دیکھ لیا جائے۔
میر منشی ہنس پڑے،تب کلکٹر نے پوچھا : پھر اس کا مطلب کیا ہے؟
میر منشی نے کہا : اس کا مطلب آپ کو میں اس شرط پر بتاؤں گا کہ اب آپ کبھی اردو دانی کا دعویٰ نہیں کریں گے۔
چنانچہ اس نے اقرار کیا تو منشی نے بتایا کہ دراصل یہ جملہ تحیر سے کنایہ ہے یعنی اگر کلکٹر کا میں امتحان لوں تو وہ حیرت میں پڑ جائیں گے۔
٭ یہی حالت نام نہاد قرآنسٹ عرف منکرین حدیث کی ہے ان کا بھی دعویٰ ہے کہ یہ قرآن زیادہ جانتے اور سمجھتے ہیں پوری امت مسلمہ کی قرآن کے جس مفہوم تک رسائی نہ ہو سکی وہ چودھویں صدی کے ایک مجہول الحال شخص پرویز خان پر آشکار ہو گیا
یہ بھی اس اردو دانی کا دعویٰ رکھنے والے انگریز کی طرح لغات ہی کو اپنا سب کچھ مانے ہوئے ہیں اسی لیئے ہر جگہ ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں ہر جگہ بدترین تحریف کے مرتکب ہیں !
قرآںی معلومات
معلوماتِ قرآن کریم
قرآن کریم کی پہلی منزل میں چار سورتیں، پچاسی رکوع اور چھے سو انہتر آیات ہیں۔
قرآن کریم کی دوسری منزل میں پانچ سورتیں، چھیاسی رکوع اور چھے سو پچانوے آیات ہیں۔
قرآن کریم کی تیسری منزل میں سات سورتیں، اڑسٹھ رکوع اور چھے سو پینسٹھ آیات ہیں۔
قرآن کریم کی چوتھی منزل میں نو سورتیں، چھہتر رکوع اور نو سو تین آیات ہیں۔
قرآن کریم کی پانچویں منزل میں گیارہ سورتیں، بہتر رکوع اور آٹھ سو چھپن آیات ہیں۔
قرآن کریم کی چھٹی منزل میں چودہ سورتیں، انہتر رکوع اور اور آٹھ سو ستاسی آیات ہیں۔
قرآن کریم کی ساتویں منزل میں چونسٹھ سورتیں، ایک سو دو رکوع اور ایک ہزار پانچ سو اکسٹھ آیات ہیں۔
قرآن کریم کا سب سے بڑا پارہ تیسواں پارہ ہے جس میں سینتیس سورتیں ، انتالیس رکوع اور پانچ سو چونسٹھ آیات ہیں۔
قرآن کریم کا سب سے چھوٹا پارہ چھٹا پارہ ہے جس میں ایک سو گیارہ آیات ہیں۔
قرآن کریم کی سب سے چھوٹی آیات(بامعنی) سورة المدثر کی آیت نمبر اکیس ہے۔
ثم نظر ( پھر تامل کیا)
سورة المدثر۔۔آیت نمبر اکیس
قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت سورة البقرہ کی آیت نمبر دو سو بیاسی ہے۔
قرآن کریم کا سب سے بڑا رکوع سورة صفٰت کا دوسرا رکوع ہے جس میں تریپن آیات ہیں۔
قرآن کریم کا سب سے چھوٹا رکوع سورة المزمل کا دوسرا رکوع ہے جس میں ایک ہی آیت ہے۔
قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت سورة الکوثر ہے جس کی تین آیات ہیں ، گیارہ الفاظ ہیں اور سینتیس اعراب ہیں۔
قرآن کریم کی سب سے بڑی سورة البقرہ ہے جس کی دو سو چھیاسی آیات ہیں،چالیس رکوع ہیں اور چھے ہزار نو سو اٹھاون الفاظ ہیں۔
سورة اخلاص تہائی قرآن ہے جبکہ سورة کافرون اور سورة زلزال چوتھائی قرآن ہے،
(ترمذی)
قرآن کریم میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گیارہ بار "يا أيها النبي " پکارا گیا ہے۔
عرب ممالک میں ہر پارے کے دو حصے ہوتے ہیں ہر حصہ حزب کہلاتا ہے۔
لفظ قرآن، قرآن مجید میں بطور معرفہ پچاس بار اور بطور نکرہ اسی بار آیا ہے ۔یعنی پچاس بار قرآن کا مطلب کلام مجید ہے اور اسی بار ویسے کسی پڑھے جانے والی چیز کے معنی
میں استعمال ہوا ہے۔
قرآن کریم کی وہ سورتیں جو سو سے کم آیات والی ہیں مثانی کہلاتی ہیں۔
قرآں کی وہ سورتیں جو سو سے زیادہ آیات والی ہیں مَیں کہلاتی ہیں۔
قرآن کریم کے دوسرے اور پانچویں پارے میں نہ کسی سورت کی ابتداء ہے اور نہ ہی انتہا۔
قرآن کریم کے دو جملے جن کو الٹی سمت میں بھی پڑھا جائے تو مطلب اور تلفظ وہی رہتا ہے
کل فی فلک۔۔۔۔۔۔سورة الانبیا، آیت تینتیس
ربک فکبر۔۔۔۔۔۔۔سورة المدثر، آیت تین
قرآن پاک کی سورة المجادلہ کی ہر سورت میں لفظ خاص" اللہ " آیا ہے۔
قرآن کریم کے آٹھ پارے ایک نئی سورت سے شروع ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں صحابہ کرام میں سے صرف ایک صحابی کا نام آیا ہے۔۔۔حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔
ہدہد کا نام قرآن کریم میں صرف ایک بار آیا ہے۔۔۔سورة النمل آیت بیس۔
قرآن کریم میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ پاک کے عرش کو آٹھ فرشتوں نے تھام رکھا ہو گا۔۔۔۔سورة الحاقہ، آیت سترہ۔
قرآن کریم میں سب سے زیادہ دہرائی جانے والی آیت" پس تم اپنے پردوردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاو گے؟
سورة الرحمن میں اکتیس بار
قرآن کریم میں تین مساجد کا نام آیا ہے
مسجد اقصٰی، مسجد الحرام اور مسجد ضرار
قرآن کریم کے مطابق سیدنا موسٰی علیہ السلام کو نو معجزے عطاء فرمائے گئے۔۔۔۔
حوالہ
سورة النمل آیت نمبر بارہ۔۔۔۔۔سورة بنی اسرائیل آیت نمبر ایک سو ایک
پانچ نبی جن کے نام اللہ رب العزت نے ان کی پیدائش سے قبل بتا دیے تھے
سیدنا احمد صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔سورة الصف آیت نمبر چھے
سیدنا یحیٰی علیہ السلام۔۔۔سورة المریم آیت نمبر سات
سیدنا عیسٰی علیہ السلام ۔۔۔سورة آل عمران آیت نمبر پینتالیس
سیدنا اسحاق علیہ السلام
سیدنا یعقوب علیہ السلام
سورة ھود آیت نمبر اکہتر
قرآن کریم میں اللہ پاک نے اپنی صفت ربوبیت کا ذکر سب سے زیادہ مرتبہ فرمایا ہے قرآن کریم میں لفظ رب ایک ہزار چار سو اٹھانوے مرتبہ آیا ہے۔
قرآن کریم کی سورة الفاتحہ کو سورة واجبہ بھی کہتے ہیں کیوں کہ نماز میں اس کی قرآت واجب ہے۔
قرآن کریم میں دو دریاوں کا ذکر آیا ہے کہ یہ ایک ساتھ ہونے کے باوجود ان کا پانی آپس میں نہیں ملتا ایک کا پانی کھارا ہے ایک کا پانی میٹھا ہے ان دریاوں کا ذکر سورة الرحمٰن آیت نمبر انیس بیس میں ہے یہ دونوں دریا جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاون میں واقع ہیں۔
سورة صمد،سورة نجات،سورة اساس، سورة معوذہ،سورة تفرید،سورة تجرید،سورة جمال اور سورة ایمان۔۔یہ سب سورة اخلاص کے نام ہیں۔
سورة الحجر آیت نمبر بہتر میں اللہ پاک نے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان (عمر) کی قسم کھائی ہے
تیری جان(عمر) کی قسم وہ تو اپنی مستیوں میں مدہوش تھے۔
قرآن کریم کی پانچ سورتوں کا آغاز الحمد سے ہوتا ہے۔
سورة الفاتحہ،سورة الانعام، سورة سبا،سورة الکہف اور سورة فاطر۔
قرآن کریم کی پانچ سورتوں کا آغاز قل سے ہوتا ہے
سورة االاخلاص،سورة الکافرون ،سورة الفلق،سورة الناس اور سورة الجن
لاالہ الا محمد الرسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)
پورا کلمہ طیبہ قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی نہیں آیا ہے۔
"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم " سب سے پہلے سیدنا خالد بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھی تھی۔
قرآن کریم میں چار سبزیوں کا ذکر ہے۔
ساگ،ککڑی ،لہسن اور پیاز
قرآن کریم کی آخری وحی کے کاتب سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
قرآن کریم میں تین شہروں کا نام آیا ہے
یثرب،بابل اور مکہ
قرآن کریم میں چار پہاڑوں کا نام آیا ہے
کوہ جودی،کوہِ صفا،کوہِ مروہ اور کوہِ طور
قرآن کریم میں چار دھاتوں کا ذکر آیا ہے
لوہا،سونا،چاندی اور تانبا
قرآن کریم میں تین درختوں کا نام آیا ہے
کھجور،بیری اور زیتون
قرآن کریم میں پانچ پرندوں کا ذکر آیا ہے
ہدہد،ابابیل،کوا،تیتر اور بٹیر
قرآن کریم نے ابولہب کے علاوہ کسی کو کنیت سے نہیں پکارا
عرب کسی کو عزت اور شرف سے نوازنے کے لیے کنیت سے پکارتے ہیں لیکن یہاں معاملہ اور ہے ابولہب کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا جو ایک کہ شرکیہ نام ہے عزیٰ اس بت کا نام تھا جسے قریش کے کفار پوجتےتھے اور عبدالعزیٰ کا معنی عزیٰ کا غلام۔۔لہذا اللہ پاک نے شرکیہ نام سے پکارنے بجائے ابولہب کو کنیت سے پکارا۔
قرآن کریم میں سب سے طویل نام والی سورت سورة بنی اسرائیل ہے۔
قرآن کریم میں سب سے زیادہ اسماء الحسنےٰ کا ذکر سورة الحشر کی آیت نمبر تئیس میں ہے۔
قرآن کریم میں پیغمبروں کے نام سے چھے سورتیں ہیں
سورة یونس،سورة یوسف،سورة ہود، سورة ابراہیم،سورة محمد اور سورة نوح
قرآن کریم کی تین سورتیں ہیں جن کا نام ان سورتوں کے پہلے لفظ سے لیا گیا ہے
سورة طحہٰ، سورة یٰسین اور سورة ق
قرآن کریم کی بارہ سورتیں ہیں جن کے نام میں کوئی نقطہ نہیں آتا
مائدہ،ہود،رعد،طٰہ،روم،ص،م حمد،طور،،ملک،دہر،اعلی، اور عصر
قرآن کریم لفظ الرحمٰن ستاون اور الرحیم ایک سو چودہ مرتبہ آیا ہے۔
قرآن میں لفظ ابلیس گیارہ مرتبہ آیا ہے،۔
قرآن کریم میں انسانوں میں سب سے زیادہ ذکر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا آیا ہے۔۔چھتیس بار
(کم و بیش)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن کریم کے سب سے پہلے حافظ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
سورة بنی اسرائیل کا دوسرا نام سورة اسراء بھی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ترجمانِ قرآن بھی کہا جاتا ہے۔
قرآن کریم میں لفظ احمد ایک بار آیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چار مرتبہ
قرآن کریم میں لفظ اللہ دو ہزار چھے سو اٹھانوے دفعہ آیا ہے۔
قرآن کریم کا سب سے پہلے اردو ترجمہ سترہ سو چھہتر میں شاہ رفع الدین نے کیا تھا۔
قرآن کریم کی ایک سورت کا آغاز دو پھلوں کے نام سے ہوا ہے
سورة التین
والتین وزیتون
انجیر اور زیتون
قرآن کریم کی جس سورت کا اختتام دو نبیوں کے نام پر ہوتا ہے وہ سورة الاعلی ہے
ابراہیم و موسی
قرآن کریم کی حوامیم(یعنی جن سورتوں کا آغاز حم سے ہوتا ہے) وہ سات ہیں۔
سورة غافر،، سورة فصلت، سورة زخرف،سورة الدخان ،سورة الجاثیہ ،سورة الاحقاف اور سورة الشوریٰ
قرآن کریم کی پانچ سورتیں ہیں جن کا آغاز الر سے ہوتا ہے
سورة یونس ، سورة ہود، سورة یوسف، سورة الحجر اور سورة ابراہیم
قرآن کریم کی تین سورتیں سبح سے شروع ہوتی ہیں
سورة الحدید،سورة الحشر، سورة اور سورة الصف
قرآن کریم میں دو سورتیں ہیں جن کا آغاز یسبح سے ہوتا ہے
سورة الجمعہ اور سورة التغابن
دو سورتیں ہیں جن کی ابتدا تبارک سے ہوتی ہے
سورة الفرقان اورسورة الملک
چھے سورتیں ہیں جو الم سے شروع ہوتی ہیں
سورة البقرة ،سورة آل عمران، سورة العنکبوت،سورة الروم،سورة لقمان اور سورة السجدہ
قرآن کریم میں دو سورتیں ہیں جن کا آغاز طسم سے ہوتا ہے۔
سورة الشعراء اورسورة القصص
چار سورتیں ہیں جن کی ابتداء انا سے ہوتی ہے
سورة الفتح،سورة نوح،سورة القدر اور سورة الکوثر
دو سورتیں ہیں جو ویل سے شروع ہوتی ہے
سورة المطفیفین، سورة الھمزہ
تین سورتیں ہیں جن کی ابتداء یاایھالنبی سے ہوتی ہے
سورة الاحزاب ،سور ة الطلاق اور سورة التحریم
سورة الاخلاص کی تمام آیات د پر ختم ہوتی ہیں۔
سورة التوبہ کی آیت نمبر چھتیس میں ہے کہ مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔
سورة المجادلہ کا دوسرا نام سورة ظہار ہے۔
قرآن کریم کہ پے در پے تین سورتیں ہیں جن میں لفظ اللہ نہیں آیا
سورة الرحمن،سورة الواقعہ اور سورة القمر
سورہ محمد کا دوسرا نام سورة القتال ہے۔
قرآن کریم کی سات سورتیں حیوانوں کے نام پر آئی ہیں۔
سورة البقرة۔۔ گائے
سورة الانعام۔۔۔مویشی
سورة النحل۔۔۔شہد کی مکھی
سورة النمل ۔۔۔چیونٹیاں
سورة العنکبوت۔۔۔۔مکڑی
سورة العادیات۔۔۔۔۔گھوڑے
سورة الفیل۔۔۔۔۔ہاتھی
اور
قرآن کریم میں
آدم علیہ السلام کا ذکر پچیس بار
ادریس علیہ السلام کا ذکر دو بار
نوح علیہ السلام کا ذکر تینتالیس بار
ہود علیہ السلام کا ذکر سات بار
صالح علیہ السلام کا ذکر نو بار
ابراہیم علیہ السلام کا ذکر انہتر بار
لوط علیہ السلام کا ذکر ستائیس بار
اسماعیل علیہ السلام کا ذکر بارہ بار
اسحاق علیہ السلام کا سترہ مرتبہ
یعقوب علیہ السلام کا سولہ مرتبہ
یوسف علیہ السلام کا ستائیس مرتبہ
ایوب علیہ السلام کا چار بار
شعیب علیہ السلام کا گیارہ بار
ہارون علیہ السلام کا بیس مرتبہ
ذوالفکل علیہ السلام کا دو مرتبہ
داود علیہ السلام کا سولہ مرتبہ
سلیمان علیہ السلام کا سترہ بار
ہارون علیہ السلام کا بیس بار
الیسع علیہ السلام کا کا د وبار
یونس علیہ السلام کا چار بار
زکریا علیہ السلام کا سات مرتبہ
یحییٰ علیہ السلام کا پانچ مرتبہ
اور
عیسی علیہ السلام کا پچیس مرتبہ
ذکر آیا ہے
اللہ پاک کمی پیشی معاف فرمائے
آمین
منکرین حدیث اور منافق
کافی عرصہ سے میں بہت ہی میٹھی بنی ہوئی ہوں مطلب کہنے کا یہ ہے اصلاح ہی اصلاح لکھ رہی ہوں... لیکن اخلاقی و کردار کی اصلاح اب کچھ دن سے کچھ احباب کا تقاضہ تھا کہ کچھ خالصتاً اسلام کے لیے لکھا جائے خاص کر "منکرین احادیث" کے لیے لیکن اس پر ماشاء اللہ میرے بہن بھائی کام کر رہے ہیں ہیں اور بہترین کر رہے ہیں... تو اس پر بس اپنا ما فی الضمیر بیان کروں گی.... جب میں پڑھتی کہ فلاں صاحب علم صاحب نے اپنے علم کے زعم میں انکار کردیا.... بہت حیرت بھی ہوتی ہے مگر اب نہیں ہورہی کیونکہ ابھی ابھی میں ایک موضوع پڑھا منافق کا اور سچ بات یہ ہے کہ پڑھ کر ایک یہ بات واضح ہوگئ منافق اور منکرین احادیث دونوں یک صفات کے حامل ہیں......
کہ یہ صاحب علم و استدلال ان کے لیے صرف ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے... "علم و دولت سنبھالنا سب کے بس کی بات نہیں اوقات کیسے نہ کیسے دکھائی جاتی ہے دولت میں سدھ بدھ کھولتی ہے اور علم کے زعم میں شعور"
اور یہی حال اُن صاحبِ علم و دانشور منافق اسکالرز کاہے جیسا کہ
قرآن پاک کی روشنی میں منافقین کی تقریبا6 اقسام بیان کی گئیں ہیں
منافقین کی اَقسام
#پہلی_قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے برحق ہونے کے قائل تھے لیکن اس کی خاطر نہ اپنے مفادات کی قربانی کے لئے تیار تھے اور نہ مصائب و آلام کو برداشت کرنے کے لئے لہذا کچھ خود غرضی و مفاد پرستی اور کچھ بزدلی ان کے سچا مسلمان ہونے کے راستے میں حائل تھی۔
#دوسری_قسم ایسے منافقین کی تھی جو دل سے قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض سازش اور فتنہ و شر کے لئے اسلامی صفوں میں گھس آئے تھے۔ یہ اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے۔
#تیسری_قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے اقتدار و حکومت کے باعث مفاد پرستانہ خواہشات کے تحت اسلام سے وابستہ ہو گئے تھے۔ لیکن مخالفینِ اسلام سے بھی اپنا تعلق بدستور قائم رکھے ہوئے تھے تاکہ دونوں طرف سے حسبِ موقع فوائد بھی حاصل کر سکیں اور دونوں طرف کے خطرات سے بھی محفوظ رہیں۔
#چوتھی_قسم ایسے منافقین کی تھی جو ذہنی طور پر اسلام اور کفر کے درمیان متردد تھے۔ نہ انہیں اسلام کی حقانیت پر کامل اعتماد تھا اور نہ وہ اپنی سابقہ کفر یا جاہلیت پر مطمئن تھے وہ اوروں کی دیکھا دیکھی مسلمان ہو گئے تھے لیکن اسلام ان کے اندر راسخ نہیں ہوا تھا۔
#پانچویں_قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو حق سمجھے ہوئے دل سے اس کے قائل تو ہو چکے تھے لیکن پرانے اوہام و عقائد اور رسم و رواج کو چھوڑنے، دینی اور اخلاقی پابندیوں کو قبول کرنے اور اوامر و نواہی کے نظام پر عمل پیرا ہونے کے لئے ان کا نفس تیار نہیں ہو رہا تھا
#چھٹی_قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو توحید، احکامِ الٰہی اور آخرت وغیرہ پر ایمان لانے کی حد تک تو تسلیم کرتے تھے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور وفاداری سے گریزاں تھے۔ نہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و سیادت دل سے ماننے کو تیار تھے اور نہ آپ کی حاکمیت و شفاعت۔ اس میں وہ اپنی ہتک اور ذلت محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ وہ تعلق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ذاتِ ربانی تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔( بحوالہ. منافق کی علامات)
اب قرآن کی روشنی میں موجود علامات ان آج کے اسکالرز(غامدی، کاری واری وغیرہ) میں مل رہی ہے یہ وہ منافق ہیں جو اسلام کو جانتے بھی ہیں پہچانتے بھی ہیں مگر ان کا عَالمْ "منافق ِ وقت" ہونے کے ساتھ ساتھ "عَالمِ ابلیس" کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ابلیس بھی سب جانتا تھا "توحید" کو بھی "درجہ آدم علیہ السلام" کو بھی تب بھی منکرِ سجدہ ہوا تھا... اور منافقین کا بھی یہی عمل رہا سب کچھ جانتے تھے پہچانتے تھے مگر دل کو راسخ ایمان نہ کرسکے..... اور یہی حال ان ماڈرن اور نیم ماڈرن اسلامک اسکالرز کا ہے کہ
بے چارے اسلام کے دامن میں پناہ گزین بھی ہیں، اسلام سے استفادہ بھی لیتے ہیں، اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں، اپنے آپ کو پیشواِ اسلام کہتے ہوئے اسی اسلام کے نام پر پلتے بھی ہیں، اور پھر کم ظرفی، صفت ابلیس، بےایمانی و منافقت دکھاتے ہوئے اسی اسلام میں غلطیاں نکالنے لگتے ہیں..... کیا کہنے ان کے... اس اسلام سے روشناس کروانے والے نبی علیہ الصلاۃ التسلیم کی زبان مبارک سے ادا ہوئے کلمات کا انکار کر کے صاحب علم بن کر تعریفات سمیٹتے ہیں......
قرآن پاک میں ارشاد ہے
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا.
النساء، 4: 115
‘‘اور جو شخص رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہےo’’
یہ آیت ویسے تو بنیادی طور پر پر اجماع پر دلالت کرتی ہے آیتِ متذکرہ اور مندرجہ بالا احادیث سب اجماعِ اُمت کے واجب ہونے کی متقاضی ہیں۔ اس لیے اہلِ اسلام کے نزدیک متفقہ طور پر قرآن و سنت کے بعد ‘‘اجماع’’ کو تیسرے ماخذِ شرعی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اجماع اُمت یا مسلمانوں کے اکثریتی طبقے کے اتقاقِ رائے سے مراد امت کے جہلاء اور محض عوام ہی کے اکثریت کا بغیر دلیل کے کسی مسئلے پر مجتمع ہونا نہیں ہے۔ کیونکہ عوام کو ازخود مسائل کا صحیح علم بھی نہیں ہوتا جب اُمت کا اکثریتی طبقہ کسی دینی موقف پر متفق ہوتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد علماء راسخین اور مجتہدینِ اُمت کی تحقیق و تصریح یا اہلِ علم کا تعامل و تواتر ہی ہوتا ہے۔ اہلِ علم کے قبولِ عام کی بنا پر اس شرعی مؤقف کو امتِ مسلمہ کی اکثریت بھی قبول کر لیتی ہے۔
لہٰذا اس مسئلے پر ذہن با لکل صاف ہونا چاہیے کہ اُمّتِ مسلمہ کے اکثریتی طبقے کا اجماع ازخود واقع نہیں ہو جاتا بلکہ یہ اجماع ہمیشہ اہلِ علم و اجتہاد کی اکثریت کے نزدیک کسی مسئلے پر ‘‘تلقی بالقبول’’ کی بنا پر واقع ہوتا ہے یہی وجہ ہلے کہ اجماعِ امت یا سوادِ اعظم پر مبنی مذہب کو شریعت نے مذہبِ حق قرار دیا ہے۔
اجماعِ صحابہ یا صحابہ کے اکثریتی طبقے کا اتفاق رائے اس لیے آج بھی شرعاً حجت ہے کہ اس کی بنیاد بھی اہلِ علم صحابہ کا اجتہاد ہوتا تھا۔ جو ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں واقع ہوتا۔ جب اسے تمام یا اکثر صحابہ قبولِ عام ہو جاتا تو وہی اجتہاد، اجماع قرار پاتا۔ اور اسی کو سوادِاعظم کا مسلک کہا جاتا تھا تعاملِ صحابہ یا آثارِ تابعین کے متعدد نظائر و شواہد اسی طور واقع ہوئے ہیں۔
لہٰذا اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکثریتی طبقے کو قرآن و سنت کے خلاف اور گمراہ تصور کرنا دراصل اپنی آمریت کو قرآن و سنت یا اسلام کا نام دے کر دوسروں پر مسلط کرنے کی خواہش ہے۔ اس لیے اسے قرآن مجید نے منافقت قرار دیا۔
فلهذا دور حاضر کے قابل اسکالرز میرا کہنے کا مطلب ہے منافق ِ وقت، ان کی خود کی نظر میں دانشور ِ وقت سے کہنا یہ کہ
اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَيٰطِيْنِهِمْ قَالُوْا اِنَّا مَعَکُمْ.
کی تفسیر بغور مطالعہ فرمائیں(اپنی خود کی کی ہوئی تفسیر نہیں پڑھنی....) اور سورہ بقرہ کے دوسرے رکوع کو بھی پڑھ لیں..... اور پھر
اپنے نفس کو سمجھائیں جو آپ کو شیطان بن کر ملتا ہے اور آپ نفس کی تسکین یا دیگر جو بھی مفادات ہیں ان سے قاطع نظر دین اسلام کے لیے کام کریں نہ کہ
اپنے مفادات کی خاطر مسلمانوں کے ذہن و ایمان خراب کرنے کی کوشش کی جائے....